کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : اللہ پاک کا سورہ اعراف میں یہ ارشاد کہ ” وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنی رحمت ( بارش ) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواوں کو بھیجتا ہے ‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: Allah's Statement: "And it is He Who sends the winds as heralds of glad tidings, going before his Mercy (rain)...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورہ بنی اسرائیل میں قاصفاً کا جو لفظ ہے اس کے معنی سخت ہوا جو ہر چیز کو روند ڈالے ۔ سورہ حج میں جو لفظ لواقح ہے اس کے معنی ملاقح جو ملقحہ کی جمع ہے یعنی حاملہ کر دینے والی ۔ سورہ بقرہ میں جو اعصار کا لفظ ہے تو اعصار بگولے کو کہتے ہیں جو زمین سے آسمان تک ایک ستون کی طرح ہے ۔ اس کے معنی پالا ( سردی ) نشر کے معنی جدا جدا ۔صحیح یہ ہے کہ لواقح لاقحۃ کی جمع یعنی وہ ہوائیں جو پانی کو اٹھائے چلتی ہیں۔ آیت کریمہ لا تسجدو للشمس ولا للقمر الاے ( الاعراف: 57 ) میں لفظ بشرا کی جگہ نشرا پڑھا ہے۔ یعنی ہر طرف جدا چلنے والی ہوائیں۔ لفظ لواقح لاقحۃ کی جمع ہے یعنی وہ ہوائیں جو پانی کو اٹھائے ہوئے چلتی ہیں گویا حملہ ہیں۔ مولانا جمال الدین افعانی کہتے ہیں کہ حاملہ کرنے والی ہوا کا معنی اصول نباتات کی رو سے ٹھیک ہے کیو ںکہ علم نباتات ہوا ہے کہ ہوا نردرخت کا مادہ اڑا کر مادہ درخت پر لے جاتی ہے۔ اس وجہ سے درخت خوب پھلتا پھولتا ہے گویا ہوا درختوں کو حاملہ کرتی ہے۔ تحقیقات جدیدہ سے بھی یہی مشاہدہ ہواہے۔
3206.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمان پر بادل دیکھتے تو آپ کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر داخل ہوتے اورکبھی باہر تشریف لے جاتے۔ اور آپ کے چہرہ انور کا رنگ فق ہوجاتا لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کیفیت کو بھانپا (تو آپ سے عرض کیا) آپ نے فرمایا: ’’کیا پتہ شاید یہ بادل اس طرح کا ہو جس کے متعلق قوم (عاد) نے کہا تھا:‘‘ پھر جب انھوں نے بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا (تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچارہے تھے، یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا)۔‘‘
تشریح:
1۔ ہوا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہ جو مختلف تاثیررکھتی ہے اور قوموں کے عروج وزوال میں اس کا بڑا دخل ہے۔ قوم عاد پر اللہ تعالیٰ نے قحط نازل فرمایا۔ یہ لوگ بہت بڑی مدت سے بارش کو ترس رہے تھے۔ انھوں نے اس دوران میں ایک کالی گھٹا کو دیکھا جو ان کے علاقے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھے کہ اب خوشحالی آئے گی۔ انھیں کیا خبر تھی کہ یہ گھٹا بارانِ رحمت کی گھٹا ہے یا انھیں نیست و نابود کرنے کے لیے اللہ کا عذاب ہے۔ یہ آندھی انتہائی تیز رفتار اور سخت ٹھنڈی تھی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل ان پر چلتی رہی۔ 2۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی چیز کی ظاہری شکل وصورت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہروقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفاظ میں تسلی دے رکھی تھی:﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾’’جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا۔‘‘(الأنفال:33/8) اس کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ جن لوگوں میں میری شخصیت نہیں ہوگی انھیں یہ بادل، عذاب کی شکل اختیار کرکے نیست ونابود کردے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3084
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3206
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3206
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3206
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چند آیات کا حوالہ دیا ہے جو ہواؤں کی مختلف صفات پر مشتمل ہیں پہلی آیت کریمہ میں ہوا کہ یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ بارش سے قبل خوشخبری کے طور پر چلتی ہیں اور جب بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بارش برساتا ہے جس سے بنجر زمین لہلہااٹھتی ہے۔ یہ معنی ہیں جب (بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ)پڑھا جائے اور عاصم کی قرآءت (بُشْرًا)کے ساتھ ہی ہے واضح رہے کہ اس لفظ کو (نُشْرًا ) بھی پڑھا گیا ہے جس کے معنی ہیں۔ ہر طرف سے جداجدا اور متفرق طور پر چلنے والی ہوائیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نون کے ساتھ ہی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ لواقح کوملاقح کے معنی میں لیا ہے یعنی ہوائیں لا قحہ نہیں بلکہ ملقحہ ہوتی ہیں لازم بمعنی متعدی ہے یعنی خود حاملہ نہیں بلکہ حاملہ کرنے والی ہوتی ہیں یہ معنی اصول نباتات کے اعتبار سے صحیح ہیں کیونکہ علم نباتات میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوانر درخت کا مادہ اڑا کر مادہ درخت پر لے جاتی ہے۔اسے عمل (تابير)کہا جاتا ہے۔اس سے درخت خوب پھلتا پھولتا ہے گویا ہوائیں درختوں کو حاملہ کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ عذاب کی ہوا کو (الرِّيحَ الْعَقِيمَ) کہا جاتا ہے بعض حضرات نے اسے لازم معنی ہی میں استعمال کیا ہے یعنی لاقحۃ کی جمع الوا قح ہے جس کے معنی "حاملہ"کے ہیں یعنی پانی اٹھائے آتی ہیں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔" ہوائیں ایک طرح سے لاقحہ ہیں کہ وہ پانی اٹھا کر لاتی ہیں اور ایک وجہ سے ملقحہ ہیں کہ بادلوں پر اثر انداز ہو کر انھیں پانی برسانے کے قابل کر دیتی ہیں انھوں نے اس موقف کی تائید میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں کو پھیلاتاہے جو پانی اٹھا کر لاتی ہیں پھر بادلوں کو پھیر دیتی ہیں۔(فتح الباری:6/362)
سورہ بنی اسرائیل میں قاصفاً کا جو لفظ ہے اس کے معنی سخت ہوا جو ہر چیز کو روند ڈالے ۔ سورہ حج میں جو لفظ لواقح ہے اس کے معنی ملاقح جو ملقحہ کی جمع ہے یعنی حاملہ کر دینے والی ۔ سورہ بقرہ میں جو اعصار کا لفظ ہے تو اعصار بگولے کو کہتے ہیں جو زمین سے آسمان تک ایک ستون کی طرح ہے ۔ اس کے معنی پالا ( سردی ) نشر کے معنی جدا جدا ۔صحیح یہ ہے کہ لواقح لاقحۃ کی جمع یعنی وہ ہوائیں جو پانی کو اٹھائے چلتی ہیں۔ آیت کریمہ لا تسجدو للشمس ولا للقمر الاے ( الاعراف: 57 ) میں لفظ بشرا کی جگہ نشرا پڑھا ہے۔ یعنی ہر طرف جدا چلنے والی ہوائیں۔ لفظ لواقح لاقحۃ کی جمع ہے یعنی وہ ہوائیں جو پانی کو اٹھائے ہوئے چلتی ہیں گویا حملہ ہیں۔ مولانا جمال الدین افعانی کہتے ہیں کہ حاملہ کرنے والی ہوا کا معنی اصول نباتات کی رو سے ٹھیک ہے کیو ںکہ علم نباتات ہوا ہے کہ ہوا نردرخت کا مادہ اڑا کر مادہ درخت پر لے جاتی ہے۔ اس وجہ سے درخت خوب پھلتا پھولتا ہے گویا ہوا درختوں کو حاملہ کرتی ہے۔ تحقیقات جدیدہ سے بھی یہی مشاہدہ ہواہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمان پر بادل دیکھتے تو آپ کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر داخل ہوتے اورکبھی باہر تشریف لے جاتے۔ اور آپ کے چہرہ انور کا رنگ فق ہوجاتا لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کیفیت کو بھانپا (تو آپ سے عرض کیا) آپ نے فرمایا: ’’کیا پتہ شاید یہ بادل اس طرح کا ہو جس کے متعلق قوم (عاد) نے کہا تھا:‘‘ پھر جب انھوں نے بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا (تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچارہے تھے، یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ہوا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہ جو مختلف تاثیررکھتی ہے اور قوموں کے عروج وزوال میں اس کا بڑا دخل ہے۔ قوم عاد پر اللہ تعالیٰ نے قحط نازل فرمایا۔ یہ لوگ بہت بڑی مدت سے بارش کو ترس رہے تھے۔ انھوں نے اس دوران میں ایک کالی گھٹا کو دیکھا جو ان کے علاقے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھے کہ اب خوشحالی آئے گی۔ انھیں کیا خبر تھی کہ یہ گھٹا بارانِ رحمت کی گھٹا ہے یا انھیں نیست و نابود کرنے کے لیے اللہ کا عذاب ہے۔ یہ آندھی انتہائی تیز رفتار اور سخت ٹھنڈی تھی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل ان پر چلتی رہی۔ 2۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی چیز کی ظاہری شکل وصورت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہروقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفاظ میں تسلی دے رکھی تھی:﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾’’جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا۔‘‘(الأنفال:33/8) اس کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ جن لوگوں میں میری شخصیت نہیں ہوگی انھیں یہ بادل، عذاب کی شکل اختیار کرکے نیست ونابود کردے۔
