باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The armour of the Prophet saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ اور آپ کے بعد جو خلیفہ ہوئے انہوں نے یہ چیزیں استعمال کیں ‘ ان کو تقسیم نہیں کیا ‘ اور آپﷺکے موئے مبارک اور نعلین اور برتنوں کا بیان جن کو آپ کے اصحاب وغیرہ نے آپ کی وفات کے بعد ( تاریخی طور پر ) متبرک سمجھا ۔ الغرض من هذه الترجمة تثبيت انه ﷺلم يورث ولابيع موجوده بل ترك بيد من صار اليه للتبرك به ولو كان ميراثا لبيعت ولا قسمت ولهذا قال بعد ذلك مما لم يذكرقسمته(فتخ الباری)اس باب کی غرض اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ کا کسی کووارث نہیں بنایا گیا اور نہ آپ کا ترکہ بیچا گیا بلکہ جس کی تحویل میں وہ ترکہ پہنچ گیا تبرک کے لئے اس کے پاس چھوڑ دیا گیا اور اگر آپﷺ کا ترکہ میراث ہوتا تووہ بیچا جاتا اور تقسیم کیا جاتا اسی لئے بعد میں کہا گیا کہ ان چیزوں کا بیان جن کی تقسیم ثابت نہیں۔
3108.
حضرت ابو بردہ ؓسے روایت، انھوں نے کہاکہ حضرت عائشہ ؓنے ایک پیوند لگی ہوئی چادر نکال کر ہمیں دکھائی اور فرمایا: اس میں (اس کو اوڑھے ہوئے) نبی کریم ﷺ کی روح قبض کی گئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق راوی حدیث ابو بردہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓنے ایک موٹا تہبند نکال کر ہمیں دکھایا جو یمن میں بنتا تھا اور ایک چادر جس کو تم ملبدہ (موٹی یا پیوند لگی) کہتے ہو۔ (فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی ہیں۔)
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جو کپڑا میسر آتا اسے زیب تین فرماتے، البتہ آپ کا لباس صاف ستھرا، اجلا اور شفاف ہوتا تھا، لیکن بناؤسنگار سے پرہیز کیا کر تے تھے۔ پیوند لگی چادر کبھی بہ نظر تواضع یا اتفاقاً پہنی ہوگی، خوامخواہ پھٹا پرانا لباس پہننا آپ کی شان کے شایان نہ تھا، بہرحال آپ کے لباس کو بطور یاد گار محفوظ کیا گیا، اسے تقسیم کرکے اس میں وراثت کا اصول جاری نہیں کیاگیا، آخرکار وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوگیا۔ 2۔ ان آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس آپ کی کوئی نشانی تھی، اس نے وصیت کردی تھی کہ مرنے کے بعد قبر میں اسے اس کے ساتھ ہی فن کردیا جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی۔ آپ نے اسے قبو ل کرتے ہوئے زیب تن فرمایا۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ ان کا کفن ہو رسول اللہ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی۔ بالآخر وہی چادر ان کا کفن بنی۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1277) اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنایاگیا، اسے بھی بطورکفن قبر میں دفن کردیا گیا۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1270)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2992
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3108
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3108
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3108
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ اور آپ کے بعد جو خلیفہ ہوئے انہوں نے یہ چیزیں استعمال کیں ‘ ان کو تقسیم نہیں کیا ‘ اور آپﷺکے موئے مبارک اور نعلین اور برتنوں کا بیان جن کو آپ کے اصحاب وغیرہ نے آپ کی وفات کے بعد ( تاریخی طور پر ) متبرک سمجھا ۔ الغرض من هذه الترجمة تثبيت انه ﷺلم يورث ولابيع موجوده بل ترك بيد من صار اليه للتبرك به ولو كان ميراثا لبيعت ولا قسمت ولهذا قال بعد ذلك مما لم يذكرقسمته(فتخ الباری)اس باب کی غرض اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ کا کسی کووارث نہیں بنایا گیا اور نہ آپ کا ترکہ بیچا گیا بلکہ جس کی تحویل میں وہ ترکہ پہنچ گیا تبرک کے لئے اس کے پاس چھوڑ دیا گیا اور اگر آپﷺ کا ترکہ میراث ہوتا تووہ بیچا جاتا اور تقسیم کیا جاتا اسی لئے بعد میں کہا گیا کہ ان چیزوں کا بیان جن کی تقسیم ثابت نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بردہ ؓسے روایت، انھوں نے کہاکہ حضرت عائشہ ؓنے ایک پیوند لگی ہوئی چادر نکال کر ہمیں دکھائی اور فرمایا: اس میں (اس کو اوڑھے ہوئے) نبی کریم ﷺ کی روح قبض کی گئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق راوی حدیث ابو بردہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓنے ایک موٹا تہبند نکال کر ہمیں دکھایا جو یمن میں بنتا تھا اور ایک چادر جس کو تم ملبدہ (موٹی یا پیوند لگی) کہتے ہو۔ (فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی ہیں۔)
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جو کپڑا میسر آتا اسے زیب تین فرماتے، البتہ آپ کا لباس صاف ستھرا، اجلا اور شفاف ہوتا تھا، لیکن بناؤسنگار سے پرہیز کیا کر تے تھے۔ پیوند لگی چادر کبھی بہ نظر تواضع یا اتفاقاً پہنی ہوگی، خوامخواہ پھٹا پرانا لباس پہننا آپ کی شان کے شایان نہ تھا، بہرحال آپ کے لباس کو بطور یاد گار محفوظ کیا گیا، اسے تقسیم کرکے اس میں وراثت کا اصول جاری نہیں کیاگیا، آخرکار وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوگیا۔ 2۔ ان آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس آپ کی کوئی نشانی تھی، اس نے وصیت کردی تھی کہ مرنے کے بعد قبر میں اسے اس کے ساتھ ہی فن کردیا جائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی۔ آپ نے اسے قبو ل کرتے ہوئے زیب تن فرمایا۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ ان کا کفن ہو رسول اللہ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی۔ بالآخر وہی چادر ان کا کفن بنی۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1277) اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنایاگیا، اسے بھی بطورکفن قبر میں دفن کردیا گیا۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1270)
ترجمۃ الباب:
ان تمام چیزوں کو آپ کے بعد خلفائے راشدین نے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کے موئے مبارک، نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے ابوبردہ بن ابو موسیٰ نے بیان کیا کہا عائشہ ؓ نے ہمیں ایک پیوند لگی ہوئی چادر نکال کر دکھائی اور بتلایا کہ اسی کپڑے میں نبی کریم ﷺ کی روح قبض ہوئی تھی۔ اورسلیمان بن مغیرہ نے حمید سے بیان کیا‘ انہوں نے ابو بردہ سے اتنا زیادہ بیان کیا کہ عائشہ ؓ نے یمن کی بنی ہوئی ایک موٹی ازار (تہمد) اور ایک کمبل انہیں کمبلوں میں سے جن کو تم ملبہ (اور موٹا پیوند دار کہتے ہو) ہمیں نکال کر دکھائی۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا شاید آپ نے بنظر تواضع یا اتفاقاً اس کملی کو اوڑھ لیا ہوگا نہ یہ کہ آپ قصداً پیوند کی ہوئی کملی اوڑھا کرتے‘ کیونکہ عادت شریفہ یہ تھی کہ جو کپڑا میسر آتا اس کو پہنتے کپڑے بہت صاف شفاف‘ ستھرے اجلے پہنتے۔ مگر بناؤ سنگار سے پرہیز فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے جوتے‘ آپ کا پیالہ‘ آپ کی انگوٹھی ان سب کو بطور یادگار محفوظ رکھا گیا‘ مگر تقسیم نہیں کیا گیا۔ جس سے ثابت ہواکہ صحابہ وخلفائے عظام نے آپ ﷺ کے ارشاد نَحنُ معشرُ الأنبیاءِ لا نُورثُ کو پورے پورے طور پر ملحوظ نظر رکھا ﷺ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Burda (RA): 'Aisha (RA) brought out to us a patched wool Len garment, and she said, "(It chanced that) the soul of Allah's Apostle (ﷺ) was taken away while he was wearing this." Abu-Burda added, "Aisha brought out to us a thick waist sheet like the ones made by the Yemenites, and also a garment of the type called Al-Mulabbada."