باب: اس بارے میں کہ اگر کسی عورت کو ایک ہی مہینہ میں تین بار حیض آئے؟
)
Sahi-Bukhari:
Menstrual Periods
(Chapter: If a woman gets menses thrice a month)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حیض و حمل سے متعلق جب کہ حیض آنا ممکن ہو تو عورتوں کے بیان کی تصدیق کی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا ہے کہ ان کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں۔ ( لہٰذا جس طرح یہ بیان قابل تسلیم ہو گا اسی طرح حیض کے متعلق بھی ان کا بیان مانا جائے گا۔اور حضرت علی ؓ اور قاضی شریح سے منقول ہے کہ اگر عورت کے گھرانے کا کوئی آدمی گواہی دے اور وہ دین دار بھی ہو کہ یہ عورت ایک مہینہ میں تین مرتبہ حائضہ ہوتی ہے تو اس کی تصدیق کی جائے گی اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ عورت کے حیض کے دن اتنے ہی قابل تسلیم ہوں گے جتنے پہلے ( اس کی عادت کے تحت ) ہوتے تھے۔ ( یعنی طلاق وغیرہ سے پہلے ) ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے اور عطاء نے کہا کہ حیض کم سے کم ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہو سکتا ہے۔ معتمر اپنے والد سلیمان کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن سیرین سے ایک ایسی عورت کے متعلق پوچھا جو اپنی عادت کے مطابق حیض آ جانے کے پانچ دن بعد خون دیکھتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ عورتیں اس کا زیادہ علم رکھتی ہیں۔
325.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ نے نبی ﷺ سے پوچھا: مجھے استحاضے کا خون آتا ہے اور میں مدتوں پاک نہیں ہو سکتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں، اتنے دن نماز چھوڑ دیا کرو جن میں اس (بیماری) سے قبل تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؓ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرعورت دعویٰ کرے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آگئے ہیں تو کیا اس کی بات کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ صورت مسئلہ یوں ہوسکتی ہے کہ کسی عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی، وہ ایک ماہ کے بعد رجوع کرنا چاہتا ہے، لیکن عورت کا یہ دعویٰ ہے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، یعنی خاوند کا حق رجوع ختم ہوچکا ہے، کیونکہ اس کی عدت تین حیض آنے تک تھی، اب وہ ختم ہوچکی ہے۔ امام بخاری ؒ کا موقف صراحت کے ساتھ نہیں، البتہ اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض اور حمل کے معاملات میں عورت کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، لیکن اس سے قسم لی جائے گی۔ امام بخاری نے ایک اورشرط بھی بیان کی ہے کہ اگرتین حیض کا دعویٰ ایسی مدت میں ہے کہ اس مدت میں تین حیض آسکتے ہیں تو صحیح ہے، اگرامکانی مدت سے کم میں دعویٰ کرتی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ امام بخاری نے دلیل کے طور پر آیت کریمہ کو پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو نہ چھپائیں۔ اگرحیض یا حمل ہے تو اسے ظاہر کردیں، کیونکہ حیض یا حمل تک خاوند کو رجوع کرنے کا حق ہے۔ استدلال بایں طور ہے کہ عورت کو رحمی حالت کے اظہار کی تاکید کی جارہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں عورت کا بیان ہی معتبر ہوگا۔ یہ بھی واضح رہے کہ بیان کے معتبر ہونے کے معنی بیان حلفی کے معتبر ہونے کے ہوا کرتے ہیں، لہذا ایک ماہ میں تین حیض آنے کے متعلق بھی اس کا بیان قسم لے کر معتبر مانا جائے گا، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں: اگرعورت یہ دعویٰ کرے کہ ایک ماہ میں اسے تین حیض آچکے ہیں تو اس کی تصدیق کی جائے گی، کیونکہ ایسا ممکن ہے۔ قرآنی آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی بات معتبر ہوگی۔ اس باب میں بیان کردہ جملہ تعلیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حیض کی مدت محدود مقرر نہیں ہے، اس لیے عورت ہی کی بات پر مدار ہے، بشرطیکہ حد امکان سے باہر نہ ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒ نےاگرچہ واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ ایک ماہ میں تین حیض آجانے کا دعویٰ کرنے والی عورت کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اور وہ عدت سے خارج ہوجائےگی، لیکن ان کے پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جواز وتصدیق کے قائل ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے قاضی شریح تابعی کا ایک فیصلہ اپنی تائید میں پیش کیا ہے۔ اس کی تفصیل بایں طور ہے کہ ایک دن قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا جس میں عورت کو طلاق پر ایک ماہ گزرچکا تھا، خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا، لیکن عورت کا دعویٰ تھا کہ مجھے ایک ہی ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، لہذا میری عدت ختم ہوچکی ہے۔ حضرت شریح ؒ نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے گھر کے رازداں دیندار اقرباء میں سے ایسے گواہ لاؤ جو گواہی دیں کہ ہم نے اسے ایام حیض ترک صوم وصلاۃ کے بعد صوم وصلاۃ ادا کرتے دیکھا ہے توعدالت تیرے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہوئے فیصلہ تیرے حق میں کردے گی۔ حضرت شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی ؓ کی موجودگی میں کیا، انھوں نے اس فیصلے کی تحسین فرمائی۔ (سنن الدارمي:حدیث:855) ویسے عورت کو ایک ماہ میں تین بار حیض نہیں آتا۔ تندرست عورت کو ہرماہ صرف چند ایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگرکبھی شازونادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرارکرے کہ اسے ایک مہینے میں تین بار حیض آیا ہے تواس کا بیان قابل تسلیم ہے جس طرح استحاضے کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ 3۔ حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرمایا کہ اگر مطلقہ عورت ایک ماہ میں تین حیض گزرجانے کا دعویٰ کرتی ہے تو دیکھا جائے کہ طلاق سے قبل اس کی عادت کیا تھی۔ (المصنف لعبد الرزاق:311/6) اگر اسے ایک ماہ میں تین حیض آنے کی عادت تھی تو اس کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گا کہ یہ اپنے شوہر سے پیچھا چھڑانے کا دعویٰ کررہی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ اس بہانے خاوند کا حق رجوع باطل کررہی ہے۔ 4۔ امام بخاری ؒ کےنزدیک حیض وحمل کے متعلق عورتوں کا بیان قابل اعتبار ہے، اس لیے انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں ہے کہ جن دنوں میں تجھے حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑدے، پھر غسل کرکے نماز شروع کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں عورت کی بات اوررائے کااعتبار ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے معاملہ حضرت فاطمہ بنت ابی جیش ؓ کے سپردکردیا کہ ان دنوں کے اندازے پر تم نماز چھوڑ دو جن میں تمھیں حیض آتا ہے۔ نیزرسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر ہی مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔ واللہ أعلم۔ نوٹ:۔عطا ؒ کا دوسرا اثر کہ مدت حیض ایک دن سے پندرہ دن تک ہے کہ امام دارمی نے سنن الدارمی (حدیث:833) میں اورابن سیرین ؒ کے اثر کو(حدیث 795) میں موصولاً بیان کیا ہے۔
اور حیض و حمل سے متعلق جب کہ حیض آنا ممکن ہو تو عورتوں کے بیان کی تصدیق کی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا ہے کہ ان کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں۔ ( لہٰذا جس طرح یہ بیان قابل تسلیم ہو گا اسی طرح حیض کے متعلق بھی ان کا بیان مانا جائے گا۔اور حضرت علی ؓ اور قاضی شریح سے منقول ہے کہ اگر عورت کے گھرانے کا کوئی آدمی گواہی دے اور وہ دین دار بھی ہو کہ یہ عورت ایک مہینہ میں تین مرتبہ حائضہ ہوتی ہے تو اس کی تصدیق کی جائے گی اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ عورت کے حیض کے دن اتنے ہی قابل تسلیم ہوں گے جتنے پہلے ( اس کی عادت کے تحت ) ہوتے تھے۔ ( یعنی طلاق وغیرہ سے پہلے ) ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے اور عطاء نے کہا کہ حیض کم سے کم ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہو سکتا ہے۔ معتمر اپنے والد سلیمان کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن سیرین سے ایک ایسی عورت کے متعلق پوچھا جو اپنی عادت کے مطابق حیض آ جانے کے پانچ دن بعد خون دیکھتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ عورتیں اس کا زیادہ علم رکھتی ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ نے نبی ﷺ سے پوچھا: مجھے استحاضے کا خون آتا ہے اور میں مدتوں پاک نہیں ہو سکتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں، اتنے دن نماز چھوڑ دیا کرو جن میں اس (بیماری) سے قبل تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؓ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرعورت دعویٰ کرے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آگئے ہیں تو کیا اس کی بات کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ صورت مسئلہ یوں ہوسکتی ہے کہ کسی عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی، وہ ایک ماہ کے بعد رجوع کرنا چاہتا ہے، لیکن عورت کا یہ دعویٰ ہے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، یعنی خاوند کا حق رجوع ختم ہوچکا ہے، کیونکہ اس کی عدت تین حیض آنے تک تھی، اب وہ ختم ہوچکی ہے۔ امام بخاری ؒ کا موقف صراحت کے ساتھ نہیں، البتہ اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض اور حمل کے معاملات میں عورت کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، لیکن اس سے قسم لی جائے گی۔ امام بخاری نے ایک اورشرط بھی بیان کی ہے کہ اگرتین حیض کا دعویٰ ایسی مدت میں ہے کہ اس مدت میں تین حیض آسکتے ہیں تو صحیح ہے، اگرامکانی مدت سے کم میں دعویٰ کرتی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ امام بخاری نے دلیل کے طور پر آیت کریمہ کو پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو نہ چھپائیں۔ اگرحیض یا حمل ہے تو اسے ظاہر کردیں، کیونکہ حیض یا حمل تک خاوند کو رجوع کرنے کا حق ہے۔ استدلال بایں طور ہے کہ عورت کو رحمی حالت کے اظہار کی تاکید کی جارہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں عورت کا بیان ہی معتبر ہوگا۔ یہ بھی واضح رہے کہ بیان کے معتبر ہونے کے معنی بیان حلفی کے معتبر ہونے کے ہوا کرتے ہیں، لہذا ایک ماہ میں تین حیض آنے کے متعلق بھی اس کا بیان قسم لے کر معتبر مانا جائے گا، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں: اگرعورت یہ دعویٰ کرے کہ ایک ماہ میں اسے تین حیض آچکے ہیں تو اس کی تصدیق کی جائے گی، کیونکہ ایسا ممکن ہے۔ قرآنی آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی بات معتبر ہوگی۔ اس باب میں بیان کردہ جملہ تعلیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حیض کی مدت محدود مقرر نہیں ہے، اس لیے عورت ہی کی بات پر مدار ہے، بشرطیکہ حد امکان سے باہر نہ ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒ نےاگرچہ واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ ایک ماہ میں تین حیض آجانے کا دعویٰ کرنے والی عورت کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اور وہ عدت سے خارج ہوجائےگی، لیکن ان کے پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جواز وتصدیق کے قائل ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے قاضی شریح تابعی کا ایک فیصلہ اپنی تائید میں پیش کیا ہے۔ اس کی تفصیل بایں طور ہے کہ ایک دن قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا جس میں عورت کو طلاق پر ایک ماہ گزرچکا تھا، خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا، لیکن عورت کا دعویٰ تھا کہ مجھے ایک ہی ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، لہذا میری عدت ختم ہوچکی ہے۔ حضرت شریح ؒ نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے گھر کے رازداں دیندار اقرباء میں سے ایسے گواہ لاؤ جو گواہی دیں کہ ہم نے اسے ایام حیض ترک صوم وصلاۃ کے بعد صوم وصلاۃ ادا کرتے دیکھا ہے توعدالت تیرے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہوئے فیصلہ تیرے حق میں کردے گی۔ حضرت شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی ؓ کی موجودگی میں کیا، انھوں نے اس فیصلے کی تحسین فرمائی۔ (سنن الدارمي:حدیث:855) ویسے عورت کو ایک ماہ میں تین بار حیض نہیں آتا۔ تندرست عورت کو ہرماہ صرف چند ایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگرکبھی شازونادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرارکرے کہ اسے ایک مہینے میں تین بار حیض آیا ہے تواس کا بیان قابل تسلیم ہے جس طرح استحاضے کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ 3۔ حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرمایا کہ اگر مطلقہ عورت ایک ماہ میں تین حیض گزرجانے کا دعویٰ کرتی ہے تو دیکھا جائے کہ طلاق سے قبل اس کی عادت کیا تھی۔ (المصنف لعبد الرزاق:311/6) اگر اسے ایک ماہ میں تین حیض آنے کی عادت تھی تو اس کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گا کہ یہ اپنے شوہر سے پیچھا چھڑانے کا دعویٰ کررہی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ اس بہانے خاوند کا حق رجوع باطل کررہی ہے۔ 4۔ امام بخاری ؒ کےنزدیک حیض وحمل کے متعلق عورتوں کا بیان قابل اعتبار ہے، اس لیے انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں ہے کہ جن دنوں میں تجھے حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑدے، پھر غسل کرکے نماز شروع کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں عورت کی بات اوررائے کااعتبار ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے معاملہ حضرت فاطمہ بنت ابی جیش ؓ کے سپردکردیا کہ ان دنوں کے اندازے پر تم نماز چھوڑ دو جن میں تمھیں حیض آتا ہے۔ نیزرسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر ہی مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔ واللہ أعلم۔ نوٹ:۔عطا ؒ کا دوسرا اثر کہ مدت حیض ایک دن سے پندرہ دن تک ہے کہ امام دارمی نے سنن الدارمی (حدیث:833) میں اورابن سیرین ؒ کے اثر کو(حدیث 795) میں موصولاً بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
