Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3581.
حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ بہت نادار اور مفلس لوگ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو ساتھ لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہووہ پانچویں چھٹے کو ساتھ لے جائے۔ ‘‘یااسی طرح آپ نے کچھ فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے ساتھ تین ہمان لے آئے جبکہ نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس مہمانوں کو لے کر گئے۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ گھر کے افراد سے تین آدمی زائد لائے تھے کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری والدہ وغیرہ تھے۔ (راوی کہتا ہے کہ) مجھے یاد نہیں کہ اس(عبدالرحمان ؓ ) نے بیوی بھی کہا تھا یا نہیں۔ ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر میں کام کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کاکھانا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھایا، پھر کچھ وقت وہاں ٹھہرے اور نماز عشاء وہیں ادا کی حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کا کھانا تناول فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ جب کافی رات گزارنے کے بعد گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی نے کہا: آپ کو مہمانوں کا خیال نہ رہا تھا، کیابات تھی؟(حضرت ابوبکر ؓ نے)فرمایا: کیا آپ نے مہمانوں کو ابھی تک کھانا نہیں کھلایا؟بیوی نے عرض کیا: مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا، ہم نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں تو وہاں سے کسی دوسری جگہ چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے(غصے میں آکر) کہا: اے کم عقل!اور مجھے بہت بُرا بھلاکہا، پھر مہمانوں سے کہا: کھانا کھاؤ۔ میں تو اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ حضرت عبدالرحمان ؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! ہم اس کھانے سے جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے وہ نیچے سے بڑھ کرپہلے سے زیادہ ہوجاتا تھا حتیٰ کہ سب لوگوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا لیکن کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ حضرت ابوبکر نے بغور ملاحظہ کیا تو کھانا جوں کا توں یا پہلے سے بھی زیادہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیوی سے کہا: بنو بنی فراس کی بہن!یہ کیا معاملہ ہے؟انھوں نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک!یہ تو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے، تاہم حضرت ابوبکر نے اس سے کھایا اور فرمایا کہ ان کی وہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر انھوں نے دوبارہ اس میں سے کئی لقمے تناول فرمائے۔ بعد ازاں اسے اٹھا کرنبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے جو صبح کے وقت تک آپ کے پاس رہا۔ اتفاق سے ہمارے اور لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ میعاد ختم ہونے پروہ لوگ آئے۔ ہم نے ان میں سے بارہ نمائندوں کا انتخاب کیا اور ہر نمائندے کے ساتھ کئی کئی آدمی تھے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ بہرحال آپ ﷺ نے یہ کھانا ان کے پاس بھی بھیجا اور تمام لوگوں نے اس سے کھانا کھایا یا عبدالرحمان نے کچھ ایساہی کہا۔
تشریح:
1۔اصحاب صفہ مسجد کے آخری حصے میں رہا کرتے تھے جونادار لوگوں کے لیے تیار کیا گیا تھا جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ یا مکان نہ تھا اور ان کا وہاں اہل و عیال بھی نہ ہوتا تھا ان میں سے کسی کی شادی ہو جانے فوت ہو جانے یا سفر پر جانے کی صورت میں یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے وہ لوگوں کے مہمان تھے اور رسول اللہ ﷺ سے علمی فائدہ حاصل کرتے تھے ۔2۔اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے مگر اولیاء کی کرامت بھی داصل ان کے پیغمبر کا معجزہ ہوتی ہے کیونکہ رسول کی فرمانبرداری کے نتیجے میں انھیں کرامت کا اعزاز ملتا ہے عنوان معجزات اور کرامات دونوں کو شامل ہے بعض شارحین نے اعتراض کیا ہے کہ عنوان علامات نبوت کا ہے جبکہ اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے اس لیے یہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں لیکن اس عتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کھانے میں پوری برکت تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کے بعد ہوئی اس لیے اس کھانے کو تمام لشکر نے کھایا اور سب اس سے سیر ہو گئے اگرچہ اس برکت کی ابتدا حضرت ابو بکر ؓ کے گھر سے ہوئی تھی۔ اس طرح یہ حدیث معجزہ اور کرامت دونوں پر مشتمل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3448
