باب: اس بارے میں کہ کیا مٹی پر تیمم کے لیے ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں کو پھونک کر ان کو چہرے اور دونوں ہتھیلوں پر مل لینا کافی ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: Can a person blow off the dust from his hands in performing Tayammum (before passing them over his face))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
338.
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے لیکن پانی نہیں مل سکا۔ اس موقع پر حضرت عمار بن یاسر ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اور آپ دونوں سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تھے؟ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی۔ پھر میں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔‘‘ یہ فر کر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، اس کے بعد آپ نے ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا۔
تشریح:
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب تک مٹی کا اثر تیمم کے وقت چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں نہ ہو اس وقت تک مٹی کا استعمال درست نہیں۔ بعض شوافع کا یہ بھی خیال ہے کہ تیمم کے لیے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ غبار ہاتھوں کو لگ جائے تب تیمم درست ہوگا، جبکہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی طرح مٹی کے اثرات کا چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں ہونا ضروری نہیں، مٹی سے آلودہ ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا طہارت ونظافت کے خلاف ہے، اس لیے تیمم کے لیے مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مار کر زائد مٹی کو اڑادیا جائے اس کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا جائے۔ امام بخاری اس سلسلے میں جوروایت لائے ہیں وہ مختصر ہے کیونکہ روایت بخاری میں سائل کے جواب میں سیدنا عمر ؓ کا جواب منقول نہیں ہے البتہ دیگر طرق روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : جنابت کے بعد اگر پانی نہ مل سکے تو نماز نہ مل سکے تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جیسا کہ سنن نسائی وغیرہ میں ہے کہ میں اگر پانی نہ پاؤں تو نماز نہیں پڑھتا ہوں تا آنکہ مجھے پانی میسر آجائے یعنی غسل کر کے نماز پڑھوں گا۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 317) بہرحال امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت سے ان کا مدعا پورا ہوتا ہے، کیونکہ اس میں ہاتھوں کو زمین پر مارنے کے بعد ان میں پھونک مارنے کی صراحت ہے۔ اب اس میں ایک اشکال ہے کہ جب روایت میں پھونک مارنے کی صراحت ہے تو امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل) کیوں استعمال کیا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجرؒ نے بایں طور دیا ہے احتمال تھا کہ آپ کا پھونک مارنا مٹی کی وجہ سے ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھ پر کسی تنکے وغیرہ کے لگ جانے کی بنا پر ہو یا رسول اللہ ﷺ پھونک مارنے کی مشروعیت بیان کرنا چاہتے ہوں، ان احتمالات کی بنا پر امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل) استعمال فرمایا ہے۔ (فتح الباري:574/1) امام بخاری کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جہاں احتمالات ہوں وہاں عنوان کو (هَل) کے ساتھ مقید کر دیتے ہیں. بعض اوقات کسی خاص وجہ سے اللہ کے ہاں گرد و غبار کی بہت اہمیت ہوتی ہے، جیسا کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے وقت جو گردو غبار اڑتی ہے اور مجاہد کے قدموں پر یا نتھنوں میں پڑتی ہے۔ اسی طرح تیمم کا گرد و غبار بھی اللہ ہی کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا عقلی تقاضا ہے کہ اسے دور کرنے کے لیے پھونک نہ ماری جائے، امام بخاری ؒ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ عقلی تقاضے کے مقابلے میں نص پر عمل کیا جائے گا اور وہ ہے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مارنا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
336
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
338
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
338
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
338
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
تمہید باب
