Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3580.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، ان کے والد گرامی شہید ہوگئےتھے۔ جبکہ ان پر بہت قرض تھا، میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی: میرے والد گرامی اپنے اوپر قرض چھوڑ گئے ہیں اور میرے پاس ان کھجوروں کی پیداوار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور ان کی پیداوار سے تو کئی سال تک قرض ادا نہیں ہوسکتا۔ آپ میرے پاس تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر بدزبانی نہ کریں۔ آپ ﷺ نے کھجوروں کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے ان میں سے ایک کے گرد چکرلگایا، پھردعا فرمائی، پھردوسرے ڈھیر پر بھی اسی طرح کیا۔ پھر آپ ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’کھجوریں نکال کر انھیں دو۔ ‘‘چنانچہ تمام قرض ادا ہوگیا اور جتنا انھیں دیا اتنا ہی باقی بچ گیا۔
تشریح:
دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے جب قرض ادا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ سے کہا:جاؤ حضرت عمر ؓ کو اس کے ادا ہونے کی خبر دے دو کیونکہ حضرت عمر ؓ اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے۔ جب انھیں پتہ چلا تو فرمایا: مجھے تو اس وقت ہی یقین ہو گیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے ڈھیروں کے گرد چکر لگایا کہ اللہ تعالیٰ ان میں ضرور برکت دے گا۔’’بہر حال اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ آپ کی دعا سے ان میں اس قدر برکت ہوئی کہ قرض بھی ادا ہو گیا پھر گھر کی گزر اوقات کے لیے کھجوریں بھی بچ گئیں۔‘‘(فتح الباري:726/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3447
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3580
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3580
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3580
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، ان کے والد گرامی شہید ہوگئےتھے۔ جبکہ ان پر بہت قرض تھا، میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی: میرے والد گرامی اپنے اوپر قرض چھوڑ گئے ہیں اور میرے پاس ان کھجوروں کی پیداوار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور ان کی پیداوار سے تو کئی سال تک قرض ادا نہیں ہوسکتا۔ آپ میرے پاس تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر بدزبانی نہ کریں۔ آپ ﷺ نے کھجوروں کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے ان میں سے ایک کے گرد چکرلگایا، پھردعا فرمائی، پھردوسرے ڈھیر پر بھی اسی طرح کیا۔ پھر آپ ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’کھجوریں نکال کر انھیں دو۔ ‘‘چنانچہ تمام قرض ادا ہوگیا اور جتنا انھیں دیا اتنا ہی باقی بچ گیا۔
حدیث حاشیہ:
دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے جب قرض ادا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ سے کہا:جاؤ حضرت عمر ؓ کو اس کے ادا ہونے کی خبر دے دو کیونکہ حضرت عمر ؓ اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے۔ جب انھیں پتہ چلا تو فرمایا: مجھے تو اس وقت ہی یقین ہو گیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے ڈھیروں کے گرد چکر لگایا کہ اللہ تعالیٰ ان میں ضرور برکت دے گا۔’’بہر حال اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ آپ کی دعا سے ان میں اس قدر برکت ہوئی کہ قرض بھی ادا ہو گیا پھر گھر کی گزر اوقات کے لیے کھجوریں بھی بچ گئیں۔‘‘(فتح الباري:726/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عامر نے ، کہا کہ مجھ سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ ان کے والد ( عبداللہ بن عمرو بن حرام ، جنگ احد میں ) شہید ہوگئے تھے ۔ اور وہ مقروض تھے ۔ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میرے والد اپنے اوپر قرض چھوڑگئے ۔ ادھر میرے پاس سوا اس پیداوار کے جو کھجوروں سے ہوگی اور کچھ نہیں ہے اور اس کی پیداوار سے تو برسوں میں قرض ادا نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیے تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر زیادہ منہ نہ پھاڑیں ۔ آپ تشریف لائے ( لیکن وہ نہیں مانے) تو آپ کھجور کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے پہلے ان میں سے ایک کے چاروں طرف چلے اور دعا کی ۔ اسی طرح دوسرے ڈھیر کے بھی ۔ پھر آپ اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کھجوریں نکال کر انہیں دو ۔ چنانچہ ساراقرض ادا ہوگیا اور جتنی کھجوریں قرض میں دی تھیں اتنی ہی بچ گئیں ۔
حدیث حاشیہ:
آپ کی دعائے مبارک سے کھجوروں میں برکت ہوگئی۔ باب اور حدیث میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): My father had died in debt. So I came to the Prophet (ﷺ) and said, "My father (died) leaving unpaid debts, and I have nothing except the yield of his date palms; and their yield for many years will not cover his debts. So please come with me, so that the creditors may not misbehave with me." The Prophet (ﷺ) went round one of the heaps of dates and invoked (Allah), and then did the same with another heap and sat on it and said, "Measure (for them)." He paid them their rights and what remained was as much as had been paid to them.