Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: Virtues of Quraish)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3500.
حضرت محمد بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انھیں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک بات پہنچی کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھےگا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، پھر خطبہ دینے کے لیے اٹھے۔ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ حضرات ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہ رسول اللہ ﷺ ہی سے منقول ہیں۔ دیکھو!تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، لہذا ان سے اور ان کے خیالات سے بچت رہو۔ اس قسم کے خیالات نے انھیں گمراہ کردیاہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا ہے: "خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کوقائم رکھیں گے اور ان سے جوبھی دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ گرائے گا۔ "
تشریح:
1۔اس حدیث میں قریش کی تعریف بیان ہوئی ہے کہ جب تک وہ دین اسلام پر قائم رہیں گے حکومت و سرداری ان میں قائم رہے گی،چنانچہ پانچ چھ سو برس تک خلافت بنوامیہ اور بنو عباسیہ قائم رہی،یہ تمام حضرات قریشی تھے اور جب انھوں نے شریعت پر چلنا چھوڑدیا تو ان سے خلافت چھن گئی اور دوسرے لوگ بادشاہ بن گئے،پھر قریش کو حکومت نہیں ملی۔2۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا مطلب ہے کہ قیامت کے قریب ایک قحطانی عرب کا بادشاہ ہوگا جولوگوں پرزبردستی حکومت کرے گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔قحطان یمن میں ایک مشہور قبیلہ ہے۔حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خیال کیا کہ لوگ اس حدیث کو بنیاد بنا کر خلافت کو قریش سےچھیننا چاہتے ہیں،اس بناپر انھوں نے سخت نوٹس لیا اور ناراض ہوئے ۔انھوں نے سمجھا کہ مستقبل قریب میں قریش سے حکومت چھین لی جائےگی جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرادیہ تھی کہ قرب قیامت کے وقت ایسا ہوگا اورتغیر زمان اورتبدیل احکام کی بڑی علامت ہوگی۔وہ قحطانی قریشی نہیں ہوگا اور نہ کسی خاندانِ نبوت سے اس کا تعلق ہوگا۔(فتح الباری 6/654)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3366
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3500
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3500
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3500
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
قریش نضر بن کنانہ کی اولاد کو کہتے ہیں اور کلبی سے منقول ہے کہ مکہ کے رہنے والے اپنے آپ کو قریش سمجھتے اور نضر کی باقی اولاد کو قریش نہ جانتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: نضر بن کنانہ کی اولاد بھی قریش میں سے ہے، اکثر علماءکا یہی قول ہے ۔ کہتے ہیں قریش ایک دریائی جانور کا نام ہے جو دریا کے دوسرے سب جانوروں کو کھالیتا ہے۔ یہ ان سب کا سردار ہے ۔ اسی طرح قریش بھی عرب کے سب قبیلوں کے سردار تھے۔ اس لیے ان کانام قریش ہوا۔ بعض نے کہا کہ جب قصی نے خزاعہ کے لوگوں کو حرم سے باہر کیا تو باقی لوگ سب ان کے پاس جمع ہوئے اس لیے ان کانام قریش ہوا جو تقرش سے نکلا ہے، جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں، قریش کی وجہ تسمیہ سے متعلق کچھ اور بھی اقوال ہیں جن کو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بیان فرمایا ہے ، مگر زیادہ مستند قول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا، دور حاضر میں ہندوستان میں قریش برادری نے اپنی عظیم تنظیم کے تحت مسلمانان ہند میں ایک بہترین مقام پیدا کرلیا ہے۔ جنوبی ہند میں یہ کافی تعداد میں آباد ہیں۔ شمالی ہند میں بھی کم نہیں ہیں۔ ان کے ڈیل ڈول حلیہ وغیرہ سے قریش عرب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ جہاں تک تاریخی حقائق کا تعلق ہے قریش کے کچھ لوگ شروع زمانہ اسلام میں اسلامی قوتوں کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہیں ان لوگوں نے اپنا وطن بنالیا اور بیشتر نے یہاں کے حالات کے تحت حلال چوپایوں کا تجارتی دھندا اختیار کرلیا نیز ایسے ہی حلال جانوروں کا ذبیحہ کرکے ان کے گوشت کی تجارت کو اپنا لیا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ کوئی مذموم پیشہ نہ تھا بلکہ مسلمانان ہند کی ایک شدید ضرروت تھی جسے خدا نے ان لوگوں کے ہاتھوں انجام دلایا اور الحمد للہ آج تک یہ لوگ اسی خدمت کے ساتھ ملک میں ملی حیثیت سے بہترین اسلامی خدمات انجام د ے رہے ہیں۔ اللہم زد فزد آمین۔