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ مٹی پر ہاتھ مار کر ان کو جھاڑنا اس وقت ہے جب ہاتھوں پر مٹی زیادہ لگ جائے ۔تیمم چونکہ وضو کا قائم مقام ہے اس لیے پانی کی طرح بظاہر تمام اعضاء پر مٹی پہنچانے کا اہتمام بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کا ازالہ کرتے ہیں کہ مسح کا اہتمام تو ہونا چاہیے لیکن تمام اعضاء پر مٹی کا لگانا ضروری نہیں ۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے لیکن پانی نہیں مل سکا۔ اس موقع پر حضرت عمار بن یاسر ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اور آپ دونوں سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تھے؟ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی۔ پھر میں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔‘‘ یہ فر کر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، اس کے بعد آپ نے ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب تک مٹی کا اثر تیمم کے وقت چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں نہ ہو اس وقت تک مٹی کا استعمال درست نہیں۔ بعض شوافع کا یہ بھی خیال ہے کہ تیمم کے لیے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ غبار ہاتھوں کو لگ جائے تب تیمم درست ہوگا، جبکہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی طرح مٹی کے اثرات کا چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں ہونا ضروری نہیں، مٹی سے آلودہ ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا طہارت ونظافت کے خلاف ہے، اس لیے تیمم کے لیے مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مار کر زائد مٹی کو اڑادیا جائے اس کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا جائے۔ امام بخاری اس سلسلے میں جوروایت لائے ہیں وہ مختصر ہے کیونکہ روایت بخاری میں سائل کے جواب میں سیدنا عمر ؓ کا جواب منقول نہیں ہے البتہ دیگر طرق روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : جنابت کے بعد اگر پانی نہ مل سکے تو نماز نہ مل سکے تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جیسا کہ سنن نسائی وغیرہ میں ہے کہ میں اگر پانی نہ پاؤں تو نماز نہیں پڑھتا ہوں تا آنکہ مجھے پانی میسر آجائے یعنی غسل کر کے نماز پڑھوں گا۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 317) بہرحال امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت سے ان کا مدعا پورا ہوتا ہے، کیونکہ اس میں ہاتھوں کو زمین پر مارنے کے بعد ان میں پھونک مارنے کی صراحت ہے۔ اب اس میں ایک اشکال ہے کہ جب روایت میں پھونک مارنے کی صراحت ہے تو امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل) کیوں استعمال کیا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجرؒ نے بایں طور دیا ہے احتمال تھا کہ آپ کا پھونک مارنا مٹی کی وجہ سے ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھ پر کسی تنکے وغیرہ کے لگ جانے کی بنا پر ہو یا رسول اللہ ﷺ پھونک مارنے کی مشروعیت بیان کرنا چاہتے ہوں، ان احتمالات کی بنا پر امام بخاری نے عنوان میں لفظ (هَل) استعمال فرمایا ہے۔ (فتح الباري:574/1) امام بخاری کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جہاں احتمالات ہوں وہاں عنوان کو (هَل) کے ساتھ مقید کر دیتے ہیں. بعض اوقات کسی خاص وجہ سے اللہ کے ہاں گرد و غبار کی بہت اہمیت ہوتی ہے، جیسا کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے وقت جو گردو غبار اڑتی ہے اور مجاہد کے قدموں پر یا نتھنوں میں پڑتی ہے۔ اسی طرح تیمم کا گرد و غبار بھی اللہ ہی کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا عقلی تقاضا ہے کہ اسے دور کرنے کے لیے پھونک نہ ماری جائے، امام بخاری ؒ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ عقلی تقاضے کے مقابلے میں نص پر عمل کیا جائے گا اور وہ ہے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مارنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حکم بن عیینہ نے بیان کیا، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا ( تو میں اب کیا کروں ) اس پر عمار بن یاسر ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر انھیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
مسلم وغیرہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسے کہا کہ نماز نہ پڑھ جب تک پانی نہ ملے۔ حضرت عمار ؓ نے غسل کی جگہ سارے جسم پر مٹی لگانا ضروری سمجھا، اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کو فرمایا کہ صرف تیمم کرلینا کافی تھا۔ حضرت عمارؓ نے اس موقع پر اپنے اجتہاد سے کام لیاتھا، مگردربار رسالت میں جب معاملہ آیاتو ان کے اجتہاد کی غلطی معلوم ہوگئی اور فوراً انھوں نے رجوع کرلیا۔ صحابہ کرام آج کل کے اندھے مقلدین کی طرح نہ تھے کہ صحیح احادیث کے سامنے بھی اپنے رائے اور قیاس پر اڑے رہیں اور کتاب وسنت کو محض تقلید جامد کی وجہ سے ترک کردیں۔ اسی تقلید جامد نے ملت کو تباہ کردیا۔ فلیبك علی الإسلام من کان باکیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur Rahman bin Abza (RA): A man came to 'Umar bin Al-Khattab (RA) and said, "I became Junub but no water was available." 'Ammar bin Yasir said to 'Umar, "Do you remember that you and I (became Junub while both of us) were together on a journey and you didn't pray but I rolled myself on the ground and prayed? I informed the Prophet (ﷺ) about it and he said, 'It would have been sufficient for you to do like this.' The Prophet (ﷺ) then stroked lightly the earth with his hands and then blew off the dust and passed his hands over his face and hands."