باب: حضرت ابو حفص عمر بن خطاب قرشی عدویؓ کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of 'Umar bin Al-Khattab رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3683.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ بہت اصرارکے ساتھ نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ایسے حالات میں ان کی آوازیں آپ ﷺ کی آوازی سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرت عمر ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اجازت دی، جب حضرت عمر ؓ اندر آئے تو رسول اللہ ﷺ مسکرارہے تھے۔ حضرت عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ آپ کے دندان مقدسہ کو ہمیشہ ہنستا رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ان عورتوں پر ہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں لیکن جب انھوں نے تمھاری آواز سنی تو جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔‘‘ عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپ سے ڈریں۔ پھرانھوں نے عورتوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے اپنے آپ کی دشمنو!تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ﷺ سے نہیں ڈرتیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب !اب آپ اس موضوع کو ختم کریں۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگرشیطان کسی راہ پر آپ کو چلتا دیکھ لے تو وہ اپنا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ ان سے شیطان بھی ڈرتا ہے حتی کہ وہ حضرت عمر ؓ کو کسی راستے میں دیکھ کراپنا راستہ بدل لیتا ہے،یعنی خود شیطان بھی ان سے بہت ہبیت زدہ اور ہراساں ہے۔2۔حضرت عمر ؓ کو عورتوں کا ہیبت زدہ ہونا اسی طرح معلوم ہوا کہ وہ جلدی سےصرف آواز ہی سن کر پردے میں چلی گئیں،اگرصرف پردہ ہی مقصود تھا تو وہاں بیٹھی بیٹھی اپنی چادروں سے پردہ کرسکتی تھیں۔اس کے علاوہ کچھ عورتیں حضرت عمر کی محارم تھیں جیسا کہ حضر ت حفصہ ؓہیں،ان سب کا پردے میں چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب حضرت عمر ؓ سے ہبیت زدہ تھیں اور آپ سے ڈرتی تھیں۔صرف پردہ کرنے کے لیے ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نہیں اٹھی تھیں۔3۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے کردار پر اس لیے تعجب کیا کہ انھوں نے جلد بازی سے کام لیا اور اس امر کا انتظار نہیں کیا کہ حضرت عمر ؓکو اندر آنے کی اجازت ملتی ہے یا نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3544
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3683
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3683
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3683
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمرؓ کی بڑی بیٹی تھیں۔اس بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوحفص رکھی۔آپ کو فاروق ؓ کا لقب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔آپ سیاست،حسن تدبیر اور ملکی انتظام میں اپنا ہم پلہ نہیں رکھتے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مناقب میں "مشتے نمونہ ازخروارے" کے طورپر سولہ احادیث کا انتخاب کیا ہے۔آپ کے فضائل ومناقب پر دنیا کی بیشتر زبانوں میں کافی کتابیں لکھی گئی ہیں۔
حضرت عمر ؓ کا نسب نامہ یہ ہے : عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب۔ تو وہ کعب میں آنحضرت ﷺ کے نسب سے مل جاتے ہیں، ان کا لقب فاروق تھا جو آنحضرت ﷺ نے دیا تھا۔ بعض نے کہا حضرت جبرئیل ؑ یہ لقب لے کر آئے تھے۔ غرض عدالت اور علم، سیاست مدن اور حسن تدبیر اور انتظام ملکی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے، ان کی سیرۃ طیبہ پر دنیا کی بیشتر زبانوں میں مطول اور مختصر کافی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کے مناقب سے متعلق یہاں جو کچھ مذکور ہے وہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ بہت اصرارکے ساتھ نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ایسے حالات میں ان کی آوازیں آپ ﷺ کی آوازی سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرت عمر ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اجازت دی، جب حضرت عمر ؓ اندر آئے تو رسول اللہ ﷺ مسکرارہے تھے۔ حضرت عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ آپ کے دندان مقدسہ کو ہمیشہ ہنستا رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ان عورتوں پر ہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں لیکن جب انھوں نے تمھاری آواز سنی تو جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔‘‘ عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپ سے ڈریں۔ پھرانھوں نے عورتوں سے مخاطب ہو کر کہا: اے اپنے آپ کی دشمنو!تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ ﷺ سے نہیں ڈرتیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب !اب آپ اس موضوع کو ختم کریں۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگرشیطان کسی راہ پر آپ کو چلتا دیکھ لے تو وہ اپنا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ ان سے شیطان بھی ڈرتا ہے حتی کہ وہ حضرت عمر ؓ کو کسی راستے میں دیکھ کراپنا راستہ بدل لیتا ہے،یعنی خود شیطان بھی ان سے بہت ہبیت زدہ اور ہراساں ہے۔2۔حضرت عمر ؓ کو عورتوں کا ہیبت زدہ ہونا اسی طرح معلوم ہوا کہ وہ جلدی سےصرف آواز ہی سن کر پردے میں چلی گئیں،اگرصرف پردہ ہی مقصود تھا تو وہاں بیٹھی بیٹھی اپنی چادروں سے پردہ کرسکتی تھیں۔اس کے علاوہ کچھ عورتیں حضرت عمر کی محارم تھیں جیسا کہ حضر ت حفصہ ؓہیں،ان سب کا پردے میں چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب حضرت عمر ؓ سے ہبیت زدہ تھیں اور آپ سے ڈرتی تھیں۔صرف پردہ کرنے کے لیے ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نہیں اٹھی تھیں۔3۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے کردار پر اس لیے تعجب کیا کہ انھوں نے جلد بازی سے کام لیا اور اس امر کا انتظار نہیں کیا کہ حضرت عمر ؓکو اندر آنے کی اجازت ملتی ہے یا نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ان سے صالح نے ، ان سے ابن شہاب نے ، کہا مجھ کو عبدالحمید بن عبدالرحمن نے خبردی ، انہیں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے خبردی اور ان سے ان کے والد ( حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ) نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہاہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید نے ، ان سے محمد بن سعدبن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں ( امہات المومین میں سے ) بیٹھی باتیں کررہی تھیں اور آپ کی آوازپر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان ونفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کررہی تھیں ، جوں ہی حضرت عمر ؓ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہوکر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں ۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اجازت دی اوروہ داخل ہوئے تو آنحضرت ﷺ مسکرارہے تھے ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔ آپ نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پرہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ڈرناتو انہیں آپ سے چاہیے تھا ۔ پھرانہوں نے ( عورتوں سے ) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو ! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور حضور اکرم ﷺ سے نہیں ڈرتیں ، عورتوں نے کہاکہ ہاں ، آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے ۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے دعا فرمائی تھی یا اللہ ! اسلام کو عمر یا پھر ابوجہل کے اسلام سے عزت عطاکر۔ اللہ نے حضرت عمر ؓ کے حق میں آپ کی دعا قبول فرمائی۔ جن کے مسلمان ہونے پر مسلمان کعبہ میں اعلانیہ نماز پڑھنے لگے اور تبلیغ اسلام کے لیے راستہ کھل گیا۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ مشہور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad bin Abi Waqqas (RA): Umar bin Al-Khattab (RA) asked the permission of Allah's Apostle (ﷺ) to see him while some Quraishi women were sitting with him, talking to him and asking him for more expenses, raising their voices above the voice of Allah's Apostle. When 'Umar asked for the permission to enter, the women quickly put on their veils. Allah'› Apostle (ﷺ) allowed him to enter and 'Umar came in while Allah's Apostle (ﷺ) was smiling, 'Umar said "O Allah's Apostle (ﷺ) ! May Allah always keep you smiling." The Prophet (ﷺ) said, "These women who have been here, roused my wonder, for as soon as they heard your voice, they quickly put on their veils. "'Umar said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You have more right to be feared by them than I." Then 'Umar addressed the women saying, "O enemies of yourselves! You fear me more than you do Allah's Apostle (ﷺ) ?" They said, "Yes, for you are harsher and sterner than Allah's Apostle." Then Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Ibn Al-Khattab! By Him in Whose Hands my life is! Never does Satan find you going on a way, but he takes another way other than yours."