Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3578.
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، ا نھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓنے حضر ام سلیم ؓ سے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز کو کمزور پایا۔ میرے خیال کے مطابق آپ کو بھوک لگی ہے کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟انھوں نے کہا: ہاں، چنانچہ انھوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں پھر اپنا دوپٹہ لیا، اس کے ایک حصے میں ان کو لپیٹا، پھر انھیں میرے ہاتھ میں چھپا دیا، دوپٹے کا دوسر احصہ مجھے اوڑھا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں انھیں لے کرروانہ ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ کرام ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمھیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے ساتھ والے لوگوں سے فرمایا: ’’اٹھو اور ابوطلحہ کے ہاں چلو۔ ‘‘چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے چلا حتیٰ کہ میں ابو طلحہ ؓ کے پاس آیا اور ان سے واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم!رسول اللہ ﷺ تو لوگوں سمیت تشریف لارہے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو ہم انھیں کھلاسکیں؟حضرت ام سلیم ؓ نےکہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ بہرحال حضرت ابوطلحہ نے آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا۔ اب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ وہ بھی چل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ام سلیم!جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ۔ ‘‘ حضرت ام سلیم روٹیاں لے کر آئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ان کے ٹکڑے بنادیے جائیں۔ حضرت ام سلیم نے کپی نچوڑ کر ان پر کچھ گھی ڈال دیا، اس طرح وہ سالن بن گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس پر جو اللہ نے چاہاپڑھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’دس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ چنانچہ انھیں بلا کر کھانے کی اجازت دی تو انھوں نے پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’اوردس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘انھیں بلایاگیا اور کھانے کی اجازت دی گئی تو انھوں نے سیرہوکر کھایا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’اوردس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ انھیں بلایا گیا اور انھوں نے کھایا حتیٰ کہ وہ سیر ہوگئے۔ پھر وہ چلے گئے تو آپ نے فرمایا:’’دس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ اس طرح سب آدمیوں نےپیٹ بھر کر کھانا کھایا جبکہ وہ ستر(70) یا اسی(80) آدمی تھے۔
تشریح:
1۔ مذکورہ واقعہ غزوہ احزاب کے موقع پر پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرانورپر کمزوری کے اثرات دیکھے تھے ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے اپنے پیٹ پر کپڑا باندھا ہوا تھا ۔ انھیں پتہ چلا کہ آپ نے بھوک کی وجہ سے ایسا کیا ہے وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے حتی الوسع کھانے کا بندو بست فرمایا۔(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5323(2040)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے گھی کو مس کیا پھر روٹی پر ہاتھ پھیرا تو وہ بڑی ہو گئی۔ آپ نے بسم اللہ پڑھی اسی طرح وہ روٹی بڑی ہوتی گئی حتی کہ بڑا برتن اس روٹی سے بھر گیا۔(صحیح ابن حبان بلبان:94/12 )ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر دعا فرمائی:’’اے اللہ! اس میں برکت ڈال دے۔‘‘(مسند أحمد:242/3)بہر حال اس تھوڑے سے کھانے میں اتنی برکت پڑی کہ ستر یا اسی آدمیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔آخرمیں رسول اللہ ﷺ اور اہل خانہ نے اسے تناول کیا۔ پھر بھی کھانا بچ گیا تو ہمسایوں میں تقسیم کر دیا گیا۔(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5321(2040)ایک روایت میں ہےکہ جوکھانا بچ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک جگہ اکٹھا کر کے اس پر برکت کی دعا فرمائی تو وہ اتنا ہی ہو گیا جس قدر پہلے تھا۔(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5318(2040)2۔قبل ازیں تکثیر پانی کا معجزہ تھا۔ اس حدیث سے تکثیرطعام کا علم ہوا۔ اس سے عجیب تر معجزہ یہ ہے جسے حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھوک کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:’’اللہ اس کا ضرور بندو بست کرے گا۔‘‘ چنانچہ بعد ازاں ہم ساحل سمندر پر آئے تو سمندر نے بہت بڑی مچھلی باہر پھینک دی۔ ہم نے سمندر کے کنارے آگ جلائی اور اسے بھون بھون کر کئی دن تک کھاتے رہے۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ ہم پانچ آدمی اس کی آنکھ کے خول میں چھپ کر بیٹھ گئے پھر ہم نے اس کی پسلی کی ہڈی کو زمین پر کھڑا کیا تو ایک لمبا آدمی جس اونٹ بھی طویل القامت تھا اسے نیچے سے گزاراگیا تو وہ آسانی سے گزر گیا۔ اس کا سر چوٹی سے نہیں ٹکرایا۔(صحیح مسلم، الزھدوالرقائق، حدیث:7520۔3014)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3445
