Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: The invocation of the Imam against those who break their covenant (with the Muslims))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3170.
حضرت عاصم الاحول س روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے عرض کیا: فلاں صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے رکوع کے بعد کہاہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا کہ اس نے غلط کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نےایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوت کی تھی، جس میں آپ بنو سلیم کے چند قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے چالیس یا ستر قراء کو مشرکین کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان لوگوں نےانھیں پکڑ کر قتل کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (حضرت انس ؓنےفرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملے میں اتنا غمگین اور رنجیدہ نہیں دیکھا جتنا ان (قراء) کی شہادت پر آپ غمناک ہوئے تھے۔
تشریح:
1۔ جن قراء کو ان مشرکین نے شہید کیا وہ بڑے عالم اور قرآن کے عامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس لیے غمناک ہوئے کہ یہ اگریہ زندہ رہتے تو ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:(مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَمِ) یعنی ایک عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق مشرکین کا آپ سے عہد وپیمان تھا، جب انھوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے ظلم اور بربریت کے ساتھ سترقرائے کرام کو شہید کردیا تو آپ نے ان کے خلاف بددعا کی اور پورا ایک مہینہ فرض نمازوں میں قنوت کرتے رہے۔ 3۔ قنوت کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد اورقنوت وتررکوع سے پہلے ہے جیسا کہ سنن نسائی میں اس کی صراحت ہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1071 و کتاب قیام اللیل، حدیث:1700) اس مسئلے کے متعلق تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔
حضرت عاصم الاحول س روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے عرض کیا: فلاں صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے رکوع کے بعد کہاہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا کہ اس نے غلط کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نےایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوت کی تھی، جس میں آپ بنو سلیم کے چند قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے چالیس یا ستر قراء کو مشرکین کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان لوگوں نےانھیں پکڑ کر قتل کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (حضرت انس ؓنےفرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملے میں اتنا غمگین اور رنجیدہ نہیں دیکھا جتنا ان (قراء) کی شہادت پر آپ غمناک ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جن قراء کو ان مشرکین نے شہید کیا وہ بڑے عالم اور قرآن کے عامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس لیے غمناک ہوئے کہ یہ اگریہ زندہ رہتے تو ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:(مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَمِ) یعنی ایک عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق مشرکین کا آپ سے عہد وپیمان تھا، جب انھوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے ظلم اور بربریت کے ساتھ سترقرائے کرام کو شہید کردیا تو آپ نے ان کے خلاف بددعا کی اور پورا ایک مہینہ فرض نمازوں میں قنوت کرتے رہے۔ 3۔ قنوت کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد اورقنوت وتررکوع سے پہلے ہے جیسا کہ سنن نسائی میں اس کی صراحت ہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1071 و کتاب قیام اللیل، حدیث:1700) اس مسئلے کے متعلق تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ہم سے عاصم احول نے، کہا کہ میں نے انس ؓ سے دعاء قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہئے، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے، انس ؓ نے اس پر کہا تھا کہ انہوں نے غلط کہا ہے۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعاء قنوت کی تھی۔ اور آپ نے اس میں قبیلہ بنوسلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت، راوی کو شک تھا، مشرکین کے پاس بھیجی تھی، لیکن بنوسلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (لیکن انہوں نے دغا دی) آنحضرت ﷺ کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ یہ لوگ قاری اور عالم تھے۔ اگر یہ زندہ رہتے تو ان سے ہزارہا لوگوں کو فائدہ پہنچتا۔ اسی لیے ایک سچے عالم کی موت کو عالم جہان کی موت کہاگیا ہے۔ قنوت قبل الرکوع اور بعدالرکوع کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا استاذ عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔ ورواه ابن المنذر عن حميد عن أنس بلفظ: إن بعض أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - قنتوا في صلاة الفجر قبل الركوع، وبعضهم بعد الركوع، وهذا كله يدل على اختلاف عمل الصحابة في محل القنوت المكتوبة فقنت بعضهم قبل الركوع وبعضهم بعده، وأما النبي - صلى الله عليه وسلم - فلم يثبت عنه القنوت في المكتوبة إلا عند النازلة، ولم يقنت في النازلة إلا بعد الركوع، هذا ما تحقق لي، والله أعلم.(مرعاة المفاتیح، جلد:2ص:224)یعنی حضرت انس ؓ کی اسی روایت کو ابن منذر نے اس طرح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ رسول ﷺ فجر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، بعض رکوع کے بعد پڑھتے اور ان سب سے معلوم ہوتاہے کہ فرض نمازوں میں محل قنوت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف تھا اور نبی کریم ﷺ سے فرض نمازوں میں سوائے قنوت نازلہ کے اور کوئی قنوت ثابت نہیں ہوئی۔ آپ نے صرف قنوت نازلہ پڑھی اور وہ رکوع کے بعد پڑھی ہے میری تحقیق یہی ہے واللہ أعلم۔ امام نووی استحباب القنوت میں فرماتے ہیں: و محل القنوت بعد رفع الراس فی الرکوع فی الرکعۃ الاخیرہیعنی قنوت پڑھنے کا محل آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے۔ حدیث ہذا میں حضرت انس ؓ کے بیان متعلق قنوت کا تعلق ان کی اپنی معلومات کی حد تک ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Asim (RA): I asked Anas about the Qunut (i.e. invocation in the prayer). Anas said, "It should be recited before bowing." I said, "So-and-so claims that you say that it should be recited after bowing." He replied, "He is mistaken." Then Anas narrated to us that the Prophet (ﷺ) invoked evil on the tribe of Bani-Sulaim for one month after bowing. ' Anas Further said, "The Prophet (ﷺ) had sent 4O or 7O Qaris (i.e. men well versed in the knowledge of the Qur'an) to some pagans, but the latter struggled with them and martyred them, although there was a peace pact between them and the Prophet (ﷺ) I had never seen the Prophet (ﷺ) so sorry and worried about anybody as he was about them (i.e. the Qaris)."