باب: مشرکوں کی لاشوں کو کنویں میں پھینکوانا اور ان کی لاشوں کی ( اگر ان کے ورثاء دینا بھی چاہیں تو بھی ) قیمت نہ لینا ۔
)
Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: The throwing of the dead bodies of Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3185.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ بحالت سجدہ تھے اورقریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح شدہ اونٹنی کی وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے گندگی سمیت اٹھا لایا اور نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک پر اسے ڈال دیا۔ آپ سجدے سے اپنا سرمبارک نہ اٹھا سکے حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓتشریف لائیں اور اس کو آپ کی پشت سے ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلاکہا۔ نبی کریم ﷺ نے بایں الفاظ بددعا کی: ’’اے اللہ! قریش کی جماعت کو پکڑ لے۔ اے اللہ! ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یاابی بن خلف کو برباد کر۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ بدر کی جنگ میں قتل ہوگئے اور ان کی لاشوں کو ایک اوندھے کنویں میں پھینک دیا گیا، البتہ امیہ یاابی بن خلف موٹا آدمی تھا جب اسے (کنویں میں پھینکنے کےلیے) کھینچا گیا تو کنویں میں پھینکنے سے پہلے اس کے سارے جوڑ الگ الگ ہوگئے۔
تشریح:
1۔ امیہ بن خلف غزوہ بدر میں قتل ہوااور اس کا بھائی ابی بن خلف احد کی جنگ میں جہنم واصل ہوا۔ اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بدر میں قتل نہیں ہوا۔ بلکہ وہ جنگی قیدی بنا اور رسول اللہ ﷺنے اسے قتل کروایا۔ گرم ترین دن کی وجہ سے مشرکین کی لاشیں پھٹ چکی تھیں اور ورم آجانے کی بنا پر ان کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا مشرکین کی لاشوں کی قیمت لینے کی بجائے انھیں ایک بے آباد اندھے کنویں میں پھینک گیا۔کیونکہ خریدو فروخت کرتے وقت بیچی جانے والی چیز کا کچھ نہ کچھ اعزاز ضرور ہوتا ہے جس کی بنا پر اس کی قیمت پڑتی ہے ہمیں مشرکین کی لاشیں فروخت کرنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ ان کا اعزاز نہ ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒنےعنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا ایک آدمی غزوہ خندق کے موقع پر خندق میں گھس آیا تھا جسے ماردیا گیا تو مشرکین نے اس کی لاش کو خریدنا چاہا تو آپ نے فرمایا:’’ہمیں نہ تو اس لاش کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس کی قیمت ہی وصول کرنا چاہتے ہیں۔ (جامع الترمذي، الجهاد، حدیث:1715)سیرت ابن ہشام میں ہے مشرکین اس کی دس ہزار درہم قیمت ادا کرنا چاہتے تھے۔ (السیرة النبویة لابن هشام:3/ 186 و فتح الباري:340/6) 3۔ رسول اللہ ﷺ مقتولین بدر کی لاشیں فروخت کر سکتے تھے کیونکہ وہ مکہ کے رئیس تھے اور ان کے رشتہ دار بہت امیر تھے۔ وہ بھاری قیمت ادا کر کے انھیں خرید سکتے تھے۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ انھیں کنویں میں پھینک کر نیست و نابود کیا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کی حدیث سے دوسرا مطلب اس طرح نکالا کہ اگر آنحضرت ﷺچاہتے تو بدر کے مقتولین کی لاشیں مکہ کے کافروں کے ہاتھ بیچ سکتے تھے۔ کیوں کہ وہ مکہ کے رئیس تھے، اور ان کے اقرباءبہت مالدار تھے، مگر آپ نے ایسا ارادہ نہ کیا اور لاشوں کو اندھے کنویں میں ڈلوادیا۔ بعضوں نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ دوسرے مطلب کی حدیث کو اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے نہ لاسکے، لیکن انہوں نے اس طرف اشارہ کردیا۔ جس کو ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا کہ مشرکین نوفل بن عبد اللہ کی لاش کے بدل جو خندق میں گھس آیا تھا اور وہیں مارا گیا، آنحضرت ﷺ کو روپیہ دیتے رہے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا، ہم کو اس کی قیمت درکار نہیں ہے نہ اس کی لاش۔ زہری نے کہا مشرک دس ہزار درہم اس لاش کے بدل معاوضہ دینے پر راضی تھے۔(وحیدی)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ بحالت سجدہ تھے اورقریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح شدہ اونٹنی کی وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے گندگی سمیت اٹھا لایا اور نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک پر اسے ڈال دیا۔ آپ سجدے سے اپنا سرمبارک نہ اٹھا سکے حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓتشریف لائیں اور اس کو آپ کی پشت سے ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلاکہا۔ نبی کریم ﷺ نے بایں الفاظ بددعا کی: ’’اے اللہ! قریش کی جماعت کو پکڑ لے۔ اے اللہ! ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یاابی بن خلف کو برباد کر۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ بدر کی جنگ میں قتل ہوگئے اور ان کی لاشوں کو ایک اوندھے کنویں میں پھینک دیا گیا، البتہ امیہ یاابی بن خلف موٹا آدمی تھا جب اسے (کنویں میں پھینکنے کےلیے) کھینچا گیا تو کنویں میں پھینکنے سے پہلے اس کے سارے جوڑ الگ الگ ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امیہ بن خلف غزوہ بدر میں قتل ہوااور اس کا بھائی ابی بن خلف احد کی جنگ میں جہنم واصل ہوا۔ اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بدر میں قتل نہیں ہوا۔ بلکہ وہ جنگی قیدی بنا اور رسول اللہ ﷺنے اسے قتل کروایا۔ گرم ترین دن کی وجہ سے مشرکین کی لاشیں پھٹ چکی تھیں اور ورم آجانے کی بنا پر ان کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا مشرکین کی لاشوں کی قیمت لینے کی بجائے انھیں ایک بے آباد اندھے کنویں میں پھینک گیا۔کیونکہ خریدو فروخت کرتے وقت بیچی جانے والی چیز کا کچھ نہ کچھ اعزاز ضرور ہوتا ہے جس کی بنا پر اس کی قیمت پڑتی ہے ہمیں مشرکین کی لاشیں فروخت کرنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ ان کا اعزاز نہ ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒنےعنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا ایک آدمی غزوہ خندق کے موقع پر خندق میں گھس آیا تھا جسے ماردیا گیا تو مشرکین نے اس کی لاش کو خریدنا چاہا تو آپ نے فرمایا:’’ہمیں نہ تو اس لاش کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس کی قیمت ہی وصول کرنا چاہتے ہیں۔ (جامع الترمذي، الجهاد، حدیث:1715)سیرت ابن ہشام میں ہے مشرکین اس کی دس ہزار درہم قیمت ادا کرنا چاہتے تھے۔ (السیرة النبویة لابن هشام:3/ 186 و فتح الباري:340/6) 3۔ رسول اللہ ﷺ مقتولین بدر کی لاشیں فروخت کر سکتے تھے کیونکہ وہ مکہ کے رئیس تھے اور ان کے رشتہ دار بہت امیر تھے۔ وہ بھاری قیمت ادا کر کے انھیں خرید سکتے تھے۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ انھیں کنویں میں پھینک کر نیست و نابود کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحاق نے، انہیں عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ مکہ میں شروع اسلام کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ سجدہ کی حالت میں تھے اور قریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لایا اور نبی کریم ﷺ کی پیٹھ پر اسے ڈال دیا۔ نبی کریم ﷺ سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھا سکے۔ آخر فاطمہ ؓ آئیں اور آپ ﷺ کی پیٹھ پر سے اس اوجھڑی کو ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلا کہا، نبی کریم ﷺ نے بھی بددعا کی کہ اے اللہ! قریش کی اس جماعت کو پکڑ۔ اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کو برباد کر۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب بدر کی لڑائی میں قتل کردئیے گئے۔ اور ایک کنویں میں انہیں ڈال دیا گیا تھا۔ سوا امیہ یا ابی کے کہ یہ شخص بہت بھاری بھرکم تھا۔ جب اسے صحابہ نے کھینچا تو کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اس کے جوڑ جوڑ الگ ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
قریب ہی ایک اونٹنی نے بچہ جنا تھا۔ مشرکین اس کی بچہ دانی کا سامان ملبہ اٹھاکر لے آئے اور یہ حرکت کی جس پر آنحضرت ﷺ نے جب پانی سر سے گزرگیا تو ان کے حق میں یہ بددعا کی جس کا روایت میں ذکر ہے اور باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ لفظ سلاجزور اضافہ کے ساتھ ہے۔ (مراد اونٹنی کا بچہ دان)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): While the Prophet (ﷺ) was in the state of prostration, surrounded by a group of people from Quraish pagans. 'Uqba bin Abi Mu'ait came and brought the intestines of a camel and threw them on the back of the Prophet (ﷺ) . The Prophet (ﷺ) did not raise his head from prostration till Fatima (i.e. his daughter) came and removed those intestines from his back, and invoked evil on whoever had done (the evil deed). The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Destroy the chiefs of Quraish, O Allah! Destroy Abu Jahl bin Hisham, 'Utba bin Rabi'a, Shaiba bin Rabi'a. 'Uqba bin Abi Mu'ait 'Umaiya bin Khalaf (or Ubai bin Kalaf)." Later on I saw all of them killed during the battle of Badr and their bodies were thrown into a well except the body of Umaiya or Ubai, because he was a fat person, and when he was pulled, the parts of his body got separated before he was thrown into the well.