باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Verily, in Yusuf and his brethren there were Ayat...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3384.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’ابو بکر ؓ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: وہ رقیق القلب آدمی ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی دوبارہ وہی عذر پیش کیا۔ (راوی حدیث )شعبہ نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ’’تم تو یوسف ؑ (پر فریفتہ ہونے) والی عورتوں کی طرح (بے جا اصرار کرنے والی) معلوم ہوتی ہو۔ ابو بکر ؓ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3256
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3384
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3384
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3384
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اہل مکہ نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتاؤ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لاجواب کردے اور ان کی نبوت کا بھرم کھل جائے۔ انھوں نے سوچ کر ایک تاریخی قسم کا سوال اہل مکہ کو بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا پھر حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل)کی اولاد مصر کیسے جا پہنچی جنھیں اہل مصر (فرعون) کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے؟کفار مکہ کے سوال کے جواب میں سورہ یوسف پوری کی پوری نازل ہوگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے نہ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ تھے اورنہ اہل مکہ کو اس کا علم ہی تھا۔اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی آگئے۔جو کفار مکہ اور بردران یوسف کے درمیان مشترک طور پر پائے جاتے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ پہلا نشان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تھی کہ آپ نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کرثابت کردیا کہ آپ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ واضح رہے کہ عنوان میں سوال کرنے والوں سے مراد اہل مکہ ہیں۔
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’ابو بکر ؓ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: وہ رقیق القلب آدمی ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی دوبارہ وہی عذر پیش کیا۔ (راوی حدیث )شعبہ نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: ’’تم تو یوسف ؑ (پر فریفتہ ہونے) والی عورتوں کی طرح (بے جا اصرار کرنے والی) معلوم ہوتی ہو۔ ابو بکر ؓ سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے (مرض الموت میں) ان سے فرمایا‘ ابو بکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں‘ عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ وہ بہت نرم دل ہیں‘ آپ کی جگہ جب کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہوجائے گی۔ حضور ﷺ نے انہیں دوبارہ یہی حکم دیا۔ لیکن انہوں نے بھی دوبارہ یہی عذر بیان کیا‘ شعبہ نے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم تو یوسف ؑ کی ساتھ والیاں ہو۔ (ظاہر میں کچھ باطن میں کچھ) ابو بکر ؓ سے کہو نماز پڑھائیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): That the Prophet (ﷺ) said (to her). "Order Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer." She replied," Abu Bakr (RA) is a soft-hearted person and when he stands at your place, he will weep (so he will not be able to lead the prayer)." The Prophet (ﷺ) repeated the same order and she gave the same reply. The narrator, Shuba said that the Prophet (ﷺ) said on the third or fourth time. "You are (like) the female companions of Joseph. Order Abu Bakr (RA) to lead the prayer. "