باب : جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: Al-Jizya taken from the Dhimmi)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو وہ حرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق کو انہوں نے قبول کیا ( بلکہ الٹے وہ لوگ تم ہی کو مٹانے اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے جنگ پر آمادہ ہو گئے ) ۔ ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی ( مثلاً یہود و نصاریٰ ) یہاں تک ( مدافعت کرو ) کہ وہ تمہارے غلبہ کی وجہ سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور وہ تمہارے مقابلہ پر دب گئے ہوں ‘ ‘ ۔ ( صاغرون کے معنی ) اذلاء کے ہیں ۔ اور ان احادیث کا ذکر جن میں یہود ، نصاریٰ ، مجوس اور اہل عجم سے جزیہ لینے کا بیان ہوا ہے ۔ ابن عیینہ نے کہا ، ان سے ابن ابی نجیح نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا ، اس کی کیا وجہ ہے کہ شام کے اہل کتاب پر چار دینار ( جزیہ ) ہے اور یمن کے اہل کتاب پر صرف ایک دینار ! تو انہوں نے کہا کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں ۔ اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جزیہ کی کمی بیشی کے لیے امام کو اختیار ہے۔ جزیہ کے نام سے حقیر سی رقم غیرمسلم رعایا پر اسلامی حکومت کی طرف سے ایک حفاظتی ٹیکس ہے جس کی ادائیگی ان غیرمسلموں کی وفاداری کا نشان ہے اور اسلامی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ ان کے مال و جان و مذہب کی پورے طور پر حفاظت کی جائے گی۔ اگر اسلامی حکومت اس بارے میں ناکام رہ جائے تو اسے جزیہ لینے کا کوئی حق نہ ہوگا۔ کما لایخفیٰ۔ ( لفظ اذلاءسے آگے بعض نسخوں میں یہ عبارت زائدہے والمسکنۃ مصدر المسکین اسکن من فلان احوج منہ ولم ےذہب الی السکون )
3156.
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان سے حضرت بجالہ نے زمزم کی سیڑھیوں کے پاس بیان کیا، اور یہ ستر ہجری کی بات ہے جس سال حضرت مصعب بن زبیر نے اہل بصرہ کے ہمراہ حج کیا تھا، انھوں نے کہا: میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا تو حضرت عمر بن خطابؓ کی وفات سے ایک سال پہلے ان کا مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس مجوسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہوتو ان دونوں کے درمیان تفریق کردو۔ اور حضرت عمر ؓ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے۔
اس اثرکو مصنف عبدالرزاق(87/6) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہواکہ جزیے میں فرق جائز ہے۔اس میں کمی بیشی کا اختیار امام کو ہے۔جمہور کے نزدیک ہرسال کے لیے کم از کم جزیہ ایک دینار ہے جسے احناف فقیر کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔متوسط آدمی کے لیے وہ دینار اور مال دار کے لیے چار دینار ہیں(فتح الباری 312/6)۔جزیے کے نام سے معمولی سی رقم غیر مسلم رعایا پر اسلامی حکومت کی طرف سے ایک حفاظتی ٹیکس ہے جس کی ادائیگی ان غیر مسلم حضرات کی وفاداری کا نشان ہے۔اس کی ادائیگی کے بعد اسلامی حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان کے مال وجان اور عزت وآبرو ،نیز مذہب کی پورے طورپر حفاظت کرے۔اگراسلامی حکومت اس میں ناکام ہوتو اسے جزیہ لینے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔مذکورہ آیت کریمہ اہل کتاب سے جزیہ لینے کے متعلق نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کے علاوہ دیگر اقلیت اقوام سے جزیہ لینا احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ آئندہ اس کا بیان ہوگا۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو وہ حرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق کو انہوں نے قبول کیا ( بلکہ الٹے وہ لوگ تم ہی کو مٹانے اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے جنگ پر آمادہ ہو گئے ) ۔ ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی ( مثلاً یہود و نصاریٰ ) یہاں تک ( مدافعت کرو ) کہ وہ تمہارے غلبہ کی وجہ سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور وہ تمہارے مقابلہ پر دب گئے ہوں ‘ ‘ ۔ ( صاغرون کے معنی ) اذلاء کے ہیں ۔ اور ان احادیث کا ذکر جن میں یہود ، نصاریٰ ، مجوس اور اہل عجم سے جزیہ لینے کا بیان ہوا ہے ۔ ابن عیینہ نے کہا ، ان سے ابن ابی نجیح نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا ، اس کی کیا وجہ ہے کہ شام کے اہل کتاب پر چار دینار ( جزیہ ) ہے اور یمن کے اہل کتاب پر صرف ایک دینار ! تو انہوں نے کہا کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں ۔ اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جزیہ کی کمی بیشی کے لیے امام کو اختیار ہے۔ جزیہ کے نام سے حقیر سی رقم غیرمسلم رعایا پر اسلامی حکومت کی طرف سے ایک حفاظتی ٹیکس ہے جس کی ادائیگی ان غیرمسلموں کی وفاداری کا نشان ہے اور اسلامی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ ان کے مال و جان و مذہب کی پورے طور پر حفاظت کی جائے گی۔ اگر اسلامی حکومت اس بارے میں ناکام رہ جائے تو اسے جزیہ لینے کا کوئی حق نہ ہوگا۔ کما لایخفیٰ۔ ( لفظ اذلاءسے آگے بعض نسخوں میں یہ عبارت زائدہے والمسکنۃ مصدر المسکین اسکن من فلان احوج منہ ولم ےذہب الی السکون )
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان سے حضرت بجالہ نے زمزم کی سیڑھیوں کے پاس بیان کیا، اور یہ ستر ہجری کی بات ہے جس سال حضرت مصعب بن زبیر نے اہل بصرہ کے ہمراہ حج کیا تھا، انھوں نے کہا: میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا تو حضرت عمر بن خطابؓ کی وفات سے ایک سال پہلے ان کا مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس مجوسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہوتو ان دونوں کے درمیان تفریق کردو۔ اور حضرت عمر ؓ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(اہل کتاب میں سے) ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں(جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق ہی کو اپنا دین بناتے ہیں یہاں تک وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں)اور وہ حقیر وذلیل ہوں۔ "
صَاغِرُونَکے معنی ہیں ذلیل بن کررہیں۔ لفظ الْمَسْكَنَةُ مسکین کا مصدر ہے۔ عرب کے اس محاورے سے ماخوذ ہے کہ فلان اسكن من فلان یعنی وہ فلاں سے زیادہ محتاج ہے کہ اسے کسی کروٹ سکون میسر نہیں۔ اس کاماخذ سکون نہیں ہے۔
یہود ونصاریٰ، مجوسیوں اور عجمیوں سے جزیہ لینے میں جوروایات ہیں ان کا بیان۔
حضرت ابن عیینہ نے ابن ابی نجیح سے بیان کیا، انھوں نے کہا: میں نے امام مجاہد سے پوچھا کہ اہل شام کا کیا حال ہے، ان سے فی کس چار دینار لیے جاتے ہیں جبکہ اہل یمن سے ایک دینار لیاجاتا ہے؟انھوں نے فرمایا کہ یہ فرق دولتمندی کی وجہ سے ہے۔
فائدہ: ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جزیے میں تفاوت جائز ہے، اس میں کمی بیشی کا اختیار امام کو ہے۔ جزیے کے نام سے حقیر سی رقم غیر مسلم رعایا پر اسلامی حکومت کی طرف سے ایک حفاظتی ٹیکس ہے۔ جس کی ادائیگی ان غیر مسلم حضرات کی وفاداری کانشان ہے۔ اس کی ادائیگی کے بعد اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے مال وجان اور عزت وآبرو، نیز مذہب کی پورے طور پر حفاظت کرے۔ اگر اسلامی حکومت اس میں ناکام ہوتو اسے جزیہ لینے کاکوئی حق نہیں ہوگا۔ مذکورہ آیت کریمہ اہل کتاب سے جزیہ لینے کے متعلق نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اقلیت اقوام سے جزیہ لینا احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ آئندہ اس کا بیان ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عمروبن دینار سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جابر بن زید اور عمروبن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان دونوں بزرگوں سے بجالہ نے بیان کیا کہ ۰۷ھ میں جس سال مصعب بن زبیر ؓ نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس انہوں نے بیان کیا تھا کہ میں احنف بن قیس ؓ کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ تو وفات سے ایک سال پہلے عمر بن خطاب ؓ کا ایک مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس پارسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہو تو ان کو جدا کردو اور حضرت عمر ؓ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Dinar (RA): I was sitting with Jabir bin Zaid and 'Amr bin Aus, and Bjalla was narrating to them in 7O A.H. the year when Musab bin Az-Zubair was the leader of the pilgrims of Basra. We were sitting at the steps of Zam-zam well and Bajala said, "I was the clerk of Juz bin Muawiyah, Al-Ahnaf's paternal uncle. A letter came from 'Umar bin Al-Khattab (RA) one year before his death; and it was read:-- "Cancel every marriage contracted among the Magians between relatives of close kinship (marriages that are regarded illegal in Islam: a relative of this sort being called Dhu-Mahram.)" 'Umar did not take the Jizya from the Magian infidels...