باب: اس کی دلیل کہ خمس میں امام کو اختیار ہے وہ اسے اپنے بعض (مستحق) رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے اور جس کو چاہے نہ دے، دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر کے خمس میں سے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو دیا (اور دوسرے قریش کو نہ دیا)۔
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: Khumus is for the Imam, and he has the right to give thereof to some of his relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے تمام رشتہ داروں کو نہیں دیا اور اس کی بھی رعایت نہیں کی کہ جو قریبی رشتہ دار ہو اسی کو دیں۔ بلکہ جو زیادہ محتاج ہوتا، آپ اسے عنایت فرماتے، خواہ رشتہ میں وہ دور ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ آپ نے جن لوگوں کو دیا وہ یہی دیکھ کر وہ محتاجی کا آپ سے شکوہ کرتے تھے اور یہ بھی دیکھ کر کہ نبی کریم ﷺکی جانبداری اور طرفداری میں ان کو جو نقصان اپنی قوم والوں اور ان کے ہم قسموں سے پہنچا (وہ بہت تھا)۔
3140.
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے بنو مطلب کو تو مال دیاہے لیکن ہمیں نظر انداز کردیا ہے، حالانکہ ہم اور وہ آپ سے ایک ہی درجے کی قرابت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بنو مطلب اور بنوہاشم تو ایک ہی چیزہیں۔‘‘ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو شمس اور بنونوفل کو نہیں دیا تھا۔ ابن اسحاق ؒ کاکہناہے کہ عبد شمس، ہاشم اور مطلب ایک ماں سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام عاتقہ بن مرہ تھا اور نوفل صرف باپ کی طرف سے ان کے بھائی تھے (ان کی ماں دوسری تھی)۔
تشریح:
1۔ عبدمناف کے چار بیٹے تھے جو ہاشم مطلب، عبدشمس اور نوفل کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ چاروں بھائی اپنے والد کے بعد اپنی قوم کے سردار تھے اور قریش کے امور یہی سر انجام دیتے تھے۔ انھوں نےاپنی تجارت کے فروغ کے لیے دوسرے ممالک کے بادشاہوں سے امن حاصل کررکھا تھا۔ چنانچہ ہاشم نے شام اور روم مطلب نے حمیر، عبدشمس نے حبشہ اور نوفل نے ایران کے بادشاہوں سے تجارت کے لیے اجازت لے رکھی تھی۔2۔بنو مطلب دور جاہلیت اور دور اسلام میں بنو ہاشم سے متعلق رہے اور رسول اللہ ﷺ سے ہمدردی میں پیش پیش تھے۔ بنا بریں جب قریش نے بائیکاٹ کی دستاویز تیار کی تو اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب کو بطور خاص ذکر کیا بنو شمس اور بنو نوفل کو اس بائیکاٹ سے باہر رکھا یعنی شعب ابی طالب میں بنو ہاشم اور بنو مطلب ہی محصور رہے۔ بنوشمس اور نوفل اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے جد امجد کے چچا کی اولاد ہیں لیکن انھوں نے کسی بھی موقع پر آپ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ آپ سے جنگ و قتال کرتے رہے اور دوسرے قبائل کو بھی آپ سے لڑائی پر آمادہ کرتے رہے اس کے برعکس ہاشم اور مطلب میں بہت الفت تھی جس کا اثر ان کی اولاد میں بھی تھا۔ جاہلیت اور اسلام کے دور میں ان کی باہمی الفت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے انھیں شے واحد (ایک ہی چیز) قرار دیا تھا۔ 3۔امام بخاری ؒ نے ابن اسحاق کے حوالے سے اس اثر پر تنبیہ کی ہے کہ اگر یہ تقسیم قرابت کی وجہ سے ہوتی تو بنو ہاشم اور بنو شمس مساوی تھے اس بنا پر بنو شمس کو ضرور حصہ ملنا چاہیے تھا لیکن یہ عطیہ کسی اور وجہ سے تھا اس میں قرابت داری کا لحاظ نہیں رکھا گیا واضح رہے کہ ہاشم مطلب عبدشمس اور نوفل کا باپ ایک اور مائیں مختلف تھیں کیونکہ نوفل واقدہ بنت عدی کے بطن سے ہے اور باقی تینوں کی ماں عاتکہ بنت مرہ ہے ان چاروں کاباپ "مناف" ایک ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدشمس کی اولاد سے ہیں اور حضرت جبیر ؓ کا تعلق نوفل سے ہےرسول اللہ ﷺ نے خمس خیبرسے بنو مطلب اور بنو ہاشم کو دیا کیونکہ انھوں نے ہر وقت آپ کا ساتھ دیا اور انھیں اس ہمدردی کی وجہ سے اپنے ہی رشتے داروں (قریش) سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ بنو شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی تھی اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں رہے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3023
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3140
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3140
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3140
