مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3404.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یاکوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایزا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچے تو انھوں نے موسیٰ ؑ کو برہنہ حالت میں دیکھا، وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں اس تہمت سے بری کردیا جس کی طرف وہ حضرت موسیٰ ؑ کو منسوب کرتے تھے۔ اب پتھر بھی وہاں ٹھہر گیا اور آپ نے اپنے کپڑے لے کرزیب تین کرلیے، پھر اپنے عصا سے پتھر کو مارنا شروع کردیا۔ اللہ کی قسم! موسیٰ ؑ کے مارنے کی وجہ سے پتھر پرتین، چار یا پانچ نشان بھی پڑگئے تھے۔ اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت پہنچائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی باتوں سے بری کیا۔ وہ اللہ کے نزدیک بڑے معزز اور باقار تھے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت برہنہ چلنا جائز ہے نیز علاج کے لیے یا آپریشن کے وقت مریض کو برہنہ دیکھاجائز ہے اور حضرات انبیاء ؑ ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک ہوتے ہیں اور جو کوئی کسی نبی کی خلقت میں عیب لگائے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ ایسے کام کرنا نبی کو اذیت پہچانا ہے اور اذیت رسانی حرام ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکرہیں انھیں مذکورہ بالا تفسیر راس نہیں آسکتی تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے مان لیں کیونکہ عربی زبان میں حجر کے معنی گھوڑی کے بھی ہیں۔ اعتبار سے واقعہ یوں ہو گا کہ حضرت موسیٰ ؑ گھوڑی پر سوار تھے کسی تنہائی کے مقام پرنہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پراپنے کپڑے رکھ دیے۔ جب فراغت کے بعد اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ ؑ اس کے پیچھے ثوبی حجر ثوبی حجر کہتے ہوئے دوڑپڑے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھا لیا کہ آپ بالکل بے داغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔ اسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3275
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3404
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3404
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3404
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یاکوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایزا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچے تو انھوں نے موسیٰ ؑ کو برہنہ حالت میں دیکھا، وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں اس تہمت سے بری کردیا جس کی طرف وہ حضرت موسیٰ ؑ کو منسوب کرتے تھے۔ اب پتھر بھی وہاں ٹھہر گیا اور آپ نے اپنے کپڑے لے کرزیب تین کرلیے، پھر اپنے عصا سے پتھر کو مارنا شروع کردیا۔ اللہ کی قسم! موسیٰ ؑ کے مارنے کی وجہ سے پتھر پرتین، چار یا پانچ نشان بھی پڑگئے تھے۔ اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت پہنچائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی باتوں سے بری کیا۔ وہ اللہ کے نزدیک بڑے معزز اور باقار تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت برہنہ چلنا جائز ہے نیز علاج کے لیے یا آپریشن کے وقت مریض کو برہنہ دیکھاجائز ہے اور حضرات انبیاء ؑ ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک ہوتے ہیں اور جو کوئی کسی نبی کی خلقت میں عیب لگائے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ ایسے کام کرنا نبی کو اذیت پہچانا ہے اور اذیت رسانی حرام ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکرہیں انھیں مذکورہ بالا تفسیر راس نہیں آسکتی تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے مان لیں کیونکہ عربی زبان میں حجر کے معنی گھوڑی کے بھی ہیں۔ اعتبار سے واقعہ یوں ہو گا کہ حضرت موسیٰ ؑ گھوڑی پر سوار تھے کسی تنہائی کے مقام پرنہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پراپنے کپڑے رکھ دیے۔ جب فراغت کے بعد اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ ؑ اس کے پیچھے ثوبی حجر ثوبی حجر کہتے ہوئے دوڑپڑے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھا لیا کہ آپ بالکل بے داغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔ اسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن ابراھیم نےبیان کیا، کہا ہم سےروح بن عبادہ نےبیا ن کیا، ان سے عوف بن ابو جمیلہ نےبیان کیا، ان سے امام حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس بن عمرونے اور ان سے حضرت ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ حضرت موسیٰ بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیا کی وجہ سےان کےبدن کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ بنی اسرائیل کےجولوگ انہیں اذیت پہنچانےکے درپے تھے، وہ کیوں باز رہ سکتے تھے، ان لوگوں نےکہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپا نےکا اہتمام صرف اس لیے ہےکہ ان کے جسم میں عیب ہےیا کوڑھ ہےیا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اوربیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالی کویہ منظور ہواکہ موسیٰ کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن حضرت موسیٰ اکیلے غسل کرنےکےلیے آئے اور ایک پھتر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے توکپڑے اٹھانے کےلیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ حضرت موسیٰ نے اپنا عصا اٹھایا اور پھتر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دے دے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کوننگا دیکھ لیا، اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالی نے ان کی تہمت سےان کی برات کردی۔ اب پتھر بھی رگ گیا اور آپ نےکپڑا اٹھاکر پہنا۔ پھر پتھر کواپنے عصا سے مارنے لگے۔خدا کی قسم اس پتھر پرحضرت موسیٰ کےمارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑگئے تھے۔ اللہ تعالی کےاس فرمان ’’تم ان کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نےموسیٰ کی اذیت دی تھی، پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالی نےانہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اورعزت والے تھے۔،، میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ باب سے یہی مناسبت ہے۔قرآن پاک کی آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى﴾(الأحزاب:69) میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "(The Prophet) Moses (ؑ) was a shy person and used to cover his body completely because of his extensive shyness. One of the children of Israel hurt him by saying, 'He covers his body in this way only because of some defect in his skin, either leprosy or scrotal hernia, or he has some other defect.' Allah wished to clear Moses (ؑ) of what they said about him, so one day while Moses (ؑ) was in seclusion, he took off his clothes and put them on a stone and started taking a bath. When he had finished the bath, he moved towards his clothes so as to take them, but the stone took his clothes and fled; Moses (ؑ) picked up his stick and ran after the stone saying, 'O stone! Give me my garment!' Till he reached a group of Bani Israel who saw him naked then, and found him the best of what Allah had created, and Allah cleared him of what they had accused him of. The stone stopped there and Moses (ؑ) took and put his garment on and started hitting the stone with his stick. By Allah, the stone still has some traces of the hitting, three, four or five marks. This was what Allah refers to in His Saying:-- "O you who believe! Be you not like those Who annoyed Moses (ؑ), But Allah proved his innocence of that which they alleged, And he was honorable In Allah's Sight." (33.69)