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3581
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3581
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3581
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ بہت نادار اور مفلس لوگ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو ساتھ لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہووہ پانچویں چھٹے کو ساتھ لے جائے۔ ‘‘یااسی طرح آپ نے کچھ فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے ساتھ تین ہمان لے آئے جبکہ نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس مہمانوں کو لے کر گئے۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ گھر کے افراد سے تین آدمی زائد لائے تھے کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری والدہ وغیرہ تھے۔ (راوی کہتا ہے کہ) مجھے یاد نہیں کہ اس(عبدالرحمان ؓ ) نے بیوی بھی کہا تھا یا نہیں۔ ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر میں کام کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کاکھانا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھایا، پھر کچھ وقت وہاں ٹھہرے اور نماز عشاء وہیں ادا کی حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کا کھانا تناول فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ جب کافی رات گزارنے کے بعد گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی نے کہا: آپ کو مہمانوں کا خیال نہ رہا تھا، کیابات تھی؟(حضرت ابوبکر ؓ نے)فرمایا: کیا آپ نے مہمانوں کو ابھی تک کھانا نہیں کھلایا؟بیوی نے عرض کیا: مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا، ہم نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں تو وہاں سے کسی دوسری جگہ چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے(غصے میں آکر) کہا: اے کم عقل!اور مجھے بہت بُرا بھلاکہا، پھر مہمانوں سے کہا: کھانا کھاؤ۔ میں تو اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ حضرت عبدالرحمان ؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! ہم اس کھانے سے جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے وہ نیچے سے بڑھ کرپہلے سے زیادہ ہوجاتا تھا حتیٰ کہ سب لوگوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا لیکن کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ حضرت ابوبکر نے بغور ملاحظہ کیا تو کھانا جوں کا توں یا پہلے سے بھی زیادہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیوی سے کہا: بنو بنی فراس کی بہن!یہ کیا معاملہ ہے؟انھوں نے کہا: میری آنکھ کی ٹھنڈک!یہ تو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے، تاہم حضرت ابوبکر نے اس سے کھایا اور فرمایا کہ ان کی وہ قسم شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر انھوں نے دوبارہ اس میں سے کئی لقمے تناول فرمائے۔ بعد ازاں اسے اٹھا کرنبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے جو صبح کے وقت تک آپ کے پاس رہا۔ اتفاق سے ہمارے اور لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ میعاد ختم ہونے پروہ لوگ آئے۔ ہم نے ان میں سے بارہ نمائندوں کا انتخاب کیا اور ہر نمائندے کے ساتھ کئی کئی آدمی تھے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ بہرحال آپ ﷺ نے یہ کھانا ان کے پاس بھی بھیجا اور تمام لوگوں نے اس سے کھانا کھایا یا عبدالرحمان نے کچھ ایساہی کہا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اصحاب صفہ مسجد کے آخری حصے میں رہا کرتے تھے جونادار لوگوں کے لیے تیار کیا گیا تھا جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ یا مکان نہ تھا اور ان کا وہاں اہل و عیال بھی نہ ہوتا تھا ان میں سے کسی کی شادی ہو جانے فوت ہو جانے یا سفر پر جانے کی صورت میں یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے وہ لوگوں کے مہمان تھے اور رسول اللہ ﷺ سے علمی فائدہ حاصل کرتے تھے ۔