باب: اس بارے میں کہ تیمم میں صرف منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرنا کافی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: Tayammum is for the hands and the face)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
343.
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمار ؓ نے فرمایا: پھر نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اپنے منہ اور ہتھیلویں پر مسح فرمایا۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؓ کا مذہب اس مسئلے میں وہی ہے جو اصحاب ظواہر اور بعض مجتہدین کا ہے کہ تیمم چہرے اور ہتھیلیوں کا ہونا چاہیے کہنیوں تک کی قید ضروری نہیں، حالانکہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔ اصحاب ظواہر کا مسلک یہ ہے کہ تیمم میں مسح کفین تک ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ امام بخاری ؒ پیش کردہ روایات سے اسی موقف کی تائید فرما رہے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام بخاری ؒ کے موقف کی بایں الفاظ وضاحت کرتے ہیں: واجب یہی ہے کہ تیمم میں صرف ہتھیلیوں اور چہرے کا مسح کیا جائے ۔ امام بخاری نے صیغہ جزم کے ساتھ عنوان بندی کی ہے۔ حالانکہ اس میں اختلاف مشہور ہے۔ کیونکہ امام بخاری اس کے لیے بڑی مضبوط دلیل رکھتے ہیں، صفت تیمم کے متعلق جس قدر احادیث منقول ہیں، ان میں صرف ابو جہیم ؓ اور حضرت عمار ؓ کی احادیث صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر احادیث ضعیف ہیں یا ان کے موقوف یا مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ موقوف ہیں۔ حضرت ابو جہیم کی حدیث میں ہاتھوں کا ذکر مجمل طور پرآیا ہے اور حضرت عمار ؓ کی حدیث میں ہتھیلیوں کا ذکر ہے۔ جیسے صحیحین میں بیان کیا گیا ہے، البتہ کہنیوں نصف کلائی اور بغلوں کا ذکرکتب سنن میں ہے، جن روایات میں نصف کلائی یا کہنیوں کا ذکر ہے ان میں تو بہت کلام کیا گیا ہے، البتہ جن روایات میں بغلوں کا ذکر ہے، اس کے متعلق امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ثابت ہے تو آپ کے عملی طریقے نے اسے منسوخ کردیا ہے اور اگر آپ کے حکم سے ایسا کرنا ثابت نہیں تو وہ دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں جو ہتھیلیوں اور چہرے پر اکتفاکیا گیا ہے اس کی تائید حضرت عمار ؓ کے فتوی سے بھی ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صرف چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرنے کا فتوی دیتے تھے۔ حدیث کا راوی حدیث کی مراد کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ مجتہد بھی ہو۔ (فتح الباري:576) امام ترمذی ؒ نے بعض اہل علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث عمار اضطراب کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے، کیونکہ اس کے بعض طرق میں کندھوں اور بغلوں تک مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف چھ مشائخ سے بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ ہتھیلیوں اور چہرے کے مسح والی روایت بہ نسبت دوسری روایات کے راجح ہے اور جس روایت میں کندھوں اور بغلوں کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:318) اس کا جواب امام ترمذیؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے کہ وہ چہرے اور ہتھیلیوں والی روایت کے خلاف نہیں، کیونکہ حضرت عمار ؓ یہ نہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ نے صرف ہتھیلیوں اور چہرےپر مسح کرنے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمار ؓ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد بھی فتوی دیتےتھے کہ تیمم کرتے وقت ہتھیلیوں اور چہرے ہی کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث:144) 2۔ حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے تیمم کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے وضو کے متعلق فرمایا ہے: ﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ﴾’’تم اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھوؤو۔‘‘ (المائدة:5۔6) اور تیمم کے متعلق فرمایا ہے:﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ﴾ ’’اپنے شہرے اور ہاتھوں کا پاک مٹی سے مسح کرو۔‘‘ (المائدة:38/5) چور کے ہاتھ کاٹنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾’’چوری کرنے والا مرد یا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘(المائدة:38/5) سنت نے اس کی وضاحت کی ہے کہ چوری میں ہتھیلیوں کو کاٹا جائے، اسی طرح تیمم کے سلسلے میں بھی وضاحت ہے کہ صرف ہاتھ اور ہتھیلیوں کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 144)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
341
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
343
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
343
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
343
