۔۔۔"اور اگر اہل ایمان میں سے دوکردہ آپس میں قتال کریں تو ان کے درمیان صلح کرادو ۔اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جنگ وقتال کے باوجود دونوں گروہوں کے لیے لفظ مومن استعمال فرمایا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: "And if two parties (or groups) from among the believers fall to fighting, then make peace between them both…" Allah has called them "believers")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
31.
احنف بن قیس کا بیان ہے کہ میں اس شخص (حضرت علی ؓ) کی مدد کے لیے چلا۔ راستے میں مجھے حضرت ابوبکرہ ؓ ملے۔ انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: میرا ارادہ اس شخص کی مدد کرنے کا ہے۔ انہوں نے فرمایا: واپس ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر آپس میں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (اس کا جہنمی ہونا سمجھ میں آتا ہے) لیکن مقتول کا کیا جرم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اس کی خواہش بھی دوسرے ساتھی کو قتل کرنے کی تھی۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث سے بھی خوارج کی تردید ہوتی ہے کہ عمل قتال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’مسلمان‘‘ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں بایں حالت اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔ حدیث کےآخری حصے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلی ارادہ جب مصمم ہو جائے تو اس پر بھی مؤاخذہ ہو گا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک اس کے مطابق عمل نہ کریں۔ ان دونوں باتوں میں تضاد نہیں کیونکہ ایسے خیالات پر مؤاخذہ نہیں ہوگا جو پختہ نہ ہوں، یعنی آئیں اور گزر جائیں، البتہ مصمم ارادے اور پختہ عزم پر ضرور مؤاخذہ ہوگا اگرچہ اس کے مطابق عمل نہ کیا جا سکے۔ (شرح الکرماني:444/1) 2۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا اس بنا پر خود بھی جنگ جمل میں شریک نہ ہوئے اور حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی شرکت سے روک دیا حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جب لڑنے کے لیے نکل آئیں اور جنگ حق کی بنا پر نہ ہو بلکہ ہوس ملک گیری یا عصبیت وغیرہ اس کی محرک ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں اور اگرمنشا صحیح اور لڑنے والے حق کی حمایت میں جارہے ہوں اور ہر مسلمان اپنی پوری احتیاط اور تحقیق کے ساتھ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہو رہا ہو تو دونوں جنتی ہیں کیونکہ حق پر لڑنے کی قرآن نے خود اجازت دی ہے۔ ( الحجرات:49/9) یہی وجہ ہے کہ حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تو حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر واپس ہو گئے لیکن جب غور وفکر کیا تو اپنی رائے سے رجوع کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دیا البتہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت اخلاص واحتیاط کے ساتھ لڑائی کی شدت کم کرنے کی کوشش پر مبنی تھی۔ ( فتح الباري:1؍ 117) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ 3۔ جنگ جمل کی تفصیلات آئندہ بیان ہوں گی البتہ عنوان کی مناسبت سے اس مقام پر اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہوئے وہ خواہ قاتل ہوں یا مقتول وہ حدیث میں مذکوروعید سے خارج ہیں اور جن لوگوں کا مقصد محض فساد برپاکرنا تھا۔ وہ قاتل ہوں یا مقتول ازروئے حدیث جہنمی ہیں۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف جو لوگ حق کی حمایت کے لیے کھڑے ہوئے وہ (بِإِذْنِ اللَّهِ) جنت میں جائیں گے لیکن جن لوگوں کا مقصد حصول اقتدار عہدہ طلبی عصبیت یا اور کوئی دنیاوی غرض تھی ان کے متعلق حدیث نبوی ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عصبیت کا مفہوم یہ ہے کہ حالات کی تحقیق کیے بغیر صرف یہ سمجھ کر کسی کی مدد کی جائے کہ یہ اپنا آدمی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
31
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
31
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
30
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
31
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
معتزلہ اور خوارج کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید فرمائی ہے۔حدیث میں ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔( صحیح البخاری:الایمان،حدیث:48۔)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہم ایک دوسرے کو مارنا کفر ہے لیکن اس کے باوجود آیت کریمہ میں ایمان کا نام ان سے الگ نہیں ہوا۔ اگر قتال کرنے والے اس عمل کی وجہ سے کافر ہوگئے۔ہوتے تو اللہ تعالیٰ انھیں اس شریف لقب سے نہ نوازتا اور نہ ان میں صلح کرانے کا حکم دیتا بلکہ انھیں لڑ کر ختم ہونے دیا جاتا۔معلوم ہوا کہ(قِتَالُهُ كُفْرٌ)میں اس عمل کی سنگینی کاا ظہار مقصود ہے، اس کے کفرکا اعلان پیش نظر نہیں ہے۔ اس سے کفر ،کفر میں فرق ہوتا ہے والا مسئلہ بھی مزید صاف ہوجاتا ہے کہ یہ کفر اس کفر سے کم درجے کا ہے جس کے لیے خلود فی النار لازم ہے۔