2۔اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے مگر اولیاء کی کرامت بھی داصل ان کے پیغمبر کا معجزہ ہوتی ہے کیونکہ رسول کی فرمانبرداری کے نتیجے میں انھیں کرامت کا اعزاز ملتا ہے عنوان معجزات اور کرامات دونوں کو شامل ہے بعض شارحین نے اعتراض کیا ہے کہ عنوان علامات نبوت کا ہے جبکہ اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے اس لیے یہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں لیکن اس عتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کھانے میں پوری برکت تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کے بعد ہوئی اس لیے اس کھانے کو تمام لشکر نے کھایا اور سب اس سے سیر ہو گئے اگرچہ اس برکت کی ابتدا حضرت ابو بکر ؓ کے گھر سے ہوئی تھی۔ اس طرح یہ حدیث معجزہ اور کرامت دونوں پر مشتمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد سلیمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے ، اور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دوآدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے اسی طرح کچھ فرمایا ( راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے ) خیر تو ابوبکر ؓ تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور آنحضرت ﷺ اپنے ساتھ دس اصحاب کو لے گئے اور گھر میں میں تھا اور میرے ماں باپ تھے ۔ ابوعثمان نے کہا مجھ کو یاد نہیں عبدالرحمن نے یہ بھی کہا ، اور میری عورت اور خادم جو میرے اور ابوبکر ؓ دونوں کے گھروں میںکام کرتا تھا ۔ لیکن خود ابوبکر ؓ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھانا کھایا اور عشاءکی نماز تک وہاں ٹھہرے رہے ( مہمانوں کو پہلے ہی بھیج چکے تھے ) اس لیے انہیں اتنا ٹھہر نا پڑا کہ آنحضرت ﷺ نے کھانا کھالیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ کو جتنا منظور تھا اتنا حصہ رات کا جب گزرگیا تو آپ گھر واپس آئے ۔ ان کی بیوی نے ان سے کہا ، کیا بات ہوئی ۔ آپ کو اپنے مہمان یا د نہیں رہے ؟ انہوں نے پوچھا : کیا مہمانوں کو اب تک کھانا نہیں کھلایا ؟ بیوی نے کہا کہ مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کیا ۔ ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تھا لیکن وہ نہیں مانے ۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں تو جلدی سے چھپ گیا (کیونکہ ابوبکر غصہ ہوگئے تھے) آپ نے ڈانٹا ، اے پاجی ! اور بہت برابھلا کہا ، پھر ( مہمانوں سے ) کہا چلو اب کھاؤ اور خود قسم کھالی کہ میں تو کبھی نہ کھاؤں گا ۔ عبدالرحمن ؓ نے بیان کیا کہ خدا کی قسم ، پھر ہم جو لقمہ بھی (اس کھانے میں سے) اٹھاتے تو جیسے نیچے سے کھانا اور زیادہ ہوجاتا تھا ( اتنی اس میں برکت ہوئی ) سب لوگوں نے شکم سیر ہوکر کھایا اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا ۔ ابوبکر ؓ نے جو دیکھا تو کھانا جوں کا توں تھا یا پہلے سے بھی زیادہ ۔ اس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا ، اے بنی فراس کی بہن ( دیکھوتو یہ کیا معاملہ ہوا ) انہوں نے کہا ، کچھ بھی نہیں ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم ، کھانا توپہلے سے تین گنازیادہ معلوم ہوتا ہے ، پھروہ کھانا ابوبکر ؓ نے بھی کھایا اور فرمایا کہ یہ میرا قسم کھانا تو شیطان کا اغوا تھا ۔ ایک لقمہ کھاکر اسے آپ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے گئے وہاں وہ صبح تک رکھا رہا ۔ اتفاق سے ایک کافر قوم جس کا ہم مسلمانوں سے معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہوچکی تھی ۔ ان سے لڑنے کے لیے فوج جمع کی گئی ۔ پھر ہم بارہ ٹکڑیاں ہوگئے اور ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے خدا معلوم مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ آپ نے ان نقیبوں کو لشکروالوں کے ساتھ بھیجا ۔ حاصل یہ کہ فوج والوں نے اس میں سے کھایا ۔ یا عبدالرحمن نے کچھ ایسا ہی کہا ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر ؓ کی اس بیوی کو ام رومان کہاجاتا تھا۔ ام رومان فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ کی اولاد میں سے تھیں عرب کے محاورہ میں جو کوئی کسی قبیلے سے ہوتا ہے اس کو اس کا بھائی کہتے ہیں۔ اس حدیث میں بھی آپ کے ایک عظیم معجزہ کا ذکر ہے۔ یہی مطابقت باب ہے، اس حدیث کے ذیل میں مولانا وحید الزماں مرحوم لکھتے ہیں ، ہوا یہ ہوگا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کو کھانا آنحضرت ﷺ کے گھر کھالیا ہوگا مگر آنحضرت ﷺ نے نہ کھایا ہوگا۔ عشاءکے بعد آپ نے کھایاہوگا۔ اس حدیث کے ترجمہ میں بہت اشکال ہے اور بڑی مشکل سے معنی جمتے ہیں ورنہ تکرار بے فائدہ لازم آتی ہے اور ممکن ہے راوی نے الفاظ میں غلطی کی ہو۔ چنانچہ مسلم کی روایت میں دوسرے لفظ تعشی کے بدل حتی نعس ہے یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس اتنا ٹھہرے کہ آپ اونگھنے لگے۔ قاضی عیاض نے کہا یہی ٹھیک ہے۔ بعض راویوں نے فتفرقنا اثنا عشر رجلا نقل کیا ہے، جس کے مطابق یہاں ترجمہ کیا گیا اور بعض نسخوں میں ففرقنا یعنی ہماری بارہ ٹکڑیاں ہوگئیں۔ ہرٹکڑی ایک آدمی کے تحت میں تھی۔ بعض نسخوں میں یوں ہے کہ بارہ آدمیوں کو مسلمانوں نے نقیب بنایا۔ بعض میں فقرینا ہے۔ یعنی ہم نے بارہ آدمیوں کی ضیافت کی۔ ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس حدیث شریف میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی کرامت مذکور ہے مگر اولیاءاللہ کی کرامت ان کے پیغمبروں کا معجزہ ہے کیونکہ پیغمبرہی کی تابعداری کی برکت سے انکو یہ درجہ ملاہے۔ اس لیے باب کا مطلب حاصل ہوگیا۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdur-Rahman bin Abi Bakr (RA): The companions of Suffa were poor people. The Prophet (ﷺ) once said, "Whoever has food enough for two persons, should take a third one (from among them), and whoever has food enough for four persons, should take a fifth or a sixth (or said something similar)." Abu Bakr (RA) brought three persons while the Prophet (ﷺ) took ten. And Abu Bakr (RA) with his three family member (who were I, my father and my mother) (the sub-narrator is in doubt whether 'Abdur-Rahman said, "My wife and my servant who was common for both my house and Abu Bakr's house.") Abu Bakr (RA) took his supper with the Prophet (ﷺ) and stayed there till he offered the 'Isha' prayers. He returned and stayed till Allah's Apostle (ﷺ) took his supper. After a part of the night had passed, he returned to his house. His wife said to him, "What has detained you from your guests?" He said, "Have you served supper to them?" She said, "They refused to take supper) until you come. They (i.e. some members of the household) presented the meal to them but they refused (to eat)" I went to hide myself and he said, "O Ghunthar!" He invoked Allah to cause my ears to be cut and he rebuked me. He then said (to them): Please eat!" and added, I will never eat the meal." By Allah, whenever we took a handful of the meal, the meal grew from underneath more than that handful till everybody ate to his satisfaction; yet the remaining food was more than the original meal. Abu Bakr (RA) saw that the food was as much or more than the original amount. He called his wife, "O sister of Bani Firas!" She said, "O pleasure of my eyes. The food has been tripled in quantity." Abu Bakr (RA) then started eating thereof and said, "It (i.e. my oath not to eat) was because of Sa all." He took a handful from it, and carried the rest to the Prophet. SO that food was with the Prophet (ﷺ) . There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed, he divided US into twelve groups, each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each leader. Anyhow, the Prophet (ﷺ) surely sent a leader with each group. Then all of them ate of that meal.