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمار ؓ نے فرمایا: پھر نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اپنے منہ اور ہتھیلویں پر مسح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؓ کا مذہب اس مسئلے میں وہی ہے جو اصحاب ظواہر اور بعض مجتہدین کا ہے کہ تیمم چہرے اور ہتھیلیوں کا ہونا چاہیے کہنیوں تک کی قید ضروری نہیں، حالانکہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔ اصحاب ظواہر کا مسلک یہ ہے کہ تیمم میں مسح کفین تک ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ امام بخاری ؒ پیش کردہ روایات سے اسی موقف کی تائید فرما رہے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ امام بخاری ؒ کے موقف کی بایں الفاظ وضاحت کرتے ہیں: واجب یہی ہے کہ تیمم میں صرف ہتھیلیوں اور چہرے کا مسح کیا جائے ۔ امام بخاری نے صیغہ جزم کے ساتھ عنوان بندی کی ہے۔ حالانکہ اس میں اختلاف مشہور ہے۔ کیونکہ امام بخاری اس کے لیے بڑی مضبوط دلیل رکھتے ہیں، صفت تیمم کے متعلق جس قدر احادیث منقول ہیں، ان میں صرف ابو جہیم ؓ اور حضرت عمار ؓ کی احادیث صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر احادیث ضعیف ہیں یا ان کے موقوف یا مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ موقوف ہیں۔ حضرت ابو جہیم کی حدیث میں ہاتھوں کا ذکر مجمل طور پرآیا ہے اور حضرت عمار ؓ کی حدیث میں ہتھیلیوں کا ذکر ہے۔ جیسے صحیحین میں بیان کیا گیا ہے، البتہ کہنیوں نصف کلائی اور بغلوں کا ذکرکتب سنن میں ہے، جن روایات میں نصف کلائی یا کہنیوں کا ذکر ہے ان میں تو بہت کلام کیا گیا ہے، البتہ جن روایات میں بغلوں کا ذکر ہے، اس کے متعلق امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ثابت ہے تو آپ کے عملی طریقے نے اسے منسوخ کردیا ہے اور اگر آپ کے حکم سے ایسا کرنا ثابت نہیں تو وہ دلیل کیونکر بن سکتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں جو ہتھیلیوں اور چہرے پر اکتفاکیا گیا ہے اس کی تائید حضرت عمار ؓ کے فتوی سے بھی ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صرف چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرنے کا فتوی دیتے تھے۔ حدیث کا راوی حدیث کی مراد کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ مجتہد بھی ہو۔ (فتح الباري:576) امام ترمذی ؒ نے بعض اہل علم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث عمار اضطراب کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے، کیونکہ اس کے بعض طرق میں کندھوں اور بغلوں تک مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف چھ مشائخ سے بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ ہتھیلیوں اور چہرے کے مسح والی روایت بہ نسبت دوسری روایات کے راجح ہے اور جس روایت میں کندھوں اور بغلوں کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:318) اس کا جواب امام ترمذیؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے کہ وہ چہرے اور ہتھیلیوں والی روایت کے خلاف نہیں، کیونکہ حضرت عمار ؓ یہ نہیں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ نے صرف ہتھیلیوں اور چہرےپر مسح کرنے کا حکم دیا۔ پھر حضرت عمار ؓ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد بھی فتوی دیتےتھے کہ تیمم کرتے وقت ہتھیلیوں اور چہرے ہی کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث:144) 2۔ حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے تیمم کے متعلق سوال کیا تو آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے وضو کے متعلق فرمایا ہے: ﴿فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ﴾’’تم اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھوؤو۔‘‘ (المائدة:5۔6) اور تیمم کے متعلق فرمایا ہے:﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ﴾ ’’اپنے شہرے اور ہاتھوں کا پاک مٹی سے مسح کرو۔‘‘ (المائدة:38/5) چور کے ہاتھ کاٹنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾’’چوری کرنے والا مرد یا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘(المائدة:38/5) سنت نے اس کی وضاحت کی ہے کہ چوری میں ہتھیلیوں کو کاٹا جائے، اسی طرح تیمم کے سلسلے میں بھی وضاحت ہے کہ صرف ہاتھ اور ہتھیلیوں کا مسح کیا جائے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 144)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطے سے، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے ابن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، انھوں نے اپنے والد سے کہ عمار نے بیان کیا “ پس نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اس سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ammar (RA): The Prophet (ﷺ) stroked the earth with his hands and then passed them over his face and the backs of his hands (while demonstrating Tayammum).