احنف بن قیس کا بیان ہے کہ میں اس شخص (حضرت علی ؓ) کی مدد کے لیے چلا۔ راستے میں مجھے حضرت ابوبکرہ ؓ ملے۔ انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: میرا ارادہ اس شخص کی مدد کرنے کا ہے۔ انہوں نے فرمایا: واپس ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر آپس میں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (اس کا جہنمی ہونا سمجھ میں آتا ہے) لیکن مقتول کا کیا جرم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اس کی خواہش بھی دوسرے ساتھی کو قتل کرنے کی تھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے بھی خوارج کی تردید ہوتی ہے کہ عمل قتال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’مسلمان‘‘ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں بایں حالت اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔ حدیث کےآخری حصے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلی ارادہ جب مصمم ہو جائے تو اس پر بھی مؤاخذہ ہو گا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک اس کے مطابق عمل نہ کریں۔ ان دونوں باتوں میں تضاد نہیں کیونکہ ایسے خیالات پر مؤاخذہ نہیں ہوگا جو پختہ نہ ہوں، یعنی آئیں اور گزر جائیں، البتہ مصمم ارادے اور پختہ عزم پر ضرور مؤاخذہ ہوگا اگرچہ اس کے مطابق عمل نہ کیا جا سکے۔ (شرح الکرماني:444/1) 2۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا اس بنا پر خود بھی جنگ جمل میں شریک نہ ہوئے اور حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی شرکت سے روک دیا حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جب لڑنے کے لیے نکل آئیں اور جنگ حق کی بنا پر نہ ہو بلکہ ہوس ملک گیری یا عصبیت وغیرہ اس کی محرک ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں اور اگرمنشا صحیح اور لڑنے والے حق کی حمایت میں جارہے ہوں اور ہر مسلمان اپنی پوری احتیاط اور تحقیق کے ساتھ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہو رہا ہو تو دونوں جنتی ہیں کیونکہ حق پر لڑنے کی قرآن نے خود اجازت دی ہے۔ ( الحجرات:49/9) یہی وجہ ہے کہ حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تو حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر واپس ہو گئے لیکن جب غور وفکر کیا تو اپنی رائے سے رجوع کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دیا البتہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت اخلاص واحتیاط کے ساتھ لڑائی کی شدت کم کرنے کی کوشش پر مبنی تھی۔ ( فتح الباري:1؍ 117) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ 3۔ جنگ جمل کی تفصیلات آئندہ بیان ہوں گی البتہ عنوان کی مناسبت سے اس مقام پر اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہوئے وہ خواہ قاتل ہوں یا مقتول وہ حدیث میں مذکوروعید سے خارج ہیں اور جن لوگوں کا مقصد محض فساد برپاکرنا تھا۔ وہ قاتل ہوں یا مقتول ازروئے حدیث جہنمی ہیں۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف جو لوگ حق کی حمایت کے لیے کھڑے ہوئے وہ (بِإِذْنِ اللَّهِ) جنت میں جائیں گے لیکن جن لوگوں کا مقصد حصول اقتدار عہدہ طلبی عصبیت یا اور کوئی دنیاوی غرض تھی ان کے متعلق حدیث نبوی ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عصبیت کا مفہوم یہ ہے کہ حالات کی تحقیق کیے بغیر صرف یہ سمجھ کر کسی کی مدد کی جائے کہ یہ اپنا آدمی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بیان کیا عبدالرحمن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انھوں نے حسن سے، انھوں نے احنف بن قیس سے، کہا کہ میں اس شخص (حضرت علی ؓ ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص (حضرت علی ؓ) کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: ’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا: ’’وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔‘‘ (موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا)۔
حدیث حاشیہ:
اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کوکافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی ؓکے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تووہ لوٹ گئے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دومسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت ﴿فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ﴾(سورة الحجرات: 9) سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی ؓ کے ساتھ رہے اور انھوں نے ابوبکرہؓ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی ﷺ کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Ahnaf bin Qais (RA): While I was going to help this man ('Ali Ibn Abi Talib (RA) ), Abu Bakra (RA) met me and asked, "Where are you going?" I replied, "I am going to help that person." He said, "Go back for I have heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'When two Muslims fight (meet) each other with their swords, both the murderer as well as the murdered will go to the Hell-fire.' I said, 'O Allah's Apostle (ﷺ)! It is all right for the murderer but what about the murdered one?' Allah's Apostle (ﷺ) replied, "He surely had the intention to kill his companion."