مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3368.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ ؓ! تم نے دیکھا نہیں کہ تمھاری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیرکرنے سے قاصر ہو گئے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ بیت اللہ کو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر کیوں نہیں تعمیر کردیتے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تمھاری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا کردیتا۔‘‘)حضرت عبد اللہ بن عمر ؓنے فرمایا: چونکہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی، اس لیے میرا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حطیم کی جانب بیت اللہ کے دونوں کو نوں کو ہاتھ لگاناچھوڑدیا کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیر نہیں کیا گیا۔ (راوی حدیث ) اسماعیل بن ابو ادریس نے اس حدیث میں عبد اللہ بن محمد بن ابو بکرکہا ہے۔
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کی دیواروں کے متعلق دریافت کیا:آیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:’’ہاں! لیکن تیری قوم کے پاس اس قدر اخراجات نہیں تھے کہ وہ اسے بیت اللہ میں شامل کر کے تعمیر کرتے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1584) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:’’اگر مجھے تیری قوم کے جذبات کی پاسداری مقصود نہ ہوتی اور میرے پاس اخراجات کا بندوبست بھی ہوتا تو میں حطیم والی جگہ بیت اللہ میں شامل کردیتا اور اسے زمین کے برابر کر کے اس میں دو دروازے رکھ دیتا ایک داخل ہونے کے لیے اور ایک نکلنے کے لیے لیکن مذکورہ امور کی بنا پر میں اسے موجودہ حالت پر چھوڑتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3245(1333) 2۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی اٹھائی ہوئی بیت اللہ کی بنیادوں کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3240
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3368
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3368
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3368
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ احادیث ذکر کی جائیں گی لیکن ان کی نوعیت پہلی احادیث کے اعتبار سے مختلف ہوگی۔یہ عنوان پہلے عنوان کا تتمہ اور تکملہ ہے۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ ؓ! تم نے دیکھا نہیں کہ تمھاری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیرکرنے سے قاصر ہو گئے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ بیت اللہ کو حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر کیوں نہیں تعمیر کردیتے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تمھاری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا کردیتا۔‘‘)حضرت عبد اللہ بن عمر ؓنے فرمایا: چونکہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی، اس لیے میرا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حطیم کی جانب بیت اللہ کے دونوں کو نوں کو ہاتھ لگاناچھوڑدیا کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر تعمیر نہیں کیا گیا۔ (راوی حدیث ) اسماعیل بن ابو ادریس نے اس حدیث میں عبد اللہ بن محمد بن ابو بکرکہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کی دیواروں کے متعلق دریافت کیا:آیا یہ بیت اللہ کا حصہ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:’’ہاں! لیکن تیری قوم کے پاس اس قدر اخراجات نہیں تھے کہ وہ اسے بیت اللہ میں شامل کر کے تعمیر کرتے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1584) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:’’اگر مجھے تیری قوم کے جذبات کی پاسداری مقصود نہ ہوتی اور میرے پاس اخراجات کا بندوبست بھی ہوتا تو میں حطیم والی جگہ بیت اللہ میں شامل کردیتا اور اسے زمین کے برابر کر کے اس میں دو دروازے رکھ دیتا ایک داخل ہونے کے لیے اور ایک نکلنے کے لیے لیکن مذکورہ امور کی بنا پر میں اسے موجودہ حالت پر چھوڑتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3245(1333) 2۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی اٹھائی ہوئی بیت اللہ کی بنیادوں کا ذکر ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبردی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عمر ؓ کو ابن ابی بکر نے خبردی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تمہیں معلوم نہیں کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ کی (نئی) تعمیر کی تو کعبہ کی ابراہیمی بنیاد کو چھوڑدیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیمی بنیادوں کے مطابق دوبارہ اس کی تعمیر کیوں نہیں کردیتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا ہی کرتا) عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ جب کہ یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ حضور ﷺ نے ان دونوں رکنوں کے، جو حجر اسود کے قریب ہیں، بوسہ لینے کو صرف اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم کی بنیاد پر نہیں بنا ہے (یہ دونوں رکن آگے ہٹ گئے ہیں) اسماعیل بن ابی اویس نے اس حدیث میں عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کہا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی عبداللہ کو ابوبکر کا پوتا کہا ہے۔ بعض نسخوں میں عبداللہ بن ابی بکر ہے۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ اس روایت میں ان کا نام عبداللہ مذکور ہے اور تنیسی کی روایت میں صرف ابن ابی بکر تھا۔ اسماعیل کی روایت کو خود مؤلف نے تفسیر میں وصل کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (the wife of the Prophet) Allah's Apostle (ﷺ) said (to her). "Don't you see that when your folk built the Ka’bah, they did not build it on all the foundations built by Abraham?" I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Why don't we rebuild it on the foundations of Abraham?" He said. "But for the fact that your folk have recently given up infidelity (I would have done so)." Narrated Ibn 'Umar (RA): Aisha (RA) must have heard this from Allah's Apostle (ﷺ) for I see that Allah's Apostle (ﷺ) used not to touch the two corners facing Al-Hijr only because the House had not been built on the foundations of Abraham''