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3578
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3578
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3578
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، ا نھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓنے حضر ام سلیم ؓ سے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز کو کمزور پایا۔ میرے خیال کے مطابق آپ کو بھوک لگی ہے کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟انھوں نے کہا: ہاں، چنانچہ انھوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں پھر اپنا دوپٹہ لیا، اس کے ایک حصے میں ان کو لپیٹا، پھر انھیں میرے ہاتھ میں چھپا دیا، دوپٹے کا دوسر احصہ مجھے اوڑھا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں انھیں لے کرروانہ ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ کرام ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمھیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے ساتھ والے لوگوں سے فرمایا: ’’اٹھو اور ابوطلحہ کے ہاں چلو۔ ‘‘چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے چلا حتیٰ کہ میں ابو طلحہ ؓ کے پاس آیا اور ان سے واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم!رسول اللہ ﷺ تو لوگوں سمیت تشریف لارہے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو ہم انھیں کھلاسکیں؟حضرت ام سلیم ؓ نےکہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ بہرحال حضرت ابوطلحہ نے آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا۔ اب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ وہ بھی چل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ام سلیم!جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ۔ ‘‘ حضرت ام سلیم روٹیاں لے کر آئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ان کے ٹکڑے بنادیے جائیں۔ حضرت ام سلیم نے کپی نچوڑ کر ان پر کچھ گھی ڈال دیا، اس طرح وہ سالن بن گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس پر جو اللہ نے چاہاپڑھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’دس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ چنانچہ انھیں بلا کر کھانے کی اجازت دی تو انھوں نے پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’اوردس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘انھیں بلایاگیا اور کھانے کی اجازت دی گئی تو انھوں نے سیرہوکر کھایا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’اوردس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ انھیں بلایا گیا اور انھوں نے کھایا حتیٰ کہ وہ سیر ہوگئے۔ پھر وہ چلے گئے تو آپ نے فرمایا:’’دس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ اس طرح سب آدمیوں نےپیٹ بھر کر کھانا کھایا جبکہ وہ ستر(70) یا اسی(80) آدمی تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مذکورہ واقعہ غزوہ احزاب کے موقع پر پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرانورپر کمزوری کے اثرات دیکھے تھے ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے اپنے پیٹ پر کپڑا باندھا ہوا تھا ۔ انھیں پتہ چلا کہ آپ نے بھوک کی وجہ سے ایسا کیا ہے وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے حتی الوسع کھانے کا بندو بست فرمایا۔(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5323(2040)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے گھی کو مس کیا پھر روٹی پر ہاتھ پھیرا تو وہ بڑی ہو گئی۔ آپ نے بسم اللہ پڑھی اسی طرح وہ روٹی بڑی ہوتی گئی حتی کہ بڑا برتن اس روٹی سے بھر گیا۔(صحیح ابن حبان بلبان:94/12 )ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر دعا فرمائی:’’اے اللہ! اس میں برکت ڈال دے۔‘‘(مسند أحمد:242/3)بہر حال اس تھوڑے سے کھانے میں اتنی برکت پڑی کہ ستر یا اسی آدمیوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔آخرمیں رسول اللہ ﷺ اور اہل خانہ نے اسے تناول کیا۔ پھر بھی کھانا بچ گیا تو ہمسایوں میں تقسیم کر دیا گیا۔(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5321(2040)ایک روایت میں ہےکہ جوکھانا بچ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک جگہ اکٹھا کر کے اس پر برکت کی دعا فرمائی تو وہ اتنا ہی ہو گیا جس قدر پہلے تھا۔(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5318(2040)2۔قبل ازیں تکثیر پانی کا معجزہ تھا۔ اس حدیث سے تکثیرطعام کا علم ہوا۔ اس سے عجیب تر معجزہ یہ ہے جسے حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھوک کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:’’اللہ اس کا ضرور بندو بست کرے گا۔‘‘ چنانچہ بعد ازاں ہم ساحل سمندر پر آئے تو سمندر نے بہت بڑی مچھلی باہر پھینک دی۔ ہم نے سمندر کے کنارے آگ جلائی اور اسے بھون بھون کر کئی دن تک کھاتے رہے۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ ہم پانچ آدمی اس کی آنکھ کے خول میں چھپ کر بیٹھ گئے پھر ہم نے اس کی پسلی کی ہڈی کو زمین پر کھڑا کیا تو ایک لمبا آدمی جس اونٹ بھی طویل القامت تھا اسے نیچے سے گزاراگیا تو وہ آسانی سے گزر گیا۔ اس کا سر چوٹی سے نہیں ٹکرایا۔(صحیح مسلم، الزھدوالرقائق، حدیث:7520۔3014)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو مالک نے خبردی ، انہیں اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا ، انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ ؓ نے ( میری والدہ ) ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہوا ۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں ، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپادیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مجھے بھیجا ۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے ۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہوگیا تو آپ نے فرمایا کیاابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ۔ آپ نے دریافت فرمایا ، کچھ کھانادے کر ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے ، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو ، آنحضرت تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا اور ابوطلحہ ؓ کے گھر پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی ۔ ابوطلحہ ؓ بولے ، ام سلیم ! حضور اکرم ﷺ تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جاسکے ؟ ام سلیم ؓ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ( ہم فکر کیو ں کریں ؟ ) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر آنحضرت ﷺ سے ملے ۔ اب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے ۔ ام سلیم نے وہی روٹی لاکر آپ کے سامنے رکھ دی ، پھر آنحضرت ﷺ کے حکم سے روٹیوں کا چورا کردیا گیا ، ام سلیم ؓ نے کپی نچوڑ کر اس پرکچھ گھی ڈال دیا ، اور اس طرح سالن ہوگیا ، آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا ۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو ، انہوں نے ایسا ہی کیا ، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلالو ۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا ، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ، جب یہ لوگ باہر گئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلالو ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو ۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ۔ ان لوگوں کی تعداد ستّر یا اسّی تھی ۔
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ نے اس کھانے میں دعاءبرکت فرمائی۔ اتنے لوگوں کے کھالےنے کے بعد بھی کھانا بچ رہا۔ آنحضرت ﷺ نے ابوطلحہ اور ام سلیم ؓ کے ساتھ ان کے گھر میں کھانا کھایا اور جو بچ رہا وہ ہمسایوں کو بھیج دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha said to Um Sulaim, "I have noticed feebleness in the voice of Allah's Apostle (ﷺ) which I think, is caused by hunger. Have you got any food?" She said, "Yes." She brought out some loaves of barley and took out a veil belonging to her, and wrapped the bread in part of it and put it under my arm and wrapped part of the veil round me and sent me to Allah's Apostle. I went carrying it and found Allah's Apostle (ﷺ) in the Mosque sitting with some people. When I stood there, Allah's Apostle (ﷺ) asked, "Has Abu Talha sent you?" I said, "Yes". He asked, "With some food? I said, "Yes" Allah's Apostle (ﷺ) then said to the men around him, "Get up!" He set out (accompanied by them) and I went ahead of them till I reached Abu Talha and told him (of the Prophet's visit). Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle (ﷺ) is coming with the people and we have no food to feed them." She said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." So Abu Talha went out to receive Allah's Apostle. Allah's Apostle (ﷺ) came along with Abu Talha. Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." She brought the bread which Allah's Apostle (ﷺ) ordered to be broken into pieces. Um Sulaim poured on them some butter from an oilskin. Then Allah's Apostle (ﷺ) recited what Allah wished him to recite, and then said, "Let ten persons come (to share the meal)." Ten persons were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, "Let another ten do the same." They were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, '"'Let another ten persons (do the same.)" They were admitted, ate their fill and went out. Then he said, "Let another ten persons come." In short, all of them ate their fill, and they were seventy or eighty men.