باب : اللہ پاک کا ( سورۃ اعراف میں ) فرمانا کہ اور اسی سورت میں متبرکے معنی تباہی‘ نقصان
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: Allah's Statement: "... And they came upon a people devoted to some of their idols...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ بنی اسرائیل میں ولیتبروا کا معنی خراب کریں ۔ ماعلوا کا معنی جس جگہ حکومت پائیں‘ غالب ہوں ۔سورۃ بنی اسرائیل کا لفظ ولیتبروا گو حضرت موسیٰ ؑ کے قصے سے متعلق نہ تھا مگر متبراور اس کا مادہ ایک ہونے سے اس کو یہاں بیان کردیا اور لفظ ما علوا لیتبروا کے بعد سورۃ بنی اسرائیل میں مذکور تھا اس لئے اس کو بھی بیان کردیا۔
3406.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیلو کا پھل چن رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ’’سیاہ سیاہ دانے تلاش کرو کیونکہ وہ اچھے اور عمدہ ہوتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: آیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح ہے کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں داخل ہیں جنھوں نے بکریاں چرائی ہیں بلکہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ موسیٰ ؑ کو بکریاں چرانے کے دوران میں ہی نبوت عطا کی گئی۔(السنن الکبری للنسائي:396/6۔ طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دنیا داروں اور متکبرین کو نبوت نہیں دیتا بلکہ تواضع وانکسار اختیار کرنے والوں اور بکریاں چرانے والوں کو نبوت سے نوازتا ہے۔ 2۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ منتشربکریوں کو جمع کر کے ایک نظم میں رکھنے سے امت کے مختلف افراد کو یکجا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ بہرحال تمام پیغمبروں کو بکریاں چرانے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ انھیں لوگوں کی نگہبانی کرنے کا طریقہ آجائے۔ (فتح الباري:534/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3277
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3406
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3406
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3406
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
فرعون کی قوم کے ساتھ رہتے ہوئے بنی اسرائیل میں بت پرستی کے جراثیم سرایت کر چکے تھے جیسا کہ درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے۔اور جب ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتاردیا تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کی عبادت میں لگے ہوئے تھے کہنے لگے اے موسیٰ! ہمیں بھی ایک ایسا الٰہ بنا دو جیسے ان لوگوں کا الٰہ ہے۔ موسیٰ نے کہا: بلاشبہ تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ یہ لوگ جس کام میں مصروف ہیں وہ جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں سر اسر باطل ہے۔"(الاعراف :7/138۔139)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متبر کی نسبت سے سورہ بنی اسرائیل کے الفاظ کی لغوی تفسیر فرمائی ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل میں ولیتبروا کا معنی خراب کریں ۔ ماعلوا کا معنی جس جگہ حکومت پائیں‘ غالب ہوں ۔سورۃ بنی اسرائیل کا لفظ ولیتبروا گو حضرت موسیٰ ؑ کے قصے سے متعلق نہ تھا مگر متبراور اس کا مادہ ایک ہونے سے اس کو یہاں بیان کردیا اور لفظ ما علوا لیتبروا کے بعد سورۃ بنی اسرائیل میں مذکور تھا اس لئے اس کو بھی بیان کردیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیلو کا پھل چن رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ’’سیاہ سیاہ دانے تلاش کرو کیونکہ وہ اچھے اور عمدہ ہوتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: آیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح ہے کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں داخل ہیں جنھوں نے بکریاں چرائی ہیں بلکہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ موسیٰ ؑ کو بکریاں چرانے کے دوران میں ہی نبوت عطا کی گئی۔(السنن الکبری للنسائي:396/6۔ طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دنیا داروں اور متکبرین کو نبوت نہیں دیتا بلکہ تواضع وانکسار اختیار کرنے والوں اور بکریاں چرانے والوں کو نبوت سے نوازتا ہے۔ 2۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ منتشربکریوں کو جمع کر کے ایک نظم میں رکھنے سے امت کے مختلف افراد کو یکجا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ بہرحال تمام پیغمبروں کو بکریاں چرانے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ انھیں لوگوں کی نگہبانی کرنے کا طریقہ آجائے۔ (فتح الباري:534/6)
ترجمۃ الباب:
مُتَبَّرٌ تباہ شد وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا اور جہاں وہ غلبہ پائیں اسے تہس نہس کردیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحی بن بکیر نےبیان کیا، کہا ہم ےس لیث نےبیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسملہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ ﷺ کےساتھ (سفر میں) پیلو کے پھل توڑنےلگے۔ آپ نےفرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو، ہم وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ صحابہ ؓ نےعرض کیا، کیا حضور نے کبھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ ﷺ نےفرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں چونکہ سب پیغبروں کاذکر ہے تو ان میں حضرت موسیٰ بھی آگئے بلکہ نسائی کی روایت میں حضرت موسیٰ کا ذکر صراحت کےساتھ موجود ہے۔ بکریاں ہرپیغمبر نےاس لیے چرائی ہیں کہ ان کے چرانے کےبعد پھر آدمیوں کے چرانے کاکام ان کو سونپا جاتاہے۔ بعض نےکہا اس لیے کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ نبوت اور پیغمبر اللہ کی دین ہےجسے وہ اپنے ناتواں بندوں کودیتا ہے یعنی چرواہوں کو، دنیا کرے مغرور لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔ قال في الفتح و المناسب بقصص موسیٰ من جھة عموم قوله وھل من نبي إلا وقد رعا ھا فدخل فیه موسی ٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): We were with Allah's Apostle (ﷺ) picking the fruits of the 'Arak trees, and Allah's Apostle (ﷺ) said, "Pick the black fruit, for it is the best." The companions asked, "Were you a shepherd?" He replied, "There was no prophet who was not a shepherd."