Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: The superiority of 'Aishah رضي الله عنها)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3768.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’اے عائشه ؓ !یہ حضرت جبریل ؑ ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا: ان پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکات نازل ہوں۔ یقیناً آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو مراد لے رہی تھیں۔
تشریح:
حضرت جبریل ؑ نے اپنی طرف سے انھیں سلام کہا جب کہ حضرت خدیجہ ؓ کے متعلق ہے کہ حضرت جبریل ؑ نے اپنے رب کی طرف سے سلام پہنچایا اور اپنی طرف سے بھی سلام کہا۔(صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3820) اس سے بعض حضرات نے حضرت عائشہ ؓ پرحضرت خدیجہ ؓ کی فضیلت کو ثابت کیاہے۔اس کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔بہرحال اس حدیث سے سیدہ عائشہ ؓ کی فضیلت اور منقبت کا پتہ چلتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3626
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3768
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3768
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3768
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سیدنا ابوبکر ؓ کی دختر نیک اختر ہیں۔ان کی والدہ کا نام ام رمان ہے۔رسول اللہ ﷺ کی چہیتی بیوی ہیں۔بڑی ہی عالمہ فاضلہ اور فصیح البیان تھیں۔حضرت معاویہ ؓ کی خلافت تک زندہ رہیں۔27 رمضان 58ہجری کو ان کی وفات ہوئی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ قیامت کے دن حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوں گی۔اور یہ فضیلت آپ کی بیٹیوں کو حاصل نہیں ہے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوں گی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے مناقب میں آٹھ احادیث بیان کی ہیں۔انھوں نے رسول اللہ ﷺسے اپنی کنیت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:"اپنی بہن کے بیٹے عبداللہ بن زبیر ؓ کی وجہ سے تم ام عبداللہ ہو۔"اس وقت سے آپ نے اپنی کنیت ام عبداللہ اختیار کرلی۔( فتح الباری 136/7۔)
ان کی کنیت ام عبد اللہ تھی، حضرت صدیق اکبر ؓ کی صاحبزادی ہیں اور رسول کریمﷺ کی خاص پیاری بیوی ہیں، بڑی ہی عالمہ ، فاضلہ، مجتہد ہ اور فصیح البیان تھیں، خلافت معاویہ تک زندہ رہیں ۔ 58ھ میں وفات پائیں۔ رمضان المبارک کی 27تاریخ کو حضرت ابوہریرہ ؓ نے ان پر نماز جنازہ پڑھائی۔ ؓ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