باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: What the Prophet saws used to give to those Muslims whose faith was not so firm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
3145.
حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کونہ دیا جن کو نہ دیا وہ ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’میں جن لوگوں کو دیتا ہوں مجھے ان کی کج روی اور بے صبری کا اندیشہ ہوتا ہے اور دوسروں کو میں اس خیر اور استغنا کے سپرد کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے۔ ان میں سے عمرو بن تغلب ؓ بھی ہیں۔‘‘ حضرت عمرو بن تغلب کابیان ہے کہ میری نسبت رسول اللہ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا اگر مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنا خوش نہ ہوتا۔ ابو عاصم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مال یا قیدی آئے تھے جنھیں آپ نےتقسیم فرمایا تھا۔
تشریح:
1۔ حضرت عمرو بن تغلبؓ عہدی قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے چونکہ یہ کامل الایمان تھے اس لیے رسول اللہ ﷺکے حوصلہ افزا بیان سے خوش ہو گئے۔ 2۔اس روایت کے مطابق رسول اللﷺ نے مال غنیمت کو اپنی صوابدید خرچ کیا جس میں اہم ترین مصالح تھیں۔ اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے اچھے انداز سے مطمئن کردیا بلاشبہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا فرض ہے کہ ایسے مواقع پر محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی مقصود ہو۔ ذاتی اغراض کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3028
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3145
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3145
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3145
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ غزوہ حنین میں جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت دیا تو آپ نے تالیف قلبی کے لیے اسے نو مسلم حضرات میں تقسیم کیا۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کونہ دیا جن کو نہ دیا وہ ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’میں جن لوگوں کو دیتا ہوں مجھے ان کی کج روی اور بے صبری کا اندیشہ ہوتا ہے اور دوسروں کو میں اس خیر اور استغنا کے سپرد کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے۔ ان میں سے عمرو بن تغلب ؓ بھی ہیں۔‘‘ حضرت عمرو بن تغلب کابیان ہے کہ میری نسبت رسول اللہ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا اگر مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنا خوش نہ ہوتا۔ ابو عاصم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مال یا قیدی آئے تھے جنھیں آپ نےتقسیم فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عمرو بن تغلبؓ عہدی قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے چونکہ یہ کامل الایمان تھے اس لیے رسول اللہ ﷺکے حوصلہ افزا بیان سے خوش ہو گئے۔ 2۔اس روایت کے مطابق رسول اللﷺ نے مال غنیمت کو اپنی صوابدید خرچ کیا جس میں اہم ترین مصالح تھیں۔ اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے اچھے انداز سے مطمئن کردیا بلاشبہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا فرض ہے کہ ایسے مواقع پر محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی مقصود ہو۔ ذاتی اغراض کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺسے روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بصری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن تغلب ؓ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا۔ غالباً جن لوگوں کو آپ ﷺ نے نہیں دیا تھا، ان کو ناگوار ہوا۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا، کہ میں کچھ ایسے لوگوں کو دیتا ہوں کہ مجھے جن کے بگڑ جانے (اسلام سے پھر جانے) اور بے صبری کا ڈر ہے۔ اورکچھ لوگ ایسے ہیں جن پر میں بھروسہ کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھلائی اور بے نیازی رکھی ہے (ان کو میں نہیں دیتا) عمرو بن تغلب ؓ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ عمرو بن تغلب ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے میری نسبت یہ جو کلمہ فرمایا اگر اس کے بدلے سرخ اونٹ ملتے تو بھی میں اتنا خوش نہ ہوتا۔ ابوعاصم نے جریر سے بیان کیا کہ میں نے حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ہم سے عمرو بن تغلب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مال یا قیدی آئے تھے اور انہیں کو آپ نے تقسیم فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اموال غنیمت کو اپنی صواب دید کے مطابق تقسیم فرمایا، جس میں اہم ترین اسلامی مصالح شامل تھے، اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے احسن طریق سے مطمئن فرمادیا۔ ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں، مگر ان کا فرض ہے کہ کوئی ذاتی غرض فاسد بیچ میں شامل نہ ہو، محض رضائے خدا و رسول و سربلندی اسلام مدنظر ہو، روایت میں مذکور حضرت عمرو بن تغلبص عبدی ہیں۔ قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے، مشہور انصاری صحابی ہیں۔ رضي اللہ عنه
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Taghlib (RA): Allah's Apostle (ﷺ) gave (gifts) to some people to the exclusion of some others. The latter seemed to be displeased by that. The Prophet (ﷺ) said, "I give to some people, lest they should deviate from True Faith or lose patience, while I refer other people to the goodness and contentment which Allah has put in their hearts, and 'Amr bin Taghlib is amongst them." 'Amr bin Taghlib said, "The statement of Allah's Apostle (ﷺ) is dearer to me than red camels." Narrated Al-Hasan: 'Amr bin Taghlib told us that Allah's Apostle (ﷺ) got some property or some war prisoners and he distributed them in the above way (i.e. giving to some people to the exclusion of others) .