حضرت محمد بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انھیں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک بات پہنچی کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھےگا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، پھر خطبہ دینے کے لیے اٹھے۔ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ حضرات ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہ رسول اللہ ﷺ ہی سے منقول ہیں۔ دیکھو!تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، لہذا ان سے اور ان کے خیالات سے بچت رہو۔ اس قسم کے خیالات نے انھیں گمراہ کردیاہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا ہے: "خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کوقائم رکھیں گے اور ان سے جوبھی دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ گرائے گا۔ "
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں قریش کی تعریف بیان ہوئی ہے کہ جب تک وہ دین اسلام پر قائم رہیں گے حکومت و سرداری ان میں قائم رہے گی،چنانچہ پانچ چھ سو برس تک خلافت بنوامیہ اور بنو عباسیہ قائم رہی،یہ تمام حضرات قریشی تھے اور جب انھوں نے شریعت پر چلنا چھوڑدیا تو ان سے خلافت چھن گئی اور دوسرے لوگ بادشاہ بن گئے،پھر قریش کو حکومت نہیں ملی۔2۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا مطلب ہے کہ قیامت کے قریب ایک قحطانی عرب کا بادشاہ ہوگا جولوگوں پرزبردستی حکومت کرے گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔قحطان یمن میں ایک مشہور قبیلہ ہے۔حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خیال کیا کہ لوگ اس حدیث کو بنیاد بنا کر خلافت کو قریش سےچھیننا چاہتے ہیں،اس بناپر انھوں نے سخت نوٹس لیا اور ناراض ہوئے ۔انھوں نے سمجھا کہ مستقبل قریب میں قریش سے حکومت چھین لی جائےگی جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرادیہ تھی کہ قرب قیامت کے وقت ایسا ہوگا اورتغیر زمان اورتبدیل احکام کی بڑی علامت ہوگی۔وہ قحطانی قریشی نہیں ہوگا اور نہ کسی خاندانِ نبوت سے اس کا تعلق ہوگا۔(فتح الباری 6/654)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
۔ ہم سے ابوالیمان نےبیان کیا ، کہا ہم سے شعیب نے خبردی ، ان سےزہری نےبیان کیا کہ محمد بن جبیربن مطعم بیان کرتےتھے کہ حضرت معاویہ تک یہ بات پہنچی جب وہ قریش کی ایک جماعت میں تھے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ یہ حدیث بیا ن کرتے ہیں کہ عنقریب (قرب قیامت میں ) بنی قحطان سےایک حکمران اٹھے گا۔ یہ سن کر حضرت معاویہ غصے ہوگئے ۔پھر آپ خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کی مطابق حمدوثنا کےبعد فرمایا، لوگو ! مجھے معلوم ہواہےکہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتےہیں جونہ توقرآن مجید میں موجود ہیں اورنہ رسول اللہﷺ سےمنقول ہیں۔ دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہ لوگ ہیں۔ ان سے اوران کےخیالات سےبچتےرہو جن خیالات نےان کوگمراہ کردیا ہے۔میں نے نبی کریمﷺ سے یہ سناہے کہ یہ خلافت قریش میں رہے گی اورجو بھی ان سےدشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں اوندھا کردے گا جب تک وہ (قریش ) دین کوقائم رکھیں گے۔
حدیث حاشیہ:
قریش جب دین اورشریعت کوچھوڑ دیں گے توان میں سے بھی جاتی رہےگی۔ آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ پانچ چھ سوبرس تک خلافت بنوامیہ اوربنو عباسیہ میں قائم رہی جو قریشی تھے۔ جب انہوں نے شریعت پرچلنا چھوڑ دیا توان کی خلافت چھن گئی اور دوسرے لوگ باد شاہ بن گئے ۔ جب سے آج تک پھر قریش کوخلافت اورسرداری نہیں ملی ۔ عبداللہ بن عمرو نےجو حدیث روایت کی ہے وہ اس کےخلاف نہیں ہے۔ ا س حدیث کامطلب یہ ہےکہ قیامت کےقریب ایک قحطانی عرب کابادشاہ ہوگا۔ ابوہریرہ سےبھی مروی ہے۔ذی مخبرحبشی سے بھی مرفوعا مروی ہے کہ حکومت قریش سےپہلے حمیر میں تھی اورپھر ان میں چلی جائے گی ۔ اس کو احمد اورطبرانی نےنکالا ہے ۔قحطان یمن میں ایک مشہور قبیلہ ہےحضرت معاویہ کومحمد بن جبیروالی حدیث کاعلم نہ تھا ، اس لیے انہیں شبہ ہوااور ان سخت لفظوں میں اس پرنوٹس لیا مگر ان کا یہ نوٹس صحیح نہ تھا کیونکہ یہ حدیث صحیح ہےاور رسول اللہ ﷺ سےسند صحیح کےساتھ ثابت ہےجیسا کہ حضرت ابوہریرہ نےبھی اس کوروایت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Jubair bin Mut'im (RA):
That while he was with a delegation from Quraish to Muawiyah, the latter heard the news that 'Abdullah bin 'Amr bin Al-'As said that there would be a king from the tribe of Qahtan. On that Muawiyah became angry, got up and then praised Allah as He deserved, and said, "Now then, I have heard that some men amongst you narrate things which are neither in the Holy Book, nor have been told by Allah's Apostle. Those men are the ignorant amongst you. Beware of such hopes as make the people go astray, for I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'Authority of ruling will remain with Quraish, and whoever bears hostility to them, Allah will destroy him as long as they abide by the laws of the religion.' "