باب :سورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو ، بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے یعنی رسو ل اللہ ﷺ اس کی تقسیم کریں گے
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Verily one-fifth of it is assigned to Allah and to the Messenger saws ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے میں تو بانٹنے والا ہوں ‘ خزانچی اور دینے والا تو صرف اللہ پاک ہی ہے ۔
3116.
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اسے دین میں سمجھ عطا کردیتا ہے۔ دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ غالب رہے گی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آئے گا تو اس وقت بھی یہ غالب ہوں گے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺکے متعلق قاسم ہونے کا ذکر ہے۔ اور امام بخاری ؒکے استدلال کی بنیاد یہی لفظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس کے مالک نہیں بلکہ تقسیم کرنے والے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ دینی فقاہت اور قیاس کی فقاہت دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ دینی بصیرت بلاشبہ اللہ کی عنایت ہے۔ امت مسلمہ کاغلبہ مطلق ہے، خواہ سیاسی طور پر ہو یا دلائل وبراہین کے اعتبار سے ہو۔ یہ ممکن ہے کہ مسلمان سیاسی طورپر کسی وقت کمزور ہوجائیں مگر اپنی اخلاقی اور دینی خوبیوں کی بنا پر عمل و کردار میں ہمیشہ اقوام عالم پر غالب رہیں گے۔ آج اس نازک دور میں جبکہ مسلمان ہر قسم کے زوال کا شکار ہیں مگر بہت سی خوبیوں کی وجہ سے آج بھی دنیا کی تمام قومیں ان کا لوہا مانتی ہیں، قیامت تک یہی حال رہے گا۔ واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3000
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3116
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3116
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3116
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
خمس کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں ہیں بلکہ آپ صرف تقسیم کرنے والے ہیں ،البتہ تقسیم آپ کی صوابدید پر موقوف ہے۔واقعات وشواہد بھی اس موقف کی تائید کرتے ہیں ۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے۔اس روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اسی باب کے تحت موصولاً بیان کیا ہے،تاہم"خازن" کے الفاظ صحیح مسلم میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیں۔(صحیح مسلم الزکاۃ حدیث 2389(1037)
کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے میں تو بانٹنے والا ہوں ‘ خزانچی اور دینے والا تو صرف اللہ پاک ہی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اسے دین میں سمجھ عطا کردیتا ہے۔ دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ غالب رہے گی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آئے گا تو اس وقت بھی یہ غالب ہوں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺکے متعلق قاسم ہونے کا ذکر ہے۔ اور امام بخاری ؒکے استدلال کی بنیاد یہی لفظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس کے مالک نہیں بلکہ تقسیم کرنے والے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ دینی فقاہت اور قیاس کی فقاہت دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ دینی بصیرت بلاشبہ اللہ کی عنایت ہے۔ امت مسلمہ کاغلبہ مطلق ہے، خواہ سیاسی طور پر ہو یا دلائل وبراہین کے اعتبار سے ہو۔ یہ ممکن ہے کہ مسلمان سیاسی طورپر کسی وقت کمزور ہوجائیں مگر اپنی اخلاقی اور دینی خوبیوں کی بنا پر عمل و کردار میں ہمیشہ اقوام عالم پر غالب رہیں گے۔ آج اس نازک دور میں جبکہ مسلمان ہر قسم کے زوال کا شکار ہیں مگر بہت سی خوبیوں کی وجہ سے آج بھی دنیا کی تمام قومیں ان کا لوہا مانتی ہیں، قیامت تک یہی حال رہے گا۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے‘ انہیں یونس نے، انہیں زہری نے‘ انہیں حمید بن عبدالرحمن نے‘ انہوں نے معاویہ ؓ سے سنا‘ آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔ اور دینے والا تو اللہ ہی ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یہ امت (مسلمہ) ہمیشہ غالب رہے گی۔ تا آنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے اور اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں آنحضرت ﷺ کے قاسم ہونے کا ذکر ہے‘ باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ دینی فقاہت بلاشبہ اللہ کی دین ہے‘ یہ جس کو مل جائے۔ رائے قیاس کی فقاہت اورکتا ب وسنت کی روشنی میں دین کی فقاہت دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ دینی فقاہت کا بہترین نمونہ حضرت الاستاد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مرحوم کی کتاب حجۃ اللہ بالغہ ہے‘ جس کی سطر سطر سے دینی فقاہت روز روشن کی طرح عیاں ہے‘ اس میں ظاہر پرستوں کیلئے بھی تنبیہ ہے جو محض سرسری نظر سے دینی امور میں فتویٰ بازی کے عادی ہیں‘ ایسے لوگ بھی رائے قیاس کے خوگروں سے ملت کیلئے کم نقصاندہ نہیں ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’یکے من علم رادہ من عقل باید‘‘ ایک من علم کیلئے دس من عقل کی بھی ضرورت ہے۔ شیطان عالم تھا مگر عقل سے کورا‘ اسی لےئے اس نے اپنی رائے کو مقدم رکھ کر أنا خُیر مِنهُ کا نعرہ لگایا اور دربار الہیٰ میں مطرور قرار پایا۔ یہ حدیث کتاب العلم میں بھی مذکور ہوچکی ہے مگر لفظوں میں ذرا فرق ہے۔ یہ جو فرمایا کہ امت اسلامیہ ہمیشہ مخالفین پر غالب رہے گی‘ سویہ مطلق غلبہ مراد ہے‘ خواہ سیاسی طور پر ہو یا حجت اوردلائل کے طور پر ہو‘ یہ ممکن ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر کسی زمانہ میں کمزور ہوجائیں ‘ مگر اپنی مذہبی خوبیوں کی بنا پر عمل میں ہمیشہ اقوام عالم پر غالب رہیں گے۔ آج اس نازک ترین دور میں جملہ مسلمانوں پر ہر قسم کا انحطاط طاری ہے۔ مگربہت سی خوبیوں کی بنا پر آج بھی دنیا کی ساری قومیں مسلمانوں کا لوہا مانتی ہیں اورقیامت تک یہی حال رہے گا۔ گذشتہ چودہ صدیوں میں مسلمانوں پر قسم قسم کے زوال آئے مگر امت نے ان سب کا مقابلہ کیا اوراسلام اپنی ممتاز خوبیوں کی بنا پر مذاہب عالم پر آج بھی غالب ہے۔ نقاہت سے قرآن وحدیث کی سمجھ مراد ہے جو للہ پاک اپنے مخصوص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے حضر ت امام بخاری ؒ کو یہ فقاہت عطا کی کہ ایک ہی حدیث سے کتنے کتنے مسائل کا استخراج فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If Allah wants to do good for somebody, he makes him comprehend the Religion (i.e. Islam), and Allah is the Giver and I am Al-Qasim (i.e. the distributor), and this (Muslim) nation will remain victorious over their opponents, till Allah's Order comes and they will still be victorious "