Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: What to say on returning from Jihad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3085.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے۔ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ ؓ سوار تھیں، جنھیں آپ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر پڑے۔ حضرت انس ؓ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (حضرت ابو طلحہ ؓ) اپنے اونٹ ہی سے کود پڑے اور (آپ ﷺ کے پاس آکر) عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓاپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ ؓ کی طرف چل دیے۔ پھر انھوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ حضرت صفیہ ؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہوگئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ مدینہ کی سرزمین کے قریب پہنچے یا دور سے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہم سفر سے لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمدوثنا کرنے والے ہیں۔‘‘ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے حتیٰ کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوگئے۔
تشریح:
1۔ یہ واقعہ غزوہ عسفان سے واپسی پر نہیں بلکہ غزوہ خیبر سے واپسی پر وقوع پذیر ہوا تھا کیونکہ غزوہ عسفان چھ ہجری میں ہوا جبکہ خیبر کا واقعہ سات ہجری میں ہوا ہے اور اسی سفر میں حضرت صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار ہوئی تھیں۔ 2۔ بعض اہل علم نے کہا کہ غزوہ عسفان کے متصل بعد غزوہ خیبر ہوا تھا اور دونوں کے درمیان والا عرصہ نظر انداز کردیاگیا کیونکہ وہ بہت تھوڑی مدت تھی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے مروی حدیث میں متعہ کی تحریم کو غزوہ اوطاس کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، حالانکہ متعے کی تحریم فتح مکہ میں ہوئی تھی، تو جس طرح غزوہ اوطاس کے فتح مکہ سے متصل ہونے کے باعث متعے کی تحریم غزوہ اوطاس کی طرف کردی گئی ہے اسی طرح غزوہ عسفان بھی غزوہ خیبر سے متصل تھا اس بنا پر مذکورہ واقعے کو غزوہ عسفان کی طرف منسوب کردیاگیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:232/6)
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے۔ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ ؓ سوار تھیں، جنھیں آپ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر پڑے۔ حضرت انس ؓ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (حضرت ابو طلحہ ؓ) اپنے اونٹ ہی سے کود پڑے اور (آپ ﷺ کے پاس آکر) عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓاپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ ؓ کی طرف چل دیے۔ پھر انھوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ حضرت صفیہ ؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہوگئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ مدینہ کی سرزمین کے قریب پہنچے یا دور سے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہم سفر سے لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمدوثنا کرنے والے ہیں۔‘‘ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے حتیٰ کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ واقعہ غزوہ عسفان سے واپسی پر نہیں بلکہ غزوہ خیبر سے واپسی پر وقوع پذیر ہوا تھا کیونکہ غزوہ عسفان چھ ہجری میں ہوا جبکہ خیبر کا واقعہ سات ہجری میں ہوا ہے اور اسی سفر میں حضرت صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار ہوئی تھیں۔ 2۔ بعض اہل علم نے کہا کہ غزوہ عسفان کے متصل بعد غزوہ خیبر ہوا تھا اور دونوں کے درمیان والا عرصہ نظر انداز کردیاگیا کیونکہ وہ بہت تھوڑی مدت تھی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے مروی حدیث میں متعہ کی تحریم کو غزوہ اوطاس کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، حالانکہ متعے کی تحریم فتح مکہ میں ہوئی تھی، تو جس طرح غزوہ اوطاس کے فتح مکہ سے متصل ہونے کے باعث متعے کی تحریم غزوہ اوطاس کی طرف کردی گئی ہے اسی طرح غزوہ عسفان بھی غزوہ خیبر سے متصل تھا اس بنا پر مذکورہ واقعے کو غزوہ عسفان کی طرف منسوب کردیاگیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:232/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ وہ اور ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، ام المؤمنین حضرت صفیہ ؓ کو آنحضرت ﷺ نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ راستے میں اتفاق سےآپ کی اونٹنی پھسل گئی اورآنحضرت ﷺ گر گئے اور ام المؤمنین بھی گر گئیں۔ ابو طلحہ ؓ نے یوں کہا کہ میں سمجھتا ہوں‘ انہوں نے اپنے آپ کو اونٹ سے گرا دیا اور آنحضرت ﷺ کے قریب پہنچ کر عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے کوئی چوٹ تو حضور کو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں لیکن تم عورت کی خبر لو۔ چنانچہ انہوں نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا‘ پھر ام المؤمنین کی طرف پڑھے اوروہی کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اب ام المؤمنین کھڑی ہو گئیں۔ پھر ابو طلحہ ؓ نے آپ دونوں کے لئے اونٹنی کو مضبوط کیا۔ تو آپ سوار ہوئے اور سفر شروع کیا۔ جب مدینہ منورہ کے سامنے پہنچ گئے یا راوی نے یہ کہا کہ جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو نبی کریم ﷺ نے یہ دعا پڑھی۔ ’’ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اوراس کی تعریف کرنے والے ہیں! آپ ﷺ یہ دعا برابر پڑھتے رہے‘ یہاں تک کی مدینہ میں داخل ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں راوی سے سہو ہو گیا ہے۔ صحیح یوں ہے کہ جب آنحضرتﷺ خیبر سے لوٹے اس وقت حضرت صفیه ؓ آپ کے ساتھ تھیں۔ کیونکہ یہ خاتون آپ کو جنگ خیبر ہی میں ملی تھیں۔ جو ۷ھ میں ہوئی۔ جنگ بنو لحیان ۶ھ میں ہوئی ہے۔ اس وقت حضرت صفیہ ؓ موجود نہ تھیں۔ حضرت ابو طلحہ اپنے منہ پر کپڑا ڈال کر اس لئے آئے کہ حضرت صفیہ ؓ پر نظر نہ پڑے۔ واپسی پر آنحضرتﷺ کی زبان مبارک پر الفاظ طیبہ ''آئبون تائبون'' جاری تھے۔ باب سے یہی وجہ مناسبت ہے۔ اب بھی سنت یہی ہے کہ سفر حج ہو یا اور کوئی سفر خیریت سے واپسی پر اس دعا کو پڑھا جائے۔ عورت کو اپنے مرد کے پیچھے اونٹنی پر سواری کرنا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا۔ وفي الخیر الجاري أنما قالت من عسفان لأن غزوة خیبر کانت عقبها کأنه لم یعتد بالإقامة المتخللة بینهما لتقار بهمایعنی عسفان کا لفظ لانے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ غزوہ خیبر اس کے بعد ہی ہوا‘ اتنے قریب کہ راوی نے درمیانی عرصہ کو کوئی اہمیت نہیں دی اور ہر دو کو ایک ہی سطح پر رکھ لیا جیسا کہ حدیث سلمہ بن اکوع ؓ میں تحریم متعہ کے بارے میں غزوہ اوطاس کا ذکر آیا ہے۔ حالانکہ وہ مکہ ہی میں حرام ہو چکا تھا۔ مگر اوطاس اور مکہ میں تقارب کی وجہ سے وہ اس کی طرف منسوب کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We were in the company of the Prophet (ﷺ) while returning from 'Usfan, and Allah's Apostle (ﷺ) was riding his she-camel keeping Safiya bint Huyay riding behind him. His she-camel slipped and both of them fell down. Abu Talha jumped from his camel and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! May Allah sacrifice me for you." The Prophet (ﷺ) said, "Take care of the lady." So, Abu Talha covered his face with a garment and went to Safiya and covered her with it, and then he set right the condition of their shecamel so that both of them rode, and we were encircling Allah's Apostle (ﷺ) like a cover. When we approached Medina, the Prophet (ﷺ) said, "We are returning with repentance and worshipping and praising our Lord." He kept on saying this till he entered Medina.