باب: اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: How As-Salat (the Prayer) was prescribed on the night of Al-Isra (miraculous night journey) of the Prophet (pbuh) to Jerusalem (and then to the heavens))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریمﷺ ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔
349.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جب میں مکے میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔ حضرت جبریل ؑ اترے، انھوں نے پہلے میرے سینے کو چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، بعد میں سینہ بند کر دیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل ؑ نے داروغہ آسمان سے کہا: دروازہ کھول۔ اس نے کہا: کون ہے؟ بولے: میں جبریل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: تمہارے ہمراہ بھی کوئی ہے؟ حضرت جبریل نے کہا: ہاں، میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پھر دریافت کیا: انھیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا: ہاں۔ اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے، وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب جم غفیر اور بائیں جانب بھی انبوہ کثیر تھا۔ جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتا تو ہنستا اور جب بائیں طرف دیکھتا تو رو دیتا۔ اس نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ’’نیک پیغمبر، اچھے بیٹے خوش آمدید! میں نے جبریل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: یہ حضرت آدم ؑ ہیں اور ان کے دائیں بائیں انبوہ کثیر ان کی اولاد کی ارواح ہیں، دائیں جانب والی جنتی اور بائیں جانب والی دوزخی ہیں، اس لیے دائیں طرف نظر کر کے ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کے داروغے سے کہا: دروازہ کھول! اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی۔ چنانچہ اس نے دروازہ کھول دیا۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: حضرت ابوذر کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے آسمانوں میں حضرت آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات کی، لیکن ان کے مقامات کو بیان نہیں کیا، صرف اتنا کہا کہ آسمان اول پر حضرت آدم ؑ اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ کو پایا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: جب حضرت جبریل ؑ نبی ﷺ کو لے کر حضرت ادریس ؑ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے فرمایا: نیک پیغمبر اور اچھے بھائی، خوش آمدید! میں نے پوچھا: ’’یہ کون ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے جواب دیا : یہ حضرت ادریس ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: نیک پیغمبر اور اچھے بھائی، خوش آمدید! میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جبریل نے جواب دیا: یہ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: نیک پیغمبر اور اچھے بھائی، خوش آمدید! میں نے حضرت جبریل سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے بھی کہا: اے صالح نبی اور اچھے بیٹے! خوش آمدید۔ میں نے حضرت جبریل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوحبہ انصاری ؓ کا بیان ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتی کہ میں ایک ایسے بلند ہموار مقام پر پہنچا جہاں میں (فرشتوں کے) قلموں کی آوازیں سنتا تھا۔" حضرت انس ؓ کا بیان ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس آیا، جب موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: (شب و روز میں) پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ (اس پر) حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت ان کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ چنانچہ میں واپس گیا تو اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں معاف کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس دوبارہ جاؤ آپ کی امت ان کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ میں لوٹا تو اللہ نے کچھ اور نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: پھر اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت ان (نمازوں) کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ نمازیں پانچ ہیں اور در حقیقت (ثواب کے لحاظ سے) پچاس ہیں۔ میرے ہاں فیصلہ بدلنے کا دستور نہیں۔ میں پھر موسیٰ ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس (مزید تخفیف کے لیے) لوٹ جاؤ۔ میں نے کہا: اب مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے۔ پھر مجھے جبریل لے کر روانہ ہو گئے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا دیا جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا جن کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، پھر میں جنت میں داخل کیا گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی (جگمگاتی) لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ شب معراج میں فرضیت نماز کی یہ حکمت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات فرشتوں کی مختلف عبادات کو دیکھا، ان میں جو حالت قیام میں تھے وہ بیٹھتے نہیں تھے اورجو رکوع میں تھے وہ سجدے میں نہ جاتے تھے اور بہت سے فرشتے حالت سجدے میں پڑے اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تمام انواع عبادت کو ایک رکعت نماز میں جمع کردیا، نیز اس میں نماز کی عظمت اور اس کے شرف کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی فرضیت میں یہ خصوصیت رکھی گئی کہ اس کی فرضیت بلاواطہ فرشتہ ہوئی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں کہ شب معراج میں فرضیت نماز کی حکمت تھی کہ معراج سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ظاہری اور باطنی طہارت سے آراستہ کیا گیا کہ آپ کے قلب مبارک کو آب زم زم سے دھوکر اس میں ایمان وحکمت کوبھردیا گیا کہ آپ اپنے رب سے مناجات کے لیے مستعد ہوجائیں۔ اسی طرح نماز میں بھی بندہ اپنے رب سے رازونیاز کی باتیں کرنے کےلیے پہلے خود کو طہارت ونظافت سے مزین کرتا ہے، اس لیے مناسب ہواکہ معراج کی مناسبت سے اس امت پر نماز کو فرض کردیا جائے، نیز اس سے ملاء اعلیٰ پر رسول اللہ ﷺ کا شرف ظاہرکرنا بھی مقصود تھا تاکہ ساکنان حریم قدس ملائکہ اورحضرات انبیائے کرام علیہ السلام کی امامت کروائیں اور اپنے رب سے مناجات کریں، اس مناسبت سے نمازی بھی دوران نماز میں اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔ (فتح الباري:596/1) 2۔ اس روایت میں بیت المقدس تک اسراء کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معراج اسراء کے بغیر ہے، بلکہ کسی راوی نے واقعہ مختصر کردیا ہے۔ امام بخاری ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جس رات میں نماز فرض ہوئی اس رات میں بیت المقدس تک اسراء بھی ہے اورعالم بالا تک معراج بھی ہواہے۔ اگرچہ اسرا اورمعراج دوالگ الگ چیزیں ہیں، یعنی مکے سے بیت المقدس تک کاسفر اسراکہلاتا ہے اور بیت المقدس سے عالم بالا کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں سفر ایک ہی رات سے متعلق ہیں، چنانچہ عنوان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسراء کی رات نماز کیسے فرض ہوئی؟ حالانکہ روایت میں اسراء کا ذکر نہیں ہے، لیکن اسراء کا واقعہ بھی اسی رات میں بحالت بیداری پیش آیا۔ واللہ أعلم۔ 3۔ اس روایت سے امام بخاریؒ کامقصود صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو امت پر پچاس نمازیں فرض فرمادیں جو بندے اور آقا کے درمیان مناجات کا ذریعہ ہیں، چنانچہ آپ بے چون چرا اس تحفے کو لے کر واپس ہوئے۔ آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ پچاس نمازیں کی طرح ادا ہوں گی، کیونکہ آپ مقام عبدیت میں ہیں، عبودیت کامل تھی جس کا تقاضا تھا کہ جو چیز آقا کی طرف سے عطا کی جائے، اسے بلاچون وچرا قبول کیاجائے۔ ان پچاس نمازوں کی فرضیت میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ بندوں پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت نماز ہے۔ جس قدر یہ نعمت زیادہ ہوگی، اس قدر شان نمایاں ہوگی۔ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نوبار اپنے رب کے حضور آمدروفت سے پچاس نمازوں میں سے پانچ رہ گئیں۔ ایک مرتبہ میں ہی تخفیف کرکے پانچ کی جاسکتی تھیں، مگر اس صورت میں آپ کی شان محبوبیت کا اظہار نہ ہوتا۔ بار بار حاضری کا موقع دیا جارہا ہے، آخر میں فرمادیا کہ اب نمازیں پانچ ہیں۔ وہ پانچ رہتے ہوئے بھی پچاس ہی ہیں۔ چونکہ قرآنی ضابطے کے مطابق ایک نیکی کااجر دس گنا ہے، اس لیے پانچ نمازیں اداکرنے سے پچاس ہی کا ثواب لکھاجاتاہے۔ (فتح الباري:600/1) 4۔ آخری مرتبہ پانچ نمازیں رہ جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے واپس جانے کی جو وجہ ظاہر کی ہے وہ یہ کہ اب مجھے اپنے رب سے درخواست پیش کرنے میں شرم آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ پانچ کی تخفیف سے یہ اندازہ لگالیاتھا کہ اگر پانچ رہ جانے کے بعد بھی درخواست کریں گے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ باقی ماندہ پانچ نمازیں بھی بالکل معاف کردی جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطیے کو واپس کیا جارہا ہے جو کسی حال میں مناسب نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہ کیا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو یقین ہوگیا تھا کہ ہربار میں جو باقی حکم رہ گیا ہے وہ حتمی اور آخری فیصلہ نہیں، لیکن آخری بار میں پانچ نمازوں کے ساتھ فرمادیاتھا کہ میرے ہاں قول وفیصلہ کی الٹ پلٹ نہیں ہوتی، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اب آخری اور حتمی فیصلہ ہوچکاہے، اب تخفیف کی درخواست کرنا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:600/1) 5۔ حدیث میں ہے کہ معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کی آخری آیات اوربشرط عدم شرک کبائر کی مغفرت۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:431 (173)) پانچ نمازوں کی عطا سے مراد ان کی فرضیت ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُولُ) سے ختم سورت تک ان آیات میں اس اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت، تخفیف احکام، بشارت مغفرت اور کافروں کے مقابلے میں نصرت کابیان ہے۔ اس عطا سے مراد عطائے مضمون ہے، کیونکہ نزول کے لحاظ سے تو تمام سورہ بقرہ مدنی ہے اور معراج مکرمہ میں ہوئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شب معراج میں بلاواسطہ یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہوں، پھر جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں تومصحف میں لکھی گئیں۔ کبائر معاصی کی مغفرت کا مطلب یہ نہیں کہ موحدین اہل کبائر کو قیامت کے دن عذاب ہی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات تو اجماع اہل سنت کےخلاف ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار ومشرکین کی طرح امت کے اہل کبائر ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، بلکہ انھیں آخر کار جہنم سے نکال لیا جائےگا۔ واللہ أعلم۔ نوٹ:۔اسراء اورمعراج کے متعلق دیگرمباحث کتاب احادیث الانبیاء حدیث: 3342۔ میں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
347
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
349
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
349
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
349
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریمﷺ ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جب میں مکے میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔ حضرت جبریل ؑ اترے، انھوں نے پہلے میرے سینے کو چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، بعد میں سینہ بند کر دیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل ؑ نے داروغہ آسمان سے کہا: دروازہ کھول۔ اس نے کہا: کون ہے؟ بولے: میں جبریل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: تمہارے ہمراہ بھی کوئی ہے؟ حضرت جبریل نے کہا: ہاں، میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پھر دریافت کیا: انھیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا: ہاں۔ اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے، وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب جم غفیر اور بائیں جانب بھی انبوہ کثیر تھا۔ جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتا تو ہنستا اور جب بائیں طرف دیکھتا تو رو دیتا۔ اس نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ’’نیک پیغمبر، اچھے بیٹے خوش آمدید! میں نے جبریل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: یہ حضرت آدم ؑ ہیں اور ان کے دائیں بائیں انبوہ کثیر ان کی اولاد کی ارواح ہیں، دائیں جانب والی جنتی اور بائیں جانب والی دوزخی ہیں، اس لیے دائیں طرف نظر کر کے ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کے داروغے سے کہا: دروازہ کھول! اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی۔ چنانچہ اس نے دروازہ کھول دیا۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: حضرت ابوذر کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے آسمانوں میں حضرت آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات کی، لیکن ان کے مقامات کو بیان نہیں کیا، صرف اتنا کہا کہ آسمان اول پر حضرت آدم ؑ اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ کو پایا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: جب حضرت جبریل ؑ نبی ﷺ کو لے کر حضرت ادریس ؑ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے فرمایا: نیک پیغمبر اور اچھے بھائی، خوش آمدید! میں نے پوچھا: ’’یہ کون ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے جواب دیا : یہ حضرت ادریس ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا: نیک پیغمبر اور اچھے بھائی، خوش آمدید! میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جبریل نے جواب دیا: یہ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: نیک پیغمبر اور اچھے بھائی، خوش آمدید! میں نے حضرت جبریل سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے بھی کہا: اے صالح نبی اور اچھے بیٹے! خوش آمدید۔ میں نے حضرت جبریل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوحبہ انصاری ؓ کا بیان ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتی کہ میں ایک ایسے بلند ہموار مقام پر پہنچا جہاں میں (فرشتوں کے) قلموں کی آوازیں سنتا تھا۔" حضرت انس ؓ کا بیان ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس آیا، جب موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: (شب و روز میں) پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ (اس پر) حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت ان کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ چنانچہ میں واپس گیا تو اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں معاف کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس دوبارہ جاؤ آپ کی امت ان کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ میں لوٹا تو اللہ نے کچھ اور نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: پھر اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں کیونکہ آپ کی امت ان (نمازوں) کی بھی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ نمازیں پانچ ہیں اور در حقیقت (ثواب کے لحاظ سے) پچاس ہیں۔ میرے ہاں فیصلہ بدلنے کا دستور نہیں۔ میں پھر موسیٰ ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس (مزید تخفیف کے لیے) لوٹ جاؤ۔ میں نے کہا: اب مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے۔ پھر مجھے جبریل لے کر روانہ ہو گئے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا دیا جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا جن کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، پھر میں جنت میں داخل کیا گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی (جگمگاتی) لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ شب معراج میں فرضیت نماز کی یہ حکمت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات فرشتوں کی مختلف عبادات کو دیکھا، ان میں جو حالت قیام میں تھے وہ بیٹھتے نہیں تھے اورجو رکوع میں تھے وہ سجدے میں نہ جاتے تھے اور بہت سے فرشتے حالت سجدے میں پڑے اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تمام انواع عبادت کو ایک رکعت نماز میں جمع کردیا، نیز اس میں نماز کی عظمت اور اس کے شرف کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی فرضیت میں یہ خصوصیت رکھی گئی کہ اس کی فرضیت بلاواطہ فرشتہ ہوئی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں کہ شب معراج میں فرضیت نماز کی حکمت تھی کہ معراج سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ظاہری اور باطنی طہارت سے آراستہ کیا گیا کہ آپ کے قلب مبارک کو آب زم زم سے دھوکر اس میں ایمان وحکمت کوبھردیا گیا کہ آپ اپنے رب سے مناجات کے لیے مستعد ہوجائیں۔ اسی طرح نماز میں بھی بندہ اپنے رب سے رازونیاز کی باتیں کرنے کےلیے پہلے خود کو طہارت ونظافت سے مزین کرتا ہے، اس لیے مناسب ہواکہ معراج کی مناسبت سے اس امت پر نماز کو فرض کردیا جائے، نیز اس سے ملاء اعلیٰ پر رسول اللہ ﷺ کا شرف ظاہرکرنا بھی مقصود تھا تاکہ ساکنان حریم قدس ملائکہ اورحضرات انبیائے کرام علیہ السلام کی امامت کروائیں اور اپنے رب سے مناجات کریں، اس مناسبت سے نمازی بھی دوران نماز میں اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔ (فتح الباري:596/1) 2۔ اس روایت میں بیت المقدس تک اسراء کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معراج اسراء کے بغیر ہے، بلکہ کسی راوی نے واقعہ مختصر کردیا ہے۔ امام بخاری ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جس رات میں نماز فرض ہوئی اس رات میں بیت المقدس تک اسراء بھی ہے اورعالم بالا تک معراج بھی ہواہے۔ اگرچہ اسرا اورمعراج دوالگ الگ چیزیں ہیں، یعنی مکے سے بیت المقدس تک کاسفر اسراکہلاتا ہے اور بیت المقدس سے عالم بالا کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں سفر ایک ہی رات سے متعلق ہیں، چنانچہ عنوان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسراء کی رات نماز کیسے فرض ہوئی؟ حالانکہ روایت میں اسراء کا ذکر نہیں ہے، لیکن اسراء کا واقعہ بھی اسی رات میں بحالت بیداری پیش آیا۔ واللہ أعلم۔ 3۔ اس روایت سے امام بخاریؒ کامقصود صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو امت پر پچاس نمازیں فرض فرمادیں جو بندے اور آقا کے درمیان مناجات کا ذریعہ ہیں، چنانچہ آپ بے چون چرا اس تحفے کو لے کر واپس ہوئے۔ آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ پچاس نمازیں کی طرح ادا ہوں گی، کیونکہ آپ مقام عبدیت میں ہیں، عبودیت کامل تھی جس کا تقاضا تھا کہ جو چیز آقا کی طرف سے عطا کی جائے، اسے بلاچون وچرا قبول کیاجائے۔ ان پچاس نمازوں کی فرضیت میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ بندوں پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت نماز ہے۔ جس قدر یہ نعمت زیادہ ہوگی، اس قدر شان نمایاں ہوگی۔ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نوبار اپنے رب کے حضور آمدروفت سے پچاس نمازوں میں سے پانچ رہ گئیں۔ ایک مرتبہ میں ہی تخفیف کرکے پانچ کی جاسکتی تھیں، مگر اس صورت میں آپ کی شان محبوبیت کا اظہار نہ ہوتا۔ بار بار حاضری کا موقع دیا جارہا ہے، آخر میں فرمادیا کہ اب نمازیں پانچ ہیں۔ وہ پانچ رہتے ہوئے بھی پچاس ہی ہیں۔ چونکہ قرآنی ضابطے کے مطابق ایک نیکی کااجر دس گنا ہے، اس لیے پانچ نمازیں اداکرنے سے پچاس ہی کا ثواب لکھاجاتاہے۔ (فتح الباري:600/1) 4۔ آخری مرتبہ پانچ نمازیں رہ جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے واپس جانے کی جو وجہ ظاہر کی ہے وہ یہ کہ اب مجھے اپنے رب سے درخواست پیش کرنے میں شرم آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ پانچ کی تخفیف سے یہ اندازہ لگالیاتھا کہ اگر پانچ رہ جانے کے بعد بھی درخواست کریں گے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ باقی ماندہ پانچ نمازیں بھی بالکل معاف کردی جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطیے کو واپس کیا جارہا ہے جو کسی حال میں مناسب نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہ کیا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو یقین ہوگیا تھا کہ ہربار میں جو باقی حکم رہ گیا ہے وہ حتمی اور آخری فیصلہ نہیں، لیکن آخری بار میں پانچ نمازوں کے ساتھ فرمادیاتھا کہ میرے ہاں قول وفیصلہ کی الٹ پلٹ نہیں ہوتی، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اب آخری اور حتمی فیصلہ ہوچکاہے، اب تخفیف کی درخواست کرنا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:600/1) 5۔ حدیث میں ہے کہ معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کی آخری آیات اوربشرط عدم شرک کبائر کی مغفرت۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:431 (173)) پانچ نمازوں کی عطا سے مراد ان کی فرضیت ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُولُ) سے ختم سورت تک ان آیات میں اس اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت، تخفیف احکام، بشارت مغفرت اور کافروں کے مقابلے میں نصرت کابیان ہے۔ اس عطا سے مراد عطائے مضمون ہے، کیونکہ نزول کے لحاظ سے تو تمام سورہ بقرہ مدنی ہے اور معراج مکرمہ میں ہوئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شب معراج میں بلاواسطہ یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہوں، پھر جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں تومصحف میں لکھی گئیں۔ کبائر معاصی کی مغفرت کا مطلب یہ نہیں کہ موحدین اہل کبائر کو قیامت کے دن عذاب ہی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات تو اجماع اہل سنت کےخلاف ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار ومشرکین کی طرح امت کے اہل کبائر ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، بلکہ انھیں آخر کار جہنم سے نکال لیا جائےگا۔ واللہ أعلم۔ نوٹ:۔اسراء اورمعراج کے متعلق دیگرمباحث کتاب احادیث الانبیاء حدیث: 3342۔ میں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ نے کہا: مجھ سے حضرت ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے ہرقل کی حدیث ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز، صدقہ اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری ؓ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرئیل ؑ اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرئیل ؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرئیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( ﷺ ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرئیل ؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم ؑ ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو ( رنج سے ) روتے ہیں۔ پھر جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ ﷺ یعنی نبی ﷺ نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم ؑ کو موجود پایا۔ اور ابوذر ؓ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور ﷺ نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم ؑ کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرئیل ؑ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ادریس ؑ پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس ؑ ہیں۔ پھر موسیٰ ؑ تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے بتایا کہ موسیٰ ؑ ہیں۔ پھر میں عیسیٰ ؑ تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے بتایا کہ یہ عیسی ؑ ہیں۔ پھر میں ابراہیم ؑ تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم ؒ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری ؓ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، پھر مجھے جبرئیل ؑ لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی ( جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی ) ابن حزم نے ( اپنے شیخ سے ) اور انس بن مالک نے ابوذر ؓ سے نقل کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ ؑ تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جايے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ ؑ کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جایے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں بار بار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عمل میں ) پانچ ہیں اور ( ثواب میں ) پچاس ( کے برابر ) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا: مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرئیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے، جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نجم کے شروع میں بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کثرت کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اسے تواتر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ سلف امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جاگتے میں بدن اور روح ہر دو کے ساتھ ہوا۔ سینہ مبارک کا چاک کرکے آبِ زمزم سے دھوکر حکمت اور ایمان سے بھرکر آپ کوعالم ملکوت کی سیر کرنے کے قابل بنادیاگیا۔ یہ شق صدردوبارہ ہے۔ ایک بارپہلے حالت رضاعت میں بھی آپ کا سینہ چاک کرکے علم وحکمت و انوارِ تجلیات سے بھردیاگیا تھا۔ دوسری روایات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے، تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔ جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں فرشتوں کی قلموں کی آوازیں سنیں اور مطابق آیت شریفہ لقدرای من آیات ربہ الکبریٰ ( النجم: 18 ) آپ نے ملااعلیٰ میں بہت سی چیزیں دیکھیں، وہاں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ پھر آپ کے نوبارآنے جانے کے صدقے میں صرف پنچ وقت نماز باقی رہ گئی، مگرثواب میں وہ پچاس کے برابر ہیں۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ نماز معراج کی رات میں اس تفصیل کے ساتھ فرض ہوئی۔ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان تک ہیں۔ فرشتے وہیں تک جاسکتے ہیں آگے جانے کی ان کو بھی مجال نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ منتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آتے ہیں وہ وہاں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور نیچے سے جو کچھ جاتا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ معراج کی اور تفصیلات اپنے مقام پر بیان کی جائیں گی۔ آسمانوں کا وجود ہے جس پر جملہ کتب سماویہ اور تمام انبیاءکرام کا اتفاق ہے، مگر اس کی کیفیت اور حقیقت اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ جس قدر بتلادیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور فلاسفہ وملاحدہ اور آج کل کے سائنس والے جو آسمان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے قول باطل پر ہرگز کان نہ لگانے چاہئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "While I was at Makkah the roof of my house was opened and Gabriel (ؑ) descended, opened my chest, and washed it with Zam-zam water. Then he brought a golden tray full of wisdom and faith and having poured its contents into my chest, he closed it. Then he took my hand and ascended with me to the nearest heaven, when I reached the nearest heaven, Gabriel (ؑ) said to the gatekeeper of the heaven, 'Open (the gate).' The gatekeeper asked, 'Who is it?' Gabriel (ؑ) answered: ' Gabriel (ؑ).' He asked, 'Is there anyone with you?' Gabriel (ؑ) replied, 'Yes, Muhammad (ﷺ) is with me.' He asked, 'Has he been called?' Gabriel (ؑ) said, 'Yes.' So the gate was opened and we went over the nearest heaven and there we saw a man sitting with some people on his right and some on his left. When he looked towards his right, he laughed and when he looked toward his left he wept. Then he said, 'Welcome! O pious Prophet (ﷺ) and pious son.' I asked Gabriel (ؑ), 'Who is he?' He replied, 'He is Adam and the people on his right and left are the souls of his offspring. Those on his right are the people of Paradise and those on his left are the people of Hell and when he looks towards his right he laughs and when he looks towards his left he weeps.' Then he ascended with me till he reached the second heaven and he ( Gabriel (ؑ)) said to its gatekeeper, 'Open (the gate).' The gatekeeper said to him the same as the gatekeeper of the first heaven had said and he opened the gate. Anas (RA) said: "Abu Dhar (RA) added that the Prophet (ﷺ) met Adam, Idris, Moses (ؑ), Jesus and Abraham, he (Abu Dhar (RA)) did not mention on which heaven they were but he mentioned that he (the Prophet) met Adarn on the nearest heaven and Abraham on the sixth heaven. Anas (RA) said, "When Gabriel (ؑ) along with the Prophet (ﷺ) passed by Idris, the latter said, 'Welcome! O pious Prophet (ﷺ) and pious brother.' The Prophet (ﷺ) asked, 'Who is he?' Gabriel (ؑ) replied, 'He is Idris." The Prophet (ﷺ) added, "I passed by Moses (ؑ) and he said, 'Welcome! O pious Prophet (ﷺ) and pious brother.' I asked Gabriel (ؑ), 'Who is he?' Gabriel (ؑ) replied, 'He is Moses (ؑ).' Then I passed by Jesus and he said, 'Welcome! O pious brother and pious Prophet.' I asked, 'Who is he?' Gabriel (ؑ) replied, 'He is Jesus. Then I passed by Abraham and he said, 'Welcome! O pious Prophet (ﷺ) and pious son.' I asked Gabriel (ؑ), 'Who is he?' Gabriel (ؑ) replied, 'He is Abraham. The Prophet (ﷺ) added, 'Then Gabriel (ؑ) ascended with me to a place where I heard the creaking of the pens." Ibn Hazm and Anas bin Malik (RA) said: The Prophet (ﷺ) said, "Then Allah enjoined fifty prayers on my followers when I returned with this order of Allah; I passed by Moses (ؑ) who asked me, 'What has Allah enjoined on your followers?' I replied, 'He has enjoined fifty prayers on them.' Moses (ؑ) said, 'Go back to your Lord (and appeal for reduction) for your followers will not be able to bear it.' (So I went back to Allah and requested for reduction) and He reduced it to half. When I passed by Moses (ؑ) again and informed him about it, he said, 'Go back to your Lord as your followers will not be able to bear it.' So I returned to Allah and requested for further reduction and half of it was reduced. I again passed by Moses (ؑ) and he said to me: 'Return to your Lord, for your followers will not be able to bear it. So I returned to Allah and He said, 'These are five prayers and they are all (equal to) fifty (in reward) for My Word does not change.' I returned to Moses (ؑ) and he told me to go back once again. I replied, 'Now I feel shy of asking my Lord again.' Then Gabriel (ؑ) took me till we '' reached Sidrat-il-Muntaha (Lote tree of; the utmost boundry) which was shrouded in colors, indescribable. Then I was admitted into Paradise where I found small (tents or) walls (made) of pearls and its earth was of musk.