سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ اور اللہ نے ابرہیم کو خلیل بنایا “اور ( سوہ نحل میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ’’بے شک ابراہیم(تمام خوبیوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے خود) ایک امت تھے‘اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار‘اور طرف ہونے والے اور (سورۂ توبہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ’’بے شک ابراہیم نہایت نرم طبیعت اور بڑے ہی بردبار تھے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "...And Allah did take Ibrahim as a Khalil.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابومیسرہ(عمروبن شرجیل)نے کہا کہ (اواہ)حبشی زبان میں رحیم کے معنی میں ہے۔
3358.
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابراہیم ؑ نے صرف تین مرتبہ خلاف واقعہ بات کی ہے۔ ان میں سے دوتواللہ کی ذات ستودہ صفات کے متعلق تھیں۔ پہلے آپ کا یہ کہنا: ’’میں بیمارہوں۔‘‘ دوسری بات ان کا کہنا: ’’بلکہ یہ ان کے بڑے بت نے کیا ہے۔‘‘ اور آپ نے فرمایا: (تیسری بات یہ ہے کہ) ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ (سفرکرتے کرتے ) ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرے تو اس (بادشاہ) سے کہا گیا: یہاں ایک مرد آیاہے۔ اس کے ساتھ بہت خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس بادشاہ نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا اور سارہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انھوں نے (حضرت ابراہیم ؑ نے) جواب دیا: یہ میری بہن ہے۔ اس کے بعد آپ سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: اے سارہ! میرے اور تیرے سوا اس سر زمین میں کوئی مومن نہیں ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے اسے بتایا کہ تو میری بہن ہے، لہٰذا تونے مجھے جھٹلانا نہیں۔ اس دوران میں اس ظالم نے سارہ کی طرف آدمی بھیجا۔ جب آپ اس کے پاس گئیں تو اس نے اپنے ہاتھ سے سارہ کو پکڑنا چاہا تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ نے اللہ سے دعا کی تو اسے نجات مل گئی۔ اس نے دوبارہ حضرت سارہ کو پکڑنا چاہا تو پہلےسے زیادہ گرفت میں آگیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تمھیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے دعا کی تو اس کی خلاصی ہوگئی۔ پھر اس نے اپنے خادم کو بلایا اور کہا: تم میرے پاس انسان نہیں بلکہ کوئی شیطان لائے ہو اور سارہ کو بطور خدمت ہاجرہ دے کر واپس بھیج دیا۔ وہ (حضرت سارہ ان) حضرت ابراہیم ؑ کے پاس واپس آئیں تو آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا: تمھارا حال کیسے رہا؟ سارہ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا فاجرکی تدبیر کو الٹا اس کے خلاف کردیا اور اس نے خدمت کے لیے ہاجرہ بھی دی ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓنے فرمایا: اے آسمانی پانی کی اولاد! تمھاری والدہ یہی ہاجرہ ہیں۔
تشریح:
1۔ حضرت ہاجرہ ؓ کی بیٹی تھیں جسے اس نے حصول برکت کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں دے دیا تھا۔ یہی عرب کی والدہ ہیں اور انھیں آسمان کا پانی پینے والا کہا گیا ہے کیونکہ اہل عرب کا زیادہ تر گزارا بارش کے پانی پر ہی تھا۔ اگرچہ آج کل کنویں اور نہریں بنادی گئیں ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ ﴿أيَّدَهُ اللهُ بِنَصْرِهِ العَزِيز﴾ 2۔حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وہ انتہائی سچے انسان اور ایک نبی تھے۔‘‘ (مریم:19/41) بعض لوگوں نے اس آیت کریمہ کے پیش نظر صحیح بخاری مذکورہ حدیث پر اعتراض کرتے اور اس کی صحت کے متعلق زبان درازی کرتے ہوئے لکھا ہے:ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری ومسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اسے اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد ہوتا ہے، حالانکہ ان تین میں سے دو کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ بتوں کو آپ نے توڑا لیکن پوچھنے پر آپ نے کہہ دیا: ’’اس بڑے بہت نے انھیں توڑا ہے۔‘‘ (الأنبیاء:21/63) اسی طرح جب ان کی قوم جشن منانے کے لیے باہرگئی تو آپ کوساتھ لے جانے کو کہا، آپ نے کہہ دیا:’’میں بیمار ہوں۔‘‘ (الصفت:89/37) پھر اس وقت جاکر ان کے بت بھی توڑڈالے تو پھر بیمار کیسے تھے؟ کیا یہ باتیں خلاف واقعہ نہیں تھیں؟ دراصل معترضین کا اصل رخ قرآن کریم کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ تکذیب حدیث کی طرف پھر رسول اللہ ﷺ نے آغاز حدیث میں یہ الفاظ فرمائے ہیں کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، یہ ان کے فی الواقع صدیق ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے۔ کہ ان سے 175 سالہ زندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ خلاف واقعہ بات سرزد نہیں ہوئی جبکہ ہم لوگ ساری زندگی میں نہیں بلکہ ایک دن رات میں کئی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اعتراض کرنے والے خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک شخص اپنی طویل ترزندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ خلاف واقعہ نہ بولے تو اسے صدیق کہا جاسکتا یا نہیں؟ پھر ان تینوں کرنے کے لیے کہیں جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے۔ سارہ کا واقعہ اگرچہ یہ بھی اللہ کے لیے تھا لیکن اس میں کچھ حظ انسان بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی انھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کہی تھی۔ اس بادشاہ کادستور تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتاتو اسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ اس کا بھائی یا کوئی دوسرا رشتے دار ہوتا تو اس سے صرف عورت چھینتا مگر اس کی جان لینے سے درگزر کرتاتھا۔ اگرحضرت ابراہیم ؑ نے اپنی جان بچانے کے لیے خلاف واقعہ بات کی تو اس میں کون سی قیامت آگئی۔ حالانکہ وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ نہیں بنتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ بتا رہے کہ وہ آپ کی دینی بہن تھی۔ اگرجان بچانے کی خاطر مردار کھانا جائز ہےتو خلاف واقعہ بولنے کی اجازت کیوں نہیں۔ جان بچانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر تک کہنے کی بھی اجازت دی ہے بشرط یہ کہ دل میں ایسی کوئی بات نہ ہو۔ (النحل:106/16) ہمیشہ سچ بولنا، جھوٹ اور خلاف واقعہ بات سے پرہیز کرنا ایک شرعی حکم ہے، تاہم بعض اوقات شریعت میں خلاف واقعہ بات کی اجازت دی گئی ہے، مثلاً:میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لیے باتیں بنانے اور خلاف واقعہ باتیں کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں خیر اور اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتاہے، اسی طرح جہاد میں دشمن کو ہراساں کرنے کے لیے بھی ایسی باتوں کی اجازت ہے، جو خلاف واقعہ ہوں، حالانکہ لغوی اعتبار سے ان باتوں پر بھی کذب کا اطلاق ہوسکتا ہے۔بہرحال کسی دینی مقصد کے لیے بطورتعریض والزام ایسی گفتگو کرنا جو بظاہر خلاف واقعہ ہوایسا جھوٹ نہیں جس پر وعید آئی ہو۔ ایسا کرنا نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو کو ظاہر اعتبار سے توجھوٹ کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ جھوٹ نہیں بلکہ اسے توریہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال یہ حدیث حضرت ابراہیم ؑ کی عظمت کی دلیل ہے، اسی لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ اس پر طعن یا اس کی صحت سے انکار کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سب بے بنیاد باتیں ہیں جو منکرین حدیث نے حدیث سے نفرت پیدا کرنے کے لیے مشہور کررکھی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3230
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3358
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3358
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3358
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بہت سے اوصاف ذکر کیے ہیں،مثلاًاواہ،حلیم،منیب،حنیف،قانع اور شاکر وغیرہ۔آپ نے اس دور کے مشرکین کو دعوتِ توحید دی اور انھیں چاند،ستاروں،سورج اور بتوں کی عبادت سے منع کیا تو آپ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑاحتی کہ آپ کو آتش نمرود میں کودنا پڑا۔اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اور اپنے بیٹے کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ایک دفعہ آپ اپنی بیوی اور شیرخوار لخت جگر کو بے آب وگیاہ وادی میں اللہ کے حوالے کردیا۔لوگوں کی مہمانی آپ کا شیوہ تھا۔یہ وہ امور ہیں جو اللہ کوبہت پسند آئے ،اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنایا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آیات سے سیرت خلیل اللہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔آئندہ احادیث بھی اسی موضوع سے متعلق ہیں۔
