Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: The performance of Tayammum by a non-traveller (is permissible) when water is not available and when one is afraid that the time of Salat (prayer) may elapse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جب پانی نہ پائے اور نماز فوت ہونے کا خوف ہو۔ عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی بیمار کے نزدیک پانی ہو جسے وہ اٹھا نہ سکے اور کوئی ایسا شخص بھی وہاں نہ ہو جو اسے وہ پانی ( اٹھا کر ) دے سکے تو وہ تیمم کر لے۔ اور عبداللہ بن عمر جرف کی اپنی زمین سے واپس آ رہے تھے کہ عصر کا وقت مقام مربدالنعم میں آ گیا۔ آپ نے ( تیمم سے ) عصر کی نماز پڑھ لی اور مدینہ پہنچے تو سورج ابھی بلند تھا مگر آپ نے وہ نماز نہیں لوٹائی۔تشریح : حضرت امام قدس سرہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ تیمم بوقت ضرورت سفر میں تو ہے ہی مگر حضر میں بھی اگرپانی نہ مل سکے اور نماز کا وقت نکلا جارہا ہو یا مریض کے پاس کوئی پانی دینے والا نہ ہو توایسی صورت میں تیمم سے نماز ادا کی جا سکتی ہے ارشاد باری لایکلف اللہ نفساً الا وسعہا ( البقرۃ: 286 ) اللہ نے ہر انسان کو اس کی طاقت کے اندر مکلف بنایا ہے۔
337.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں اور نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ کے غلام عبداللہ بن یسار ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ بئر جمل سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک شخص ملا اور اس نے آپ کو سلام کیا لیکن نبی ﷺ نے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور اس سے اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا، یعنی تیمم فرمایا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
تشریح:
1۔ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بئر جمل سے واپسی کے وقت جو شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے آیا وہ خود راوی حدیث حضرت ابو جہیم بن حارث انصاری ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں اختصار ہے، صورت واقعہ یہ تھی کہ ابو جہیم نے جس وقت سلام کیا رسول اللہ ﷺ باوضو نہیں تھے، اس لیے آپ نے سلام کا جواب نہ دیا، پھر جب ابوجہیم گلی میں مڑنے لگے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فوراً دیوار پر تیمم کر کے جواب دیا اور وضاحت فرمائی کہ مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ طہارت کے بغیر اللہ کا نام زبان پر لاؤں، اس لیے تیمم کے بعد جواب دیا ہے۔ (عمدة الأحکام :204/3) امام بخاری ؒ کا استدلال اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام کا جواب فوت ہونے کے اندیشے سے تیمم فرمایا، حالانکہ اذکار و سلام کے لیے طہارت شرط نہیں۔ پھر اگر حضر میں نماز فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو بدرجہ اولیٰ تیمم کی اجازت ہونی چاہیے، جبکہ پانی دستیاب نہ ہو اور نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو۔ (فتح الباري:573/1) روایات میں ایک اور واقعہ بھی منقول ہے جو حضرت مہاجربن قنفذ ؓ سے متعلق ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ ایسی حالت میں سلام کیا جب آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے۔ اس وقت آپ نے جواب نہیں دیا، کیونکہ ایسے وقت میں اللہ کا نام لینا پسندیدہ نہیں۔ اس کا جواب آپ نے وضو کے بعد دیا۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث:38)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
335
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
337
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
337
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
337
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
جب پانی نہ پائے اور نماز فوت ہونے کا خوف ہو۔ عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی بیمار کے نزدیک پانی ہو جسے وہ اٹھا نہ سکے اور کوئی ایسا شخص بھی وہاں نہ ہو جو اسے وہ پانی ( اٹھا کر ) دے سکے تو وہ تیمم کر لے۔ اور عبداللہ بن عمر جرف کی اپنی زمین سے واپس آ رہے تھے کہ عصر کا وقت مقام مربدالنعم میں آ گیا۔ آپ نے ( تیمم سے ) عصر کی نماز پڑھ لی اور مدینہ پہنچے تو سورج ابھی بلند تھا مگر آپ نے وہ نماز نہیں لوٹائی۔