Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The obligations of Khumus)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3091.
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بددر میں غنیمت کے مال سے ایک اونٹنی میرے حصے مین آئی اور ایک اونٹنی مجھے نبی کریم ﷺ نے خمس کے مال سے عطا کی۔ جب میرا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نکاح کےبعد اپنے گھر لاؤں تو میں نے طے کیا کہ بنو قینقاع کے ایک زرگر کواپنے ساتھ لوں اور ہم دونوں اذخر گھاس لائیں، پھر میں اس گھاس کو سناروں کے ہاں فروخت کرکے اس کی قیمت سے اپنے نکاح کاولیمہ کروں۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان، پالان، تھیلے اور رسیاں وغیرہ جمع کررہا تھا جبکہ میری وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں جمع کردہ سامان لے کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے پیٹ چاک کرکے اندر سے ان کی کلیجی بھی نکال لی گئی ہے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پوچھا: یہ حرکت کس نے کی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حمزہ بن عبدالمطلب کا فعل ہے او وہ اس گھر میں شراب نوشی کے لیے چند انصاریوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں وہاں سے چلا اور سیدھا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں کسی بڑے صدمے سے دوچار ہوں، اس لیے نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’کیابات ہے؟‘‘ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے آج جیسا صدمہ کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ نے میری دونوں اونٹنیوں پر دست درازی کی ہے اور اس نے دونوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ چاک کردیے ہیں اور وہ اسی گھر میں اپنے دوستوں کے ہمراہ مے نوشی کی مجلس جمائے ہوئے موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر اپنی چادر منگوائی اور سے زیب تن کرکے پیدل چلنے لگے۔ میں اور زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے ساتھ ہولیے۔ جب اسی گھر میں پہنچے جس میں حضرت حمزہ ؓموجود تھے توآپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اندر موجود تمام لوگوں نے آپ کو اجازت دےدی۔ کیادیکھتے ہیں کہ وہ سب شراب نوشی میں مصروف ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ ؓ کو ان کی کاروائی پر ملامت کرنے لگے تو وہ نشے میں دھت اور ان کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔ حضرت حمزہ ؓنے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، پھر نظر اٹھائی تو آپ کو گھٹنوں تک دیکھا، پھر نظر اوپر کی تو آپ کو ناف تک دیکھا، پھر اپنی نظر کو اوپر اٹھایا تو آپ کے چہرہ انور پر نگاہ کو جما دیا اور کہنے لگے: تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ یہ حال دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ وہ نشے میں دھت ہیں تو آپ وہیں سے الٹے پاؤں واپس آگئے اور ہم بھی آپ کے ہمراہ وہاں سے باہر آگئے۔
تشریح:
1۔ مدنی دورکے آغاز میں شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمان شراب نوشی کرتے تھے۔ غزوہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی قطعی حرمت کے احکام نازل فرمائے۔ حضرت حمزہ ؓ سے نشے کی حالت میں خلاف ادب الفاظ صادر ہوئے اس لیے رسول اللہ ﷺنے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ البتہ اونٹنیوں کو ہلاک کرنے کا مالی تاوان ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ﷺ کو تاوان دلایا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒنے مصنف ابن شیبہ ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے ہوش آنے کے بعد رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓ کو ہلاک شدہ اونٹنیوں کا حضرت حمزہ ؓ سے تاوان دلایا۔ (فتح الباري:241/6) 2۔اس لمبی حدیث کو امام بخاری ؒنے اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں مال غنیمت کے خمس سے حضرت علی ؓکو ایک جوان اونٹنی دینے کا ذکر ہے۔ 3۔واضح رہے کہ خمس کی آیت بدر کی غنیمت کے متعلق نازل ہوئی اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کردیا گیا۔ اس میں سے ایک اونٹنی حضرت علی ؓ کو ملی تھی اور دوسری اونٹنی رسول اللہ ﷺنے انھیں مال خمس سے دی تھی جو آپ کو غنیمت کے مال سے حاصل ہوا تھا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2976
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3091
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3091
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3091
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
