باب: ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی ؓکے فضائل کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The merits of 'Ali bin Abi Talib رضي الله عنه)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا حضرت علی ؓسے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓسے کہا کہ رسول اللہ ﷺاپنی وفات تک ان سے راضی تھے ۔تشریح: امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوالتراب ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، اور غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ یہ گندمی رنگ والے ، بڑی روشن، خوبصورت آنکھوں والے تھے، طویل القامت نہ تھے، داڑھی بہت بھری ہوئی تھی۔ آخر میں سر اور داڑھی ہردو کے بال سفید ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے دن جمعہ کو 18 ذی الحجہ 35 ھ میں تاج خلافت ان کے سرپر رکھا گیا اور 18 رمضان 40 ھ میں جمعہ کے دن عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے آپ کے سرپر تلوار سے حملہ کیا جس کے تین دن بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ نے آپ کو غسل دیا۔ حسن ؓ نے نماز پڑھائی۔ صبح کے وقت آپ کو دفن کیا گیا، آپ کی عمر 63سال کی تھی، مدت خلافت چار سال ، نوماہ اور کچھ دن ہے۔ عنوان باب میں حضرت علی ؓکے متعلق حدیث ” انت منی وانا منک “ مذکور ہے یعنی تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں، آنحضرت ﷺ جب جنگ تبوک میں جانے لگے تو حضرت علی ؓ کو مدینہ میںچھوڑ گئے ان کو رنج ہوا، کہنے لگے آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں اس وقت آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی یعنی جیسے حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور کو جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو اپنا جانشیں کرگئے تھے، ایسا ہی میں تم کو اپنا قائم مقام کرکے جاتاہوں، اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے بعد متصلا تم ہی میرے خلیفہ ہوگے۔ کیونکہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کی حیات میں گزرگئے تھے۔ دوسری روایت میں اتنا اور زیادہ ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔
3705.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اسکا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آنے کا مقصد بیان کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو آپ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ لیٹے رہو۔‘‘ اس کے بعد آپ ہمارے دونوں کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم لوگوں نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے میں تمھیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟جب تم سونے کے لیے اپنے بستروں پر لیٹنے لگوتو چونتیس(34) مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس(33) مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس(33) مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لیے کسی بھی خادم سے بہتر ہے۔‘‘
تشریح:
1۔اس حدیث کو مناقب علی میں اس لیے لایا گیا ہے کہ آپ کا مقام اور مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت زیادہ تھا،نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بستر پر جابیٹھے یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہےاور آپ نے جو امرِ آخرت اپنی بیٹی کے لیے پسند فرمایا وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی پسند فرمایا،چنانچہ وہ دونوں اس پر راضی ہوگئے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الخمس میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:’’آپ نے اہل صفہ اور بیواؤں کو دنیا کے معاملے میں ترجیح دی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو امرآخرت کے سلسلے میں اللہ کے حوالے کردیا تاکہ وہاں اس کا اجروثواب حاصل کریں۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، باب:6)2۔بہرحال اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کس قدر محبت کرتے تھے اور اس کے باوجود آپ نے انھیں دنیا وہ لذتوں سے دور رکھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3566
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3705
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3705
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3705
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا حضرت علی ؓسے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓسے کہا کہ رسول اللہ ﷺاپنی وفات تک ان سے راضی تھے ۔تشریح: امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوالتراب ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، اور غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ یہ گندمی رنگ والے ، بڑی روشن، خوبصورت آنکھوں والے تھے، طویل القامت نہ تھے، داڑھی بہت بھری ہوئی تھی۔ آخر میں سر اور داڑھی ہردو کے بال سفید ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے دن جمعہ کو 18 ذی الحجہ 35 ھ میں تاج خلافت ان کے سرپر رکھا گیا اور 18 رمضان 40 ھ میں جمعہ کے دن عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے آپ کے سرپر تلوار سے حملہ کیا جس کے تین دن بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ نے آپ کو غسل دیا۔ حسن ؓ نے نماز پڑھائی۔ صبح کے وقت آپ کو دفن کیا گیا، آپ کی عمر 63سال کی تھی، مدت خلافت چار سال ، نوماہ اور کچھ دن ہے۔ عنوان باب میں حضرت علی ؓکے متعلق حدیث ” انت منی وانا منک “ مذکور ہے یعنی تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں، آنحضرت ﷺ جب جنگ تبوک میں جانے لگے تو حضرت علی ؓ کو مدینہ میںچھوڑ گئے ان کو رنج ہوا، کہنے لگے آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں اس وقت آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی یعنی جیسے حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور کو جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو اپنا جانشیں کرگئے تھے، ایسا ہی میں تم کو اپنا قائم مقام کرکے جاتاہوں، اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے بعد متصلا تم ہی میرے خلیفہ ہوگے۔ کیونکہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کی حیات میں گزرگئے تھے۔ دوسری روایت میں اتنا اور زیادہ ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اسکا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آنے کا مقصد بیان کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو آپ نے فرمایا: ’’اپنی جگہ لیٹے رہو۔‘‘ اس کے بعد آپ ہمارے دونوں کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم لوگوں نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے میں تمھیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟جب تم سونے کے لیے اپنے بستروں پر لیٹنے لگوتو چونتیس(34) مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس(33) مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس(33) مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لیے کسی بھی خادم سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کو مناقب علی میں اس لیے لایا گیا ہے کہ آپ کا مقام اور مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت زیادہ تھا،نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بستر پر جابیٹھے یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہےاور آپ نے جو امرِ آخرت اپنی بیٹی کے لیے پسند فرمایا وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی پسند فرمایا،چنانچہ وہ دونوں اس پر راضی ہوگئے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الخمس میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:’’آپ نے اہل صفہ اور بیواؤں کو دنیا کے معاملے میں ترجیح دی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو امرآخرت کے سلسلے میں اللہ کے حوالے کردیا تاکہ وہاں اس کا اجروثواب حاصل کریں۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، باب:6)2۔بہرحال اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کس قدر محبت کرتے تھے اور اس کے باوجود آپ نے انھیں دنیا وہ لذتوں سے دور رکھا۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: "تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ "نیز حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓ کے متعلق فرمایا تھا کہ رسول اللہ ﷺا پنی وفات تک ان سے راضی اور خوش تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہاہم سے غندر نے بیان کیا ، کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے حکم نے ، انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے سنا ، کہا ہم سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ ؓ نے ( نبی کریم ﷺ سے ) چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی، اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو حضرت فاطمہ ؓ آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب حضور ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کو حضرت فاطمہ ؓ کے آنے کی اطلاع دی ، اس پر آنحضرت ﷺ خود ہمارے گھر تشریف لائے ، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ، میں نے چاہا کہ کھڑا ہوجاؤں لیکن آپ نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو ، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی ، ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاوں ، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ أکبر ، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمد للہ پڑھ لیا کرو ، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہترہے ۔
حدیث حاشیہ:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سوتے وقت اس حدیث پر عمل کرلیا کرے گا وہ اپنے اندر تھکن محسوس نہیں کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): Fatima complained of the suffering caused to her by the hand mill. Some Captives were brought to the Prophet, she came to him but did not find him at home 'Aisha (RA) was present there to whom she told (of her desire for a servant). When the Prophet (ﷺ) came, Aisha (RA) informed him about Fatima's visit. Ali added "So the Prophet (ﷺ) came to us, while we had gone to our bed I wanted to get up but the Prophet (ﷺ) said, "Remain at your place". Then he sat down between us till I found the coolness of his feet on my chest. Then he said, "Shall I teach you a thing which is better than what you have asked me? When you go to bed, say, 'Allahu-Akbar' thirty-four times, and 'Subhan Allah thirty-three times, and 'Alhamdu-lillah thirty-three times for that is better for you both than a servant."