باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3665.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص تکبر کی نیت سے اپنا کپڑا نیچے لٹکاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ گویاہوئے: میرے کپڑے کا ایک گوشہ لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اس کا خوب اہتمام کروں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’تم ایسا بطور تکبر نہیں کرتے ہو۔‘‘ راوی حدیث موسیٰ نے سالم بن عبداللہ سے کہا: کہا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے تہ بند لٹکانے کا ذکر کیا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ میں نے انھیں صرف کپڑے کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ راوی حدیث محارب سے سوال ہوا کہ آپ نے ازار کا ذکر کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ چادر یا قمیص کو خاص نہیں بلکہ عام کپڑے کا ذکر کیا تھا۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5791) البتہ احضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ازار کا ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5788) 2۔ حدیث میں ایک کونے سے مراد پچھلی جانب ہے کیونکہ جب سرین موٹے ہوں تو چادر کا پچھلا کنارہ رک جاتا ہے اور جب سرین ہلکے پھلکے ہوں تو چادر کو جہاں انسان باندھنا اور روکنا چاہتا ہے وہاں چادر رک نہیں سکتی بلکہ اس جگہ سے نیچے ڈھلک جاتی ہے۔ چونکہ ابو بکر ؓ لاغر و نحیف جسم والے تھے اس بنا پر کمر میں کچھ جھکاؤں بھی تھا کوشش کے باجود بعض اوقات آپ کی چادر ٹخنوں سے نیچے ہوجاتی تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مستثنیٰ قراردیا ہے۔اس سے چادر کی اگلی جانب بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ پیٹ بڑھا ہوا ہو تو چادر کا اپنی جگہ پر رکنا ممکن نہیں رہتا۔بعض روایات میں آپ کے متعلق ہے کہ آپ کا پیٹ بڑھا ہوا تھا لیکن یہ خلاف معروف ہے پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ 3۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق گواہی دی ہے کہ وہ ایسا فعل نہیں کرتے جو شرعاً مکروہ ہو، ویسے حالات میں انسان وعید شدید کی زد میں نہیں آتا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3528
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3665
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3665
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3665
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص تکبر کی نیت سے اپنا کپڑا نیچے لٹکاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ گویاہوئے: میرے کپڑے کا ایک گوشہ لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اس کا خوب اہتمام کروں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’تم ایسا بطور تکبر نہیں کرتے ہو۔‘‘ راوی حدیث موسیٰ نے سالم بن عبداللہ سے کہا: کہا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے تہ بند لٹکانے کا ذکر کیا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ میں نے انھیں صرف کپڑے کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ راوی حدیث محارب سے سوال ہوا کہ آپ نے ازار کا ذکر کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ چادر یا قمیص کو خاص نہیں بلکہ عام کپڑے کا ذکر کیا تھا۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5791) البتہ احضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ازار کا ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5788) 2۔ حدیث میں ایک کونے سے مراد پچھلی جانب ہے کیونکہ جب سرین موٹے ہوں تو چادر کا پچھلا کنارہ رک جاتا ہے اور جب سرین ہلکے پھلکے ہوں تو چادر کو جہاں انسان باندھنا اور روکنا چاہتا ہے وہاں چادر رک نہیں سکتی بلکہ اس جگہ سے نیچے ڈھلک جاتی ہے۔ چونکہ ابو بکر ؓ لاغر و نحیف جسم والے تھے اس بنا پر کمر میں کچھ جھکاؤں بھی تھا کوشش کے باجود بعض اوقات آپ کی چادر ٹخنوں سے نیچے ہوجاتی تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مستثنیٰ قراردیا ہے۔اس سے چادر کی اگلی جانب بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ پیٹ بڑھا ہوا ہو تو چادر کا اپنی جگہ پر رکنا ممکن نہیں رہتا۔بعض روایات میں آپ کے متعلق ہے کہ آپ کا پیٹ بڑھا ہوا تھا لیکن یہ خلاف معروف ہے پہلی توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ 3۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق گواہی دی ہے کہ وہ ایسا فعل نہیں کرتے جو شرعاً مکروہ ہو، ویسے حالات میں انسان وعید شدید کی زد میں نہیں آتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی ، کہا ہم کو موسیٰ بن عقبہ نے خبردی ، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا کپڑا (پاجامہ یا تہبند وغیرہ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا کہ میرے کپڑے کا ایک حصہ لٹک جایا کرتا ہے ۔ البتہ اگر میں پوری طرح خیال رکھوں تووہ نہیں لٹک سکے گا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آپ تو ایسا تکبر کے خیال سے نہیں کرتے ( اس لیے آپ اس حکم میں داخل نہیں ہیں) موسیٰ نے کہا کہ میں نے سالم سے پوچھا ، کیا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس حدیث میں یہ فرمایاتھا کہ جو اپنی ازار کو گھسیٹتے ہوئے چلے ، تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو ان سے یہی سنا کہ جو کوئی اپنا کپڑا لٹکائے ۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ '' إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ'' اگر کوئی اپنی ازار ٹخنے سے اونچی بھی رکھے اور مغرور ہوتو اس کی تباہی یقینی ہے ۔ اگر بلا قصد اور بلانیت غرور لٹک جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہ ہوگا۔ یہ ہر کپڑے کو شامل ہے۔ ازار ہویا پاجامہ یا کرتہ کی آستین بہت بڑی بڑی رکھنا ، اگر غرور کی راہ سے ایسا کرے تو سخت گناہ اور حرام ہے۔ آج کے دور میں ازراہ کبر وغرور کو ٹ پتلون اس طرح پہننے والے اسی وعید میں داخل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): That Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah will not look on the Day of Judgment at him who drags his robe (behind him) out of pride." Abu Bakr (RA) said "One side of my robe slacks down unless I get very cautious about it." Allah's Apostle (ﷺ) said, "But you do not do that with a pride."