تشریح : حضرت امام قدس سرہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ تیمم بوقت ضرورت سفر میں تو ہے ہی مگر حضر میں بھی اگرپانی نہ مل سکے اور نماز کا وقت نکلا جارہا ہو یا مریض کے پاس کوئی پانی دینے والا نہ ہو توایسی صورت میں تیمم سے نماز ادا کی جا سکتی ہے ارشاد باری لایکلف اللہ نفساً الا وسعہا ( البقرۃ: 286 ) اللہ نے ہر انسان کو اس کی طاقت کے اندر مکلف بنایا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں اور نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ کے غلام عبداللہ بن یسار ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ بئر جمل سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک شخص ملا اور اس نے آپ کو سلام کیا لیکن نبی ﷺ نے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور اس سے اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا، یعنی تیمم فرمایا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بئر جمل سے واپسی کے وقت جو شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے آیا وہ خود راوی حدیث حضرت ابو جہیم بن حارث انصاری ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں اختصار ہے، صورت واقعہ یہ تھی کہ ابو جہیم نے جس وقت سلام کیا رسول اللہ ﷺ باوضو نہیں تھے، اس لیے آپ نے سلام کا جواب نہ دیا، پھر جب ابوجہیم گلی میں مڑنے لگے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فوراً دیوار پر تیمم کر کے جواب دیا اور وضاحت فرمائی کہ مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ طہارت کے بغیر اللہ کا نام زبان پر لاؤں، اس لیے تیمم کے بعد جواب دیا ہے۔ (عمدة الأحکام :204/3) امام بخاری ؒ کا استدلال اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام کا جواب فوت ہونے کے اندیشے سے تیمم فرمایا، حالانکہ اذکار و سلام کے لیے طہارت شرط نہیں۔ پھر اگر حضر میں نماز فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو بدرجہ اولیٰ تیمم کی اجازت ہونی چاہیے، جبکہ پانی دستیاب نہ ہو اور نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو۔ (فتح الباري:573/1) روایات میں ایک اور واقعہ بھی منقول ہے جو حضرت مہاجربن قنفذ ؓ سے متعلق ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ ایسی حالت میں سلام کیا جب آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے۔ اس وقت آپ نے جواب نہیں دیا، کیونکہ ایسے وقت میں اللہ کا نام لینا پسندیدہ نہیں۔ اس کا جواب آپ نے وضو کے بعد دیا۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث:38)
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء بن ابی رباح بھی اسی کے قائل ہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے اس مریض کے متعلق فرمایا جس کے پاس پانی ہو لیکن اسے دینے والا موجود نہ ہو، وہ تیمم کر لے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ اپنی اس زمین سے واپس پوئے جو مقام جرف میں تھی، مربد غنم کے مقام پر عصر کا وقت ہو گیا تو آپ نے وہیں نماز ادا کر لی۔ پھر جب مدینہ منورہ آئے تو آفتاب بلند تھا لیکن آپ نے نماز کا اعادہ نہیں کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے جعفر بن ربیعہ سے، انھوں نے عبدالرحمن اعرج سے، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس ؓ کے غلام عمیر بن عبداللہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں اور عبداللہ بن یسار جو کہ حضرت میمونہ ؓ زوجہ نبی کریم ﷺ کے غلام تھے، ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ( صحابی ) کے پاس آئے۔ انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ’’ بئرجمل‘‘ کی طرف سے تشریف لا رہے تھے، راستے میں ایک شخص نے آپ کو سلام کیا ( یعنی خود اسی ابوجہیم نے ) لیکن آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا۔ پھر آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر ان کے سلام کا جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے حالت حضرمیں تیمم کرنے کا جواز ثابت کیا۔ جب آپ نے سلام کے جواب کے لیے تیمم کرلیا تواسی طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں نماز کے لیے بھی تیمم کرنا جائز ہوگا۔ جرف نامی جگہ مدینہ سے آٹھ کلومیٹر دورتھی۔ اسلامی لشکر یہاں سے مسلح ہوا کرتے تھے۔ یہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی زمین تھی۔ مربدنعم نامی جگہ مدینہ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں آپ ﷺ نے عصر کی نماز تیمم سے ادا کرلی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaim Al-Ansari (RA): The Prophet (ﷺ) came from the direction of Bir Jamal. A man met him and greeted him. But he did not return back the greeting till he went to a (mud) wall and smeared his hands and his face with its dust (performed Tayammum) and then returned back the greeting.