لفظ خمس اس پانچویں حصہ پر بولا جاتا ہے‘ جو اموال غنیمت سے نکال کر خاص مصارف میں صرف ہوتا ہے۔ باقی ماندہ مال مجاہدین میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بددر میں غنیمت کے مال سے ایک اونٹنی میرے حصے مین آئی اور ایک اونٹنی مجھے نبی کریم ﷺ نے خمس کے مال سے عطا کی۔ جب میرا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نکاح کےبعد اپنے گھر لاؤں تو میں نے طے کیا کہ بنو قینقاع کے ایک زرگر کواپنے ساتھ لوں اور ہم دونوں اذخر گھاس لائیں، پھر میں اس گھاس کو سناروں کے ہاں فروخت کرکے اس کی قیمت سے اپنے نکاح کاولیمہ کروں۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان، پالان، تھیلے اور رسیاں وغیرہ جمع کررہا تھا جبکہ میری وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں جمع کردہ سامان لے کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے پیٹ چاک کرکے اندر سے ان کی کلیجی بھی نکال لی گئی ہے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پوچھا: یہ حرکت کس نے کی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حمزہ بن عبدالمطلب کا فعل ہے او وہ اس گھر میں شراب نوشی کے لیے چند انصاریوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں وہاں سے چلا اور سیدھا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں کسی بڑے صدمے سے دوچار ہوں، اس لیے نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’کیابات ہے؟‘‘ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے آج جیسا صدمہ کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ نے میری دونوں اونٹنیوں پر دست درازی کی ہے اور اس نے دونوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ چاک کردیے ہیں اور وہ اسی گھر میں اپنے دوستوں کے ہمراہ مے نوشی کی مجلس جمائے ہوئے موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر اپنی چادر منگوائی اور سے زیب تن کرکے پیدل چلنے لگے۔ میں اور زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے ساتھ ہولیے۔ جب اسی گھر میں پہنچے جس میں حضرت حمزہ ؓموجود تھے توآپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اندر موجود تمام لوگوں نے آپ کو اجازت دےدی۔ کیادیکھتے ہیں کہ وہ سب شراب نوشی میں مصروف ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ ؓ کو ان کی کاروائی پر ملامت کرنے لگے تو وہ نشے میں دھت اور ان کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔ حضرت حمزہ ؓنے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، پھر نظر اٹھائی تو آپ کو گھٹنوں تک دیکھا، پھر نظر اوپر کی تو آپ کو ناف تک دیکھا، پھر اپنی نظر کو اوپر اٹھایا تو آپ کے چہرہ انور پر نگاہ کو جما دیا اور کہنے لگے: تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ یہ حال دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ وہ نشے میں دھت ہیں تو آپ وہیں سے الٹے پاؤں واپس آگئے اور ہم بھی آپ کے ہمراہ وہاں سے باہر آگئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مدنی دورکے آغاز میں شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمان شراب نوشی کرتے تھے۔ غزوہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی قطعی حرمت کے احکام نازل فرمائے۔ حضرت حمزہ ؓ سے نشے کی حالت میں خلاف ادب الفاظ صادر ہوئے اس لیے رسول اللہ ﷺنے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ البتہ اونٹنیوں کو ہلاک کرنے کا مالی تاوان ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ﷺ کو تاوان دلایا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒنے مصنف ابن شیبہ ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے ہوش آنے کے بعد رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓ کو ہلاک شدہ اونٹنیوں کا حضرت حمزہ ؓ سے تاوان دلایا۔ (فتح الباري:241/6) 2۔اس لمبی حدیث کو امام بخاری ؒنے اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں مال غنیمت کے خمس سے حضرت علی ؓکو ایک جوان اونٹنی دینے کا ذکر ہے۔ 3۔واضح رہے کہ خمس کی آیت بدر کی غنیمت کے متعلق نازل ہوئی اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کردیا گیا۔ اس میں سے ایک اونٹنی حضرت علی ؓ کو ملی تھی اور دوسری اونٹنی رسول اللہ ﷺنے انھیں مال خمس سے دی تھی جو آپ کو غنیمت کے مال سے حاصل ہوا تھا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی‘ انہیں یونس نے‘ ان سے زہری نے بیان کیا‘ انہیں زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی اور انہیں حسین بن علی ؓ نے خبر دی کہ حضرت علی ؓ نے بیان کیا‘ جنگ بدر کے مال غنیمت سے میرے حصے میں ایک جوان اونٹنی آئی تھی اور نبی کریم ﷺ نے بھی ایک جوان اونٹنی خمس کے مال میں سے دی تھی‘ جب میرا ارادہ ہوا کہ فاطمہ ؓ بنت رسول اللہ ﷺ سے شادی کروں‘ تو بنی قینقاع (قبیلہ یہود) کے ایک صاحب سے جو سنار تھے‘ میں نے یہ طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں اذخرگھاس (جنگل سے) لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں وہ گھاس سناروں کو بیچ دوں گا اور اس کی قیمت سے اپنے نکاح کا ولیمہ کروں گا۔ ابھی میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان‘ پالان اور تھیلے اور رسیاں جمع کر رہا تھا۔ اور یہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے گھر کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جب سارا سامان فراہم کر کے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں۔ اور انکے پیٹ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی گئی ہیں۔ جب میں نے یہ حال دیکھا تو میں بے اختیار رو دیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب ؓ نے اور وہ اسی گھر میں کچھ انصار کے ساتھ شراب پی رہے ہیں۔ میں وہاں سے واپس آ گیا اور سیدھا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت ﷺ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں کسی بڑے صدمے میں ہوں۔ اس لئے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا‘ علی! کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے آج کے دن جیسا صدمہ کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ ؓ نے میری دونوں اونٹنیوں پر ظلم کردیا۔ دونوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کے پیٹ چیر ڈالے۔ ابھی وہ اسی گھر میں کئی یاروں کے ساتھ شراب کی مجلس جمائے ہوئے موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر اپنی چادرمانگی اور اسے اوڑھ کر پیدل چلنے لگے۔ میں اور زیدبن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے۔ آخر جب وہ گھر آگیا جس میں حمزہ ؓ موجود تھے تو آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور اندر موجود لوگوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ وہ لوگ شراب پی رہے تھے۔ حمزہ ؓ نے جو کچھ کیا تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں کچھ ملامت کرنا شروع کی۔ حمزہ ؓ کی آنکھیں شراب کے نشے میں مخمور اور سرخ ہو رہی تھیں۔ انہوں نے نظر اٹھا کر آپ ﷺ کو دیکھا۔ پھر نظر ذرا اور اوپر اٹھائی‘ پھر وہ آنحضرت ﷺ کے گھٹنوں پر نظر لے گئے اس کے بعد نگاہ اور اٹھا کے آپ ﷺ کی ناف کے قریب دیکھنے لگے۔ پھر چہرے پر جمادی۔ پھر کہنے لگے کہ تم سب میر ے باپ کے غلام ہو، یہ حال دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے جب محسوس کیا کہ حمزہ ؓ بالکل نشے میں ہیں، تو آپ وہیں سے الٹے پاؤں واپس آ گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے۔
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث کو حضرت امام یہاں اس لئے لائے کہ اس میں اموال غنیمت کے خمس میں سے حضرت على ؓ کو ایک جوان اونٹنی ملنے کا ذکر ہے۔ یہ اونٹنی اس مال میں سے تھی جو عبداللہ بن جحش ؓ کی ماتحت فوج نے حاصل کیا تھا۔ یہ جنگ بدر سے دومہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت تک خمس کاحکم نہیں اتراتھا۔ لیکن عبداللہ بن جحش ؓنے چار حصے تو فوج میں تقسیم کر دیئے اور پانچواں حصہ اپنی رائے سے آنحضرت ﷺ کے لئے رکھ چھوڑا۔ پھر قرآن شریف میں بھی ایسا ہی حکم نازل ہوا۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت حمزہ ؓ کے پاس ایک گانے والی بھی تھی جس نے گانے کے دوران ان جوان اونٹنیوں کے کلیجے سے کباب بنانے اورکھانے کی حضرت حمزہ ؓ کو ترغیب دلائی اور اس پر وہ نشے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور ان اونٹنیوں کو کاٹ کر ان کے کلیجے نکال لئے۔ حضرت علی ؓ کا صدمہ بھی بجا تھا اور پاس ادب بھی ضروری‘ اس لئے وہ غصہ کو پی کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ مقدمہ کے حالات کا معائنہ فرمانے کے لئے خود تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہ ؓ اس وقت نشہ میں چور تھے۔ شراب اسوقت تک حرام نہیں ہوئی تھی‘ نشہ کی حالت میں حضرت حمزہ ؓ کے منہ سے بے ادبی کے الفاظ نکل گئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ کے ہوش میں آنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ان اونٹنیوں کا تاوان دلایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ali (RA): I got a she-camel in my share of the war booty on the day (of the battle) of Badr, and the Prophet (ﷺ) had given me a she-camel from the Khumus. When I intended to marry Fatima, the daughter of Allah's Apostle, I had an appointment with a goldsmith from the tribe of Bani Qainuqa' to go with me to bring Idhkhir (i.e. grass of pleasant smell) and sell it to the goldsmiths and spend its price on my wedding party. I was collecting for my she-camels equipment of saddles, sacks and ropes while my two she-camels were kneeling down beside the room of an Ansari man. I returned after collecting whatever I collected, to see the humps of my two she-camels cut off and their flanks cut open and some portion of their livers was taken out. When I saw that state of my two she-camels, I could not help weeping. I asked, "Who has done this?" The people replied, "Hamza bin Abdul Muttalib who is staying with some Ansari drunks in this house." I went away till I reached the Prophet (ﷺ) and Zaid bin Haritha was with him. The Prophet (ﷺ) noticed on my face the effect of what I had suffered, so the Prophet (ﷺ) asked. "What is wrong with you." I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have never seen such a day as today. Hamza attacked my two she-camels, cut off their humps, and ripped open their flanks, and he is sitting there in a house in the company of some drunks." The Prophet (ﷺ) then asked for his covering sheet, put it on, and set out walking followed by me and Zaid bin Haritha till he came to the house where Hamza was. He asked permission to enter, and they allowed him, and they were drunk. Allah's Apostle (ﷺ) started rebuking Hamza for what he had done, but Hamza was drunk and his eyes were red. Hamza looked at Allah's Apostle (ﷺ) and then he raised his eyes, looking at his knees, then he raised up his eyes looking at his umbilicus, and again he raised up his eyes look in at his face. Hamza then said, "Aren't you but the slaves of my father?" Allah's Apostle (ﷺ) realized that he was drunk, so Allah's Apostle (ﷺ) retreated, and we went out with him.