Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The signs of Prophethood in Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3606.
حضرت حذیفہ بن یمان ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شرکے متعلق سوال کرتا تھا، اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا میں اس کا شکار ہو جاؤں، چنانچہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم جاہلیت اور شرکے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس خیرو برکت سے سر فراز فرمایا۔ کیا اب اس خیر کے بعد پھر کوئی شرکا وقت آئے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اس شرکے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، لیکن اس خیر میں کچھ دھواں ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کیا: وہ ھواں کیا ہو گا؟آپ نے جواب دیا۔ ’’ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ تم ان میں اچھی اور بری چیز یں دیکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: آیا اس خیر کے بعد پھر شرکاکوئی زمانہ آئے گا؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جہنم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی بات مانیں گے وہ ان کو جہنم میں جھونک دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ ہمارے لیے ان کے کچھ اوصاف بیان فرمادیں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ لوگ ہماری ہی قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ’’تم ایسے حالات میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔‘‘ میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہواور ان کا کوئی امام ہی ہو تو؟آپ نے فرمایا: ’’پھر تم ان تمام فرقوں سے الگ رہو اگر چہ تمھیں کسی درخت کی جڑ ہی چبانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تمھیں موت آجائے۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی کئی ایک پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن کی ہم کتاب الفتن میں وضاحت کریں گے۔2۔اس حدیث میں کسی نئی جماعت بنانے کا قطعی طور پر کوئی اشارہ نہیں ہے جیسا کہ لوگوں نے ایک جماعت المسلمین بنا ڈالی ہے بلکہ اس میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے اور ان کے امام کی اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی اس جماعت سے علیحدہ رہے گا تو وہ شیطان کے نرغے میں آجائے گا نیز اس حدیث میں جماعت المسلمین سے مراد اہل اسلام کی حکومت اور امام سے مراد ان کا خلیفہ ہے چنانچہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔’’اگر ان دنوں کوئی خلیفہ زمین میں موجود ہوتو اسے لازم پکڑنا اگرچہ وہ تجھے مار مار کر تیرا جسم نڈھال کردے اور تیرا مال بھی چھین لے اور اگر کوئی خلیفہ نہ ہو تو زمین میں بھاگ کھڑا ہونا اور کسی درخت کو پناہ گاہ بنا کروہیں موت سے ہمکنار ہوجانا۔‘‘ (مسند أحمد:403/5)اس حدیث میں خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین بنانے کاحکم نہیں بلکہ وہاں سے بھاگ جانے کا حکم ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔’’اگر حکومت نہ ہو تو معاملے کی کیا صورت ہو گی۔؟‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر ؒ اس کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک خلیفہ پر اجماع سے پہلے اختلاف کی حالت مین ایک مسلمان کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔(فتح الباري:35/13)اس میں کسی جماعت المسلمین کا ذکر نہیں جس کے پاس کسی قسم کا اختیار نہ ہو بلکہ نئی جماعت خود اپنے تحفظات کے لیے حکومت وقت کی محتاج ہے کیونکہ انھوں نے درخواست دے کر خود رجسٹرڈ کرایا ہے۔ واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3471
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3606
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3606
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3606
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
معجزہ،نبوت کی علامت ہوتا ہے ۔مقام رسالت کو سمجھنے کے لیے اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر لانے سے کفار قریش عاجز رہے،تاہم اس کے علاوہ معجزات نبوی کی فہرست بہت طویل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت بہت سی احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث میں کسی نہ کسی معجزے کا بیان ہے۔ان میں کچھ خرق عادت ہیں اور کچھ کا تعلق آئندہ آنے والے واقعات سے ہے جنھیں ہم پیش گوئیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ حرف بہ حرف ٹھیک ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں،البتہ واقعات پر جزم ووثوق کے ساتھ ان کی تطبیق انتہائی غوروخوض کاتقاضا کرتی ہے۔واللہ المستعان۔
حضرت حذیفہ بن یمان ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شرکے متعلق سوال کرتا تھا، اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا میں اس کا شکار ہو جاؤں، چنانچہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم جاہلیت اور شرکے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس خیرو برکت سے سر فراز فرمایا۔ کیا اب اس خیر کے بعد پھر کوئی شرکا وقت آئے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اس شرکے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، لیکن اس خیر میں کچھ دھواں ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کیا: وہ ھواں کیا ہو گا؟آپ نے جواب دیا۔ ’’ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ تم ان میں اچھی اور بری چیز یں دیکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: آیا اس خیر کے بعد پھر شرکاکوئی زمانہ آئے گا؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جہنم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے۔ جو ان کی بات مانیں گے وہ ان کو جہنم میں جھونک دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ ہمارے لیے ان کے کچھ اوصاف بیان فرمادیں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ لوگ ہماری ہی قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ’’تم ایسے حالات میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔‘‘ میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہواور ان کا کوئی امام ہی ہو تو؟آپ نے فرمایا: ’’پھر تم ان تمام فرقوں سے الگ رہو اگر چہ تمھیں کسی درخت کی جڑ ہی چبانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تمھیں موت آجائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی کئی ایک پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن کی ہم کتاب الفتن میں وضاحت کریں گے۔2۔اس حدیث میں کسی نئی جماعت بنانے کا قطعی طور پر کوئی اشارہ نہیں ہے جیسا کہ لوگوں نے ایک جماعت المسلمین بنا ڈالی ہے بلکہ اس میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے اور ان کے امام کی اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی اس جماعت سے علیحدہ رہے گا تو وہ شیطان کے نرغے میں آجائے گا نیز اس حدیث میں جماعت المسلمین سے مراد اہل اسلام کی حکومت اور امام سے مراد ان کا خلیفہ ہے چنانچہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔’’اگر ان دنوں کوئی خلیفہ زمین میں موجود ہوتو اسے لازم پکڑنا اگرچہ وہ تجھے مار مار کر تیرا جسم نڈھال کردے اور تیرا مال بھی چھین لے اور اگر کوئی خلیفہ نہ ہو تو زمین میں بھاگ کھڑا ہونا اور کسی درخت کو پناہ گاہ بنا کروہیں موت سے ہمکنار ہوجانا۔‘‘ (مسند أحمد:403/5)اس حدیث میں خلیفہ نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین بنانے کاحکم نہیں بلکہ وہاں سے بھاگ جانے کا حکم ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔’’اگر حکومت نہ ہو تو معاملے کی کیا صورت ہو گی۔؟‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر ؒ اس کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک خلیفہ پر اجماع سے پہلے اختلاف کی حالت مین ایک مسلمان کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔(فتح الباري:35/13)اس میں کسی جماعت المسلمین کا ذکر نہیں جس کے پاس کسی قسم کا اختیار نہ ہو بلکہ نئی جماعت خود اپنے تحفظات کے لیے حکومت وقت کی محتاج ہے کیونکہ انھوں نے درخواست دے کر خود رجسٹرڈ کرایا ہے۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابن جابر نے ، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبید اللہ حضرمی نے ، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا ، انہوں نے حذیفہ بن یمان ؓ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں ۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ سے سوال کیا ، یار سول اللہ ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر وبرکت ( اسلام کی) عطافرمائی ، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ، میں نے سوال کیا ، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہوگا ۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے ۔ ان میں کوئی بات اچھی ہوگی کوئی بری ۔ میں نے سوال کیا : کیا اس خیر کے بعد پھر شر کاکوئی زمانہ آئے گا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیداہوں گے ، جوان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کے اوصاف بھی بیان فرمادیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم ومذہب کے ہوں گے ۔ ہماری ہی زبان بولیں گے ۔ میں نے عرض کیا : پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا ، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو ۔ آپ نے فرمایا : پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا ۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے ، یہاں تک کہ تیری موت آجائے اور تو اسی حالت پر ہو ( تو یہ تیرے حق میں ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہوگا ۔ )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa bin Al-Yaman (RA): The people used to ask Allah's Apostle (ﷺ) about good, but I used to ask him about evil for fear that it might overtake me. Once I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We were in ignorance and in evil and Allah has bestowed upon us the present good; will there by any evil after this good?" He said, "Yes." I asked, "Will there be good after that evil?" He said, "Yes, but it would be tained with Dakhan (i.e. Little evil)." I asked, "What will its Dakhan be?" He said, "There will be some people who will lead (people) according to principles other than my tradition. You will see their actions and disapprove of them." I said, "Will there by any evil after that good?" He said, "Yes, there will be some people who will invite others to the doors of Hell, and whoever accepts their invitation to it will be thrown in it (by them)." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Describe those people to us." He said, "They will belong to us and speak our language" I asked, "What do you order me to do if such a thing should take place in my life?" He said, "Adhere to the group of Muslims and their Chief." I asked, "If there is neither a group (of Muslims) nor a chief (what shall I do)?" He said, "Keep away from all those different sects, even if you had to bite (i.e. eat) the root of a tree, till you meet Allah while you are still in that state."