ابومیسرہ(عمروبن شرجیل)نے کہا کہ (اواہ)حبشی زبان میں رحیم کے معنی میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابراہیم ؑ نے صرف تین مرتبہ خلاف واقعہ بات کی ہے۔ ان میں سے دوتواللہ کی ذات ستودہ صفات کے متعلق تھیں۔ پہلے آپ کا یہ کہنا: ’’میں بیمارہوں۔‘‘ دوسری بات ان کا کہنا: ’’بلکہ یہ ان کے بڑے بت نے کیا ہے۔‘‘ اور آپ نے فرمایا: (تیسری بات یہ ہے کہ) ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ (سفرکرتے کرتے ) ایک ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرے تو اس (بادشاہ) سے کہا گیا: یہاں ایک مرد آیاہے۔ اس کے ساتھ بہت خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس بادشاہ نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا اور سارہ کے متعلق پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انھوں نے (حضرت ابراہیم ؑ نے) جواب دیا: یہ میری بہن ہے۔ اس کے بعد آپ سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: اے سارہ! میرے اور تیرے سوا اس سر زمین میں کوئی مومن نہیں ہے۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے اسے بتایا کہ تو میری بہن ہے، لہٰذا تونے مجھے جھٹلانا نہیں۔ اس دوران میں اس ظالم نے سارہ کی طرف آدمی بھیجا۔ جب آپ اس کے پاس گئیں تو اس نے اپنے ہاتھ سے سارہ کو پکڑنا چاہا تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ نے اللہ سے دعا کی تو اسے نجات مل گئی۔ اس نے دوبارہ حضرت سارہ کو پکڑنا چاہا تو پہلےسے زیادہ گرفت میں آگیا۔ اس نے سارہ سے کہا: میرے لیے اللہ سے دعا کرو، میں تمھیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے دعا کی تو اس کی خلاصی ہوگئی۔ پھر اس نے اپنے خادم کو بلایا اور کہا: تم میرے پاس انسان نہیں بلکہ کوئی شیطان لائے ہو اور سارہ کو بطور خدمت ہاجرہ دے کر واپس بھیج دیا۔ وہ (حضرت سارہ ان) حضرت ابراہیم ؑ کے پاس واپس آئیں تو آپ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا: تمھارا حال کیسے رہا؟ سارہ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا فاجرکی تدبیر کو الٹا اس کے خلاف کردیا اور اس نے خدمت کے لیے ہاجرہ بھی دی ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓنے فرمایا: اے آسمانی پانی کی اولاد! تمھاری والدہ یہی ہاجرہ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ہاجرہ ؓ کی بیٹی تھیں جسے اس نے حصول برکت کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں دے دیا تھا۔ یہی عرب کی والدہ ہیں اور انھیں آسمان کا پانی پینے والا کہا گیا ہے کیونکہ اہل عرب کا زیادہ تر گزارا بارش کے پانی پر ہی تھا۔ اگرچہ آج کل کنویں اور نہریں بنادی گئیں ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ ﴿أيَّدَهُ اللهُ بِنَصْرِهِ العَزِيز﴾ 2۔حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وہ انتہائی سچے انسان اور ایک نبی تھے۔‘‘ (مریم:19/41) بعض لوگوں نے اس آیت کریمہ کے پیش نظر صحیح بخاری مذکورہ حدیث پر اعتراض کرتے اور اس کی صحت کے متعلق زبان درازی کرتے ہوئے لکھا ہے:ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری ومسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اسے اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد ہوتا ہے، حالانکہ ان تین میں سے دو کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ بتوں کو آپ نے توڑا لیکن پوچھنے پر آپ نے کہہ دیا: ’’اس بڑے بہت نے انھیں توڑا ہے۔‘‘ (الأنبیاء:21/63) اسی طرح جب ان کی قوم جشن منانے کے لیے باہرگئی تو آپ کوساتھ لے جانے کو کہا، آپ نے کہہ دیا:’’میں بیمار ہوں۔‘‘ (الصفت:89/37) پھر اس وقت جاکر ان کے بت بھی توڑڈالے تو پھر بیمار کیسے تھے؟ کیا یہ باتیں خلاف واقعہ نہیں تھیں؟ دراصل معترضین کا اصل رخ قرآن کریم کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ تکذیب حدیث کی طرف پھر رسول اللہ ﷺ نے آغاز حدیث میں یہ الفاظ فرمائے ہیں کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، یہ ان کے فی الواقع صدیق ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے۔ کہ ان سے 175 سالہ زندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ خلاف واقعہ بات سرزد نہیں ہوئی جبکہ ہم لوگ ساری زندگی میں نہیں بلکہ ایک دن رات میں کئی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اعتراض کرنے والے خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک شخص اپنی طویل ترزندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ خلاف واقعہ نہ بولے تو اسے صدیق کہا جاسکتا یا نہیں؟ پھر ان تینوں کرنے کے لیے کہیں جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے۔ سارہ کا واقعہ اگرچہ یہ بھی اللہ کے لیے تھا لیکن اس میں کچھ حظ انسان بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی انھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کہی تھی۔ اس بادشاہ کادستور تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتاتو اسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ اس کا بھائی یا کوئی دوسرا رشتے دار ہوتا تو اس سے صرف عورت چھینتا مگر اس کی جان لینے سے درگزر کرتاتھا۔ اگرحضرت ابراہیم ؑ نے اپنی جان بچانے کے لیے خلاف واقعہ بات کی تو اس میں کون سی قیامت آگئی۔ حالانکہ وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ نہیں بنتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ بتا رہے کہ وہ آپ کی دینی بہن تھی۔ اگرجان بچانے کی خاطر مردار کھانا جائز ہےتو خلاف واقعہ بولنے کی اجازت کیوں نہیں۔ جان بچانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر تک کہنے کی بھی اجازت دی ہے بشرط یہ کہ دل میں ایسی کوئی بات نہ ہو۔ (النحل:106/16) ہمیشہ سچ بولنا، جھوٹ اور خلاف واقعہ بات سے پرہیز کرنا ایک شرعی حکم ہے، تاہم بعض اوقات شریعت میں خلاف واقعہ بات کی اجازت دی گئی ہے، مثلاً:میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لیے باتیں بنانے اور خلاف واقعہ باتیں کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں خیر اور اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتاہے، اسی طرح جہاد میں دشمن کو ہراساں کرنے کے لیے بھی ایسی باتوں کی اجازت ہے، جو خلاف واقعہ ہوں، حالانکہ لغوی اعتبار سے ان باتوں پر بھی کذب کا اطلاق ہوسکتا ہے۔بہرحال کسی دینی مقصد کے لیے بطورتعریض والزام ایسی گفتگو کرنا جو بظاہر خلاف واقعہ ہوایسا جھوٹ نہیں جس پر وعید آئی ہو۔ ایسا کرنا نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو کو ظاہر اعتبار سے توجھوٹ کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ جھوٹ نہیں بلکہ اسے توریہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال یہ حدیث حضرت ابراہیم ؑ کی عظمت کی دلیل ہے، اسی لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ اس پر طعن یا اس کی صحت سے انکار کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سب بے بنیاد باتیں ہیں جو منکرین حدیث نے حدیث سے نفرت پیدا کرنے کے لیے مشہور کررکھی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ابو میسرہ نے کہا: اواهحبشی زبان میں رحیم کے معنی میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ابراہیم ؑ نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دوان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کافرمانا (بطور توریہ کے) کہ ’’میں بیمار ہوں‘‘ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ’’بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے‘‘ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم ؑ اور سارہ ؑ ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزررہے تھے۔ بادشاہ کو خبرملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم ؑ کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ ؑ کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ ؑ کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری (دینی اعتبار سے) بہن ہو۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑلیاگیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو (کہ اس مصیبت سے نجات دے) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا، چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑدیاگیا۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑلیاگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا۔ سارہ ؑ نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیاگیا۔ اس کے بعداس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلاکر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، یہ تو کوئی سرکش جن ہے (جاتے ہوئے) سارہ ؑ کے لیے اس نے ہاجرہ ؑ کو خدمت کے لیے دیا۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم ؑ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا (یہ کہا کہ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ کو خدمت کے لیے دیا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اے بنی ماءالسماء(اے آسمانی پانی کی اولاد! یعنی اہل عرب) تمہاری والدہ یہی (حضرت ہاجرہ ؑ) ہیں۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق تین جھوٹ کا ذکر ہے جو حقیقت میں جھوٹ نہ تھے۔ کیوں کہ لفظ جھوٹ انبیاءؑ کی شان سے بہت بعید ہے۔ ایسے جھوٹ کو دوسرے لفظوں میں توریہ کہا جاتا ہے۔ ایک توریہ وہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ﴿إني سَقِیم﴾ میں اپنے دکھ کی وجہ سے چلنے سے مجبور ہوں۔ وہ دکھ قوم کے افعال اور حرکات بد دیکھ کر دل کے دکھی ہونے پر اشارہ تھا۔ انبیاء و مصلحین اپنی قوم کی خرابیوں پر دل سے کڑھتے رہتے ہیں۔ آیت کا یہی مطلب ہے۔ اس کو توریہ کرکے لفظ جھوٹ سے تعبیر کیاگیا۔ دوسرا ظاہری جھوٹ جو اس حدیث میں مذکور ہے حضرت سارہ ؑ کو اس ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچانے کے لیے اپنی بہن قرار دینا۔ یہ دینی اعتبار سے تھا۔ دینی اعتبار سے سارے مومن مرد و عورت بھائی بہن ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مراد یہی تھی۔ تیسرا جھوٹ بتوں کے متعلق قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے بت خانے کو اجاڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور دریافت کرنے پر فرمایا تھا کہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہوگا، بت پرستوں کی حماقت ظاہر کرنے کے لیے یہ طنز کے طور پر فرمایا تھا۔ بطور توریہ اسے بھی جھوٹ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ بہرحال اس حدیث پر بھی منکرین حدیث کا اعتراض محض حماقت ہے۔ اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ روایت میں عربوں کو آسمان سے پانی پینے والی قوم کہاگیا ہے کیوں کہ اہل عرب کا زیادہ تر گزران بارش ہی پر ہے۔ اگرچہ آج کل وہاں کنویں اور نہریں بنائی جارہی ہیں اور یہ سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ أیدہ اﷲ بنصرہ العزیز آمین۔ حضرت ہاجرہ ؑ اس بادشاہ کی بیٹی تھیں جسے اس نے برکت حاصل کرنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں داخل کردیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Abraham did not tell a lie except on three occasion. Twice for the Sake of Allah when he said, "I am sick," and he said, "(I have not done this but) the big idol has done it." The (third was) that while Abraham and Sarah (his wife) were going (on a journey) they passed by (the territory of) a tyrant. Someone said to the tyrant, "This man (i.e. Abraham) is accompanied by a very charming lady." So, he sent for Abraham and asked him about Sarah saying, "Who is this lady?" Abraham said, "She is my sister." Abraham went to Sarah and said, "O Sarah! There are no believers on the surface of the earth except you and I. This man asked me about you and I have told him that you are my sister, so don't contradict my statement." The tyrant then called Sarah and when she went to him, he tried to take hold of her with his hand, but (his hand got stiff and) he was confounded. He asked Sarah. "Pray to Allah for me, and I shall not harm you." So Sarah asked Allah to cure him and he got cured. He tried to take hold of her for the second time, but (his hand got as stiff as or stiffer than before and) was more confounded. He again requested Sarah, "Pray to Allah for me, and I will not harm you." Sarah asked Allah again and he became alright. He then called one of his guards (who had brought her) and said, "You have not brought me a human being but have brought me a devil." The tyrant then gave Hajar as a girl-servant to Sarah. Sarah came back (to Abraham) while he was praying. Abraham, gesturing with his hand, asked, "What has happened?" She replied, "Allah has spoiled the evil plot of the infidel (or immoral person) and gave me Hajar for service." ( Abu Hurairah (RA) then addressed his listeners saying, "That (Hajar) was your mother, O Bani Ma-is-Sama (i.e. the Arabs, the descendants of Ishmael, Hajar's son)."