کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : اور اللہ پاک نے فرمایا اسکی تفسیر کہ اللہ ہی ہے جس نے مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا ، اور وہی پھر دوبارہ ( موت کے بعد ) زندہ کرے گا اور یہ ( دوبارہ زندہ کرنا ) تو اس پر اور بھی آسان ہے
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And He it is Who originates the creation; then will repeat it and this is easier for Him...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
۔ اور ربیع بن خشیم اور امام حسن بصری نے کہا کہ یوں تو دونوں یعنی ( پہلی مرتبہ پیدا کرنا پھر دوبارہ زندہ کردینا ) اس کے لیے بالکل آسان ہے ( لیکن ایک کو یعنی پیدائش کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو زیادہ آسان ظاہر کے اعتبار سے کہا ) ( مشدد اور مخفف ) دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اور سورہ قٓ میں جو لفظ اَفَعَیِینَا آیا ہے ، اس کے معنی ہیں کہ کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کردیا تھا ۔ جب اس خدا نے تم کو پیدا کردیا تھا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا اور اسی سورت میں ( اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ) لُغُوب کے معنی تھکن کے ہیں اور سورہ نوح میں جو فرمایا اَطوَاراً اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف صورتوں میں تمہیں پیدا کیا ۔ کبھی نطفہ ایسے خون کی پھٹکی پھر گوشت پھر ہڈی پوست ۔ عرب لوگ بولا کرتے ہیں عَدَاطَورَہ یعنی فلاں اپنے مرتبہ سے بڑھ گیا ۔ یہاں اطوار کے معنی رتبے کے ہیں ۔قرآن شریف میں سورۃ مریم میں لفظ وہوہین آیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسب سے اس لفظ کی تشریح کردی کہ ربیع اور حسن کے قول میں یہ لفظ آیا ہے اور سورۃ قٓ اور سورۃ نوح کے لفظوں کی تشریح اس لیے کہ ان آیتوں میں آسمان اور زمین اور انسان کی پیدائش کا بیان ہے اور یہ باب بھی اسی بیان میں ہے۔
3191.
حضرت عمران بن حصین ؓہی سے رویت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی اونٹنی کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا تھا۔ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’اے بن تمیم! بشارت قبول کرو۔‘‘ انھوں نے دو مرتبہ کہا: آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے، اب ہمیں مال بھی دیں۔ اس دوران میں یمن کے چند لوگ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے بھی یہی فرمایا: ’’اے یمن والو! خوشخبری قبول کرلو، بنو تمیم نے اسے مسترد کردیا ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم نے آپ کی بشارت قبول کی ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس عالم کی پیدائش کے حالات پوچھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اول اللہ کی ذات تھی اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی اور اس کاعرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیزلکھ دی تھی اور اسی نے ہی زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔‘‘ ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ایک شخص نے آواز دی: اے ابن حصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی ہے۔ میں وہاں سے چلا گیا تو دیکھا کہ وہ اونٹنی سراب سے آگے جا چکی تھی۔ اللہ کی قسم! میری خواہش تھی کہ کاش! میں نے اس اونٹنی کو چھوڑ دیا ہوتا (اور وہاں سے نہ اٹھتا تو بہتر تھا)۔
تشریح:
1۔ اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پانی کو پیدا کیا۔ پھر عرش کو اس کے اوپر پیدا کیا اور عرش کے نیچے صرف پانی تھا دوسری کوئی چیز نہ تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی اور عرش زمین وآسمان سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہے۔ ’’اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔‘‘ اس کے معنی ہیں کہ اللہ قدیم اور ازل سے ہے۔ اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی نہ پانی نہ عرش اور نہ روح کیونکہ یہ سب اشیاء غیر اللہ ہیں۔ بہر حال آغاز تخلیق کی ترتیب اسی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی پھر عرش کو پیدا فرمایا اس کے بعد دیگر کائنات کی تخلیق فرمائی۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا عرش بھی مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3070
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3191
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3191
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3191
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ (اهون) تفصیل کا صیغہ ہے لیکن اس میں تفصیل کے معنی نہیں بلکہ (هَيِّنٌ)کے معنی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے ابتدا اور اعاد ے میں کوئی فرق نہیں۔ سہولت میں یہ دونوں برابر ہیں ربیع اور حسن کے قول میں لفظ (هَيِّنٌ)آیا تھا اس مناسبت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ( هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ) (مریم19۔9)کی لغوی تشریح کردی۔(أَفَعَيِينَا) (ق50۔15) ( لُّغُوبٍ)(ق50۔38) ( أَطْوَارًا) (نوح71۔14) ان الفاظ کی تشریح اس لیے کی کہ ان آیات میں زمین و آسمان اور انسان کی پیدائش کا ذکر ہے جو مذکورہ عنوان کا ماحاصل ہے۔
۔ اور ربیع بن خشیم اور امام حسن بصری نے کہا کہ یوں تو دونوں یعنی ( پہلی مرتبہ پیدا کرنا پھر دوبارہ زندہ کردینا ) اس کے لیے بالکل آسان ہے ( لیکن ایک کو یعنی پیدائش کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو زیادہ آسان ظاہر کے اعتبار سے کہا ) ( مشدد اور مخفف ) دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اور سورہ قٓ میں جو لفظ اَفَعَیِینَا آیا ہے ، اس کے معنی ہیں کہ کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کردیا تھا ۔ جب اس خدا نے تم کو پیدا کردیا تھا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا اور اسی سورت میں ( اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ) لُغُوب کے معنی تھکن کے ہیں اور سورہ نوح میں جو فرمایا اَطوَاراً اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف صورتوں میں تمہیں پیدا کیا ۔ کبھی نطفہ ایسے خون کی پھٹکی پھر گوشت پھر ہڈی پوست ۔ عرب لوگ بولا کرتے ہیں عَدَاطَورَہ یعنی فلاں اپنے مرتبہ سے بڑھ گیا ۔ یہاں اطوار کے معنی رتبے کے ہیں ۔قرآن شریف میں سورۃ مریم میں لفظ وہوہین آیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسب سے اس لفظ کی تشریح کردی کہ ربیع اور حسن کے قول میں یہ لفظ آیا ہے اور سورۃ قٓ اور سورۃ نوح کے لفظوں کی تشریح اس لیے کہ ان آیتوں میں آسمان اور زمین اور انسان کی پیدائش کا بیان ہے اور یہ باب بھی اسی بیان میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمران بن حصین ؓہی سے رویت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی اونٹنی کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا تھا۔ آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’اے بن تمیم! بشارت قبول کرو۔‘‘ انھوں نے دو مرتبہ کہا: آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے، اب ہمیں مال بھی دیں۔ اس دوران میں یمن کے چند لوگ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے بھی یہی فرمایا: ’’اے یمن والو! خوشخبری قبول کرلو، بنو تمیم نے اسے مسترد کردیا ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم نے آپ کی بشارت قبول کی ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس عالم کی پیدائش کے حالات پوچھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اول اللہ کی ذات تھی اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی اور اس کاعرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیزلکھ دی تھی اور اسی نے ہی زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔‘‘ ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ایک شخص نے آواز دی: اے ابن حصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی ہے۔ میں وہاں سے چلا گیا تو دیکھا کہ وہ اونٹنی سراب سے آگے جا چکی تھی۔ اللہ کی قسم! میری خواہش تھی کہ کاش! میں نے اس اونٹنی کو چھوڑ دیا ہوتا (اور وہاں سے نہ اٹھتا تو بہتر تھا)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پانی کو پیدا کیا۔ پھر عرش کو اس کے اوپر پیدا کیا اور عرش کے نیچے صرف پانی تھا دوسری کوئی چیز نہ تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی اور عرش زمین وآسمان سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہے۔ ’’اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔‘‘ اس کے معنی ہیں کہ اللہ قدیم اور ازل سے ہے۔ اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی نہ پانی نہ عرش اور نہ روح کیونکہ یہ سب اشیاء غیر اللہ ہیں۔ بہر حال آغاز تخلیق کی ترتیب اسی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی پھر عرش کو پیدا فرمایا اس کے بعد دیگر کائنات کی تخلیق فرمائی۔ 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا عرش بھی مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
ربیع بن خثیم اور امام حسن بصری کہتے ہیں کہ ابتدا اور اعادہ دنوں اس پر آسان ہیں۔ هَيِّنٌ کو مشدد اور مخفف دونوں طرح پڑھا جاسکتا ہے۔ الغرض هَيِّنٌ اور هَيِّنٌ ‘ لين اورلين ‘مَيِّتٌ اور مَيِّتٌ نیز ضَيْقٍ اور ضَيْقٍ کی طرح ہے۔أَفَعَيِينَا کیا ہم تھک گئے، یعنی کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کردیاتھا، جب اس نے تمھیں پیدا کیا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا۔لُّغُوبٍ کے معنی تھکاوٹ اور مشقت کے ہیں۔أَطْوَارًا کےمعنی ہیں: کبھی ایک حال کبھی دوسرا حال۔ عدا طورةکے معنی ہیں : وہ اپنی قدرومنزلت سےبڑھ گیا۔فائدہ:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ کی لغوی تشریح کردی۔ پھر أَفَعَيِينَا ‘لُّغُوبٍ‘أَطْوَارًا ان الفاظ کی تشریح اس لیے کہ ان آیات میں زمین وآسمان اور انسان کی پیدائش کا ذکر ہے جو مذکورہ عنوان کا ماحاصل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے جامع بن شداد نے بیان کیا، ان سے صفوان بن مرحز نے اور ان سے عمران بن حصین ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اپنے اونٹ کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا۔ اس کے بعد بنی تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا اے بنوتمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انہوں نے دوبار کہا کہ جب آپ نے ہمیں خوش خبری دی ہے تو اب مال بھی دیجئے۔ پھر یمن کے چند لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ خوش خبری قبول کرلو اے یمن والو! بنوتمیم والوں نے تو نہیں قبول کی۔ وہ بولے یا رسول اللہ! خوش خبری ہم نے قبول کی۔ پھر وہ کہنے لگے ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس (عالم کی پیدائش) کا حال پوچھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ (ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ ابن الحصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی۔ میں اس کے پیچھے دوڑا۔ دیکھا تو وہ سراب کی آڑ میں ہے (میرے اور اس کے بیچ میں سراب حائل ہے یعنی وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے) اللہ تعالیٰ کی قسم، میرا دل بہت پچھتایا کہ کاش، میں اسے چھوڑ دیا ہوتا (اور آنحضرت ﷺ کی حدیث سنی ہوتی)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Imran bin Husain (RA): I went to the Prophet (ﷺ) and tied my she-camel at the gate. The people of Bani Tamim came to the Prophet (ﷺ) who said "O Bani Tamim! Accept the good tidings." They said twice, 'You have given us the good tidings, now give us something" Then some Yemenites came to him and he said, "Accept the good tidings, O people of Yemem, for Bani Tamim refused them." They said, "We accept it, O Allah's Apostle (ﷺ) ! We have come to ask you about this matter (i.e. the start of creations)." He said, "First of all, there was nothing but Allah, and (then He created His Throne). His throne was over the water, and He wrote everything in the Book (in the Heaven) and created the Heavens and the Earth." Then a man shouted, "O Ibn Husain! Your she-camel has gone away!" So, I went away and could not see the she-camel because of the mirage. By Allah, I wished I had left that she-camel (but not that gathering).