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے تمام رشتہ داروں کو نہیں دیا اور اس کی بھی رعایت نہیں کی کہ جو قریبی رشتہ دار ہو اسی کو دیں۔ بلکہ جو زیادہ محتاج ہوتا، آپ اسے عنایت فرماتے، خواہ رشتہ میں وہ دور ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ آپ نے جن لوگوں کو دیا وہ یہی دیکھ کر وہ محتاجی کا آپ سے شکوہ کرتے تھے اور یہ بھی دیکھ کر کہ نبی کریم ﷺکی جانبداری اور طرفداری میں ان کو جو نقصان اپنی قوم والوں اور ان کے ہم قسموں سے پہنچا (وہ بہت تھا)۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے بنو مطلب کو تو مال دیاہے لیکن ہمیں نظر انداز کردیا ہے، حالانکہ ہم اور وہ آپ سے ایک ہی درجے کی قرابت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بنو مطلب اور بنوہاشم تو ایک ہی چیزہیں۔‘‘ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو شمس اور بنونوفل کو نہیں دیا تھا۔ ابن اسحاق ؒ کاکہناہے کہ عبد شمس، ہاشم اور مطلب ایک ماں سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام عاتقہ بن مرہ تھا اور نوفل صرف باپ کی طرف سے ان کے بھائی تھے (ان کی ماں دوسری تھی)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عبدمناف کے چار بیٹے تھے جو ہاشم مطلب، عبدشمس اور نوفل کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ چاروں بھائی اپنے والد کے بعد اپنی قوم کے سردار تھے اور قریش کے امور یہی سر انجام دیتے تھے۔ انھوں نےاپنی تجارت کے فروغ کے لیے دوسرے ممالک کے بادشاہوں سے امن حاصل کررکھا تھا۔ چنانچہ ہاشم نے شام اور روم مطلب نے حمیر، عبدشمس نے حبشہ اور نوفل نے ایران کے بادشاہوں سے تجارت کے لیے اجازت لے رکھی تھی۔2۔بنو مطلب دور جاہلیت اور دور اسلام میں بنو ہاشم سے متعلق رہے اور رسول اللہ ﷺ سے ہمدردی میں پیش پیش تھے۔ بنا بریں جب قریش نے بائیکاٹ کی دستاویز تیار کی تو اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب کو بطور خاص ذکر کیا بنو شمس اور بنو نوفل کو اس بائیکاٹ سے باہر رکھا یعنی شعب ابی طالب میں بنو ہاشم اور بنو مطلب ہی محصور رہے۔ بنوشمس اور نوفل اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے جد امجد کے چچا کی اولاد ہیں لیکن انھوں نے کسی بھی موقع پر آپ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ آپ سے جنگ و قتال کرتے رہے اور دوسرے قبائل کو بھی آپ سے لڑائی پر آمادہ کرتے رہے اس کے برعکس ہاشم اور مطلب میں بہت الفت تھی جس کا اثر ان کی اولاد میں بھی تھا۔ جاہلیت اور اسلام کے دور میں ان کی باہمی الفت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے انھیں شے واحد (ایک ہی چیز) قرار دیا تھا۔ 3۔امام بخاری ؒ نے ابن اسحاق کے حوالے سے اس اثر پر تنبیہ کی ہے کہ اگر یہ تقسیم قرابت کی وجہ سے ہوتی تو بنو ہاشم اور بنو شمس مساوی تھے اس بنا پر بنو شمس کو ضرور حصہ ملنا چاہیے تھا لیکن یہ عطیہ کسی اور وجہ سے تھا اس میں قرابت داری کا لحاظ نہیں رکھا گیا واضح رہے کہ ہاشم مطلب عبدشمس اور نوفل کا باپ ایک اور مائیں مختلف تھیں کیونکہ نوفل واقدہ بنت عدی کے بطن سے ہے اور باقی تینوں کی ماں عاتکہ بنت مرہ ہے ان چاروں کاباپ "مناف" ایک ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدشمس کی اولاد سے ہیں اور حضرت جبیر ؓ کا تعلق نوفل سے ہےرسول اللہ ﷺ نے خمس خیبرسے بنو مطلب اور بنو ہاشم کو دیا کیونکہ انھوں نے ہر وقت آپ کا ساتھ دیا اور انھیں اس ہمدردی کی وجہ سے اپنے ہی رشتے داروں (قریش) سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ بنو شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی تھی اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں رہے تھے۔
ترجمۃ الباب:
اس لی دلیل یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نےخمس خیبر سے بنو مطلب اور بنو ہاشم کو دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: آپ ﷺ نے تمام رشتہ داروں کو نہیں دیا اور اس کی بھی رعایت نہیں کی کہ جوقریبی رشتہ دار ہو اسی کو دیں بلکہ جو زیادہ محتاج ہوتا آپ اسی کو دیتے(خواہ وہ رشتے میں دور ہی کیوں نہ ہوتا)آپ ﷺ نے جن لوگوں کو دیا وہ یہی دیکھ کر کہ وہ ضرورت مند ہونے کا آپ سے شکوہ کرتے تھے اور اس امر کو بھی پیش نظر رکھا کہ آپ کی جانبداری اور طرف داری میں انھیں اپنی قوم اور ان کے حلفیوں کی طرف سے نقصان پہنچا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن مطعم ؓ نے بیان کیا کہ میں اور عثمان بن عفان ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے بنومطلب کو تو عنایت فرمایا لیکن ہم کو چھوڑ دیا، حالانکہ ہم کو آپ سے وہی رشتہ ہے جو بنو مطلب کو آپ سے ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بنومطلب اور بنوہاشم ایک ہی ہے۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور (اس روایت میں) یہ زیادتی کی کہ جبیرؓ نے کہا نبی کریم ﷺ نے بنو عبدشمس اور بنو نوفل کو نہیں دیا تھا، اور ابن اسحاق (صاحب مغازی) نے کہا ہے کہ عبد شمس، ہاشم اور مطلب ایک ماں سے تھے اور ان کی ماں کا نام عاتکہ بن مرہ تھا اور نوفل باپ کی طرف سے ان کے بھائی تھے۔ (ان کی ماں دوسری تھیں)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jubair bin Mutim (RA): I and 'Uthman bin 'Affan went to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You have given to Bani Al-Muttalib and left us although they and we are of the same kinship to you." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Bani Muttalib and Bani Hashim are one and the same." The Prophet (ﷺ) did not give a share to Bani Abd Shams and Bani Naufai. (Ibn Ishaq said, "Abd Shams and Hashim and Al-Muttalib were maternal brothers and their mother was 'Atika bint Murra and Naufal was their paternal brother.)