ترجمۃ الباب:
قَاصِفًا کے معنی سخت آندھی کے ہیں جو ہر چیز کو توڑ ڈالے۔ لَوَاقِح اس کے معنی ہیں ملاقح جو ملقحه کی جمع ہے، یعنی حاملہ کردینے والی ہوائیں۔ إِعْصَارٌوہ بگولا جو زمین سے آسمان کی طرف ستون کی طرح اٹھے جس میں آگ ہے۔ صراس کے معنی سخت سردی کے ہیں۔ شْرًاکے معنی ہیں: متفرق اور جدا جدا۔
فائدہ:پہلی آیت کریمہ میں ہواکی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ بارش سے قبل خوشخبری کے طور پر چلتی ہیں اور جب بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بارش برساتا ہے جس سے بنجر زمین لہلہا اٹھتی ہے۔ یہ معنی ہیں جب بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ پڑھا جائے اور عاصم کی قراءتوبُشرا باء کے ساتھ ہی ہے۔ واضح رہے کہ اس لفظ کونشْرًابھی پڑھا گیا ہے۔ جس کے معنی ہر طرف سے جدا جدا اور متفرق طور پر چلنے والی ہوائیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نون کے ساتھ ہی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ لَوَاقِح کو ملاقح کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی ہوائیں لاقحہ نہیں بلکہ ملحقہ ہوتی ہیں۔ لازم بمعنی متعدی ہے، یعنی خود حاملہ نہیں بلکہ حاملہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ یہ معنی اصول نباتات کے اعتبارسے صحیح ہیں کیونکہ علم نباتات میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوانر درخت کا مادہ اڑا کر مادہ درخت پر لے جاتی ہے۔ اسے عمل تابير کہا جاتا ہے۔ اس سے درخت خوب پھلتا پھولتا ہے، گویا ہوائیں درختوں کو حاملہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عذاب کی ہوا کو الرِّيحَ الْعَقِيمَ کہا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ ابر کا کوئی ایسا ٹکڑا دیکھتے جس سے بارش کی امید ہوتی تو آپ کبھی آگے آتے، کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر تشریف لاتے، کبھی باہر آ جاتے اور چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔ لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ نے اس کے متعلق آپ سے پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا۔ میں نہیں جانتا ممکن ہے یہ بادل بھی ویسا ہی ہو جس کے بارے میں قوم عاد نے کہا تھا، جب انہوں نے بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تھا۔ آخر آیت تک (کہ ان کے لیے رحمت کا بادل آیا ہے، حالانکہ وہ عذاب کا بادل تھا)
حدیث حاشیہ:
ہوا بھی اللہ کی ایک مخلوق ہے جو مختلف تاثیر رکھتی ہے اور مخلوقات کی زندگی میں جس کا قدرت نے بڑا دخل رکھا ہے۔ قوم عاد پر اللہ نے قحط کا عذاب نازل کیا۔ انہوں نے اپنے کچھ لوگوں کو مکہ شریف بھیجا کہ وہاں جاکر بارش کی دعا کریں۔ مگر وہاں وہ لوگ عیش و عشرت میں پڑ کر دعا کرنا بھول گئے۔ ادھر قوم کی بستیوں پر بادل چھائے۔ قوم نے سمجھا کہ یہ ہمارے ان آدمیوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔ مگر اس بادل نے عذاب کی شکل اختیار کرکے اس قوم کو تباہ کردیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ata (RA): 'Aisha (RA) said If the Prophet (ﷺ) saw a cloud In the sky, he would walk to and fro in agitation, go out and come in, and the color of his face would change, and if it rained, he would feel relaxed." So 'Aisha (RA) knew that state of his. So the Prophet (ﷺ) said, I don't know (am afraid), it may be similar to what happened to some people referred to in the Holy Qur'an in the following Verse: -- "Then when they saw it as a dense cloud coming towards their valleys, they said, 'This is a cloud bringing us rain!' Nay, but, it is that (torment) which you were asking to be hastened a wind wherein is severe torment." (46.24)