جب حیض آنے کا امکان ہو تو حیض اور حمل کے متعلق عورتوں کی تصدیق کی جائے گی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان عورتوں کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کیا ہے، وہ اسے چھپائیں۔" حضرت ؓ اور قاضی شریح سے منقول ہے: اگر عورت کے گھرانے کا کوئی دیندار فرد گواہی دے کہ اس عورت کو ایک مہینے میں تین مرتبہ حیض آیا ہے تو اس کی تصدیق کی جائے گی۔ حضرت عطاء نے کہا: عورت کے حیض کے دن اتنے ہی ہوں گے جتنے پہلے ہوتے تھے۔ ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے۔ حضرت عطاء نے یہ بھی کہا: حیض ایک دن سے پندرہ دن تک ہو سکتا ہے۔ حضرت معتمر بن سلیمان اپنے باپ (سلیمان) سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے ابن سیرین سے ایک ایسی عورت کے متعلق دریافت کیا جو اپنی عادت کے مطابق حیض آ جانے کے بعد پانچ دن تک خون دیکھتی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: عورتیں اپنے معاملات کے متعلق زیادہ علم رکھتی ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابو اسامہ نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے ہشام بن عروہ سے سنا، کہا مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ ؓ کے واسطہ سے خبر دی کہ فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے، ہاں اتنے دنوں میں نماز ضرور چھوڑ دیا کر جن میں اس بیماری سے پہلے تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ: ﴿ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ﴾(البقرة: 228) کی تفسیر میں زہری ؒ اور مجاہد ؒ نے کہا کہ عورتوں کواپنا حیض یاحمل چھپانا درست نہیں، ان کو چاہیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کردیں۔ اب اگران کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔ اس طرح حضرت امام بخاری ؒ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح ؒ کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔ جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔ خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آگئے ہیں۔ تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی ؓ کے سامنے سنایا، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے۔ قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر حضرت علی ؓ نے فرمایاکہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی ؒ نے بھی اپنی کتاب جلد1،ص: 295 پر ذکر فرمایا ہے۔ قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا، مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہوسکی۔ قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔ حیض کی مدت کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ حنفیہ کے نزدیک حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔ صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ حیض کی کوئی مدت معین نہیں۔ ہر عورت کی عادت پر اس کا انحصارہے، اگرمعین بھی کریں توچھ یا سات روز اکثر مدت معین ہوگی، جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے۔ ایک مہینہ میں عورت کو تین بارحیض نہیں آیا کرتا، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چندایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تواس کا بیان تسلیم کیا جائے گا۔ جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ''ومناسبة الحديث للترجمة في قوله: قدر الأيام التي كنت تحيضين فيها فيوكل ذلك إلى أمانتها وردّها إلى عادتها'' (شرح القسطلاني:362/1)’’یعنی حدیث اور باب میں مناسبت حدیث کے اس جملہ میں ہے کہ نماز چھوڑدو ان دنوں کے اندازہ پر جن میں تم کو حیض آتا رہا ہے۔ پس اس معاملہ کو اس کی امانت داری پر چھوڑدیا جائے گا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Fatima bint Abi Hubaish asked the Prophet, "I got persistent bleeding (in between the periods) and do not become clean. Shall I give up prayers?" He replied, "No, this is from a blood vessel. Give up the prayers only for the days on which you usually get the menses and then take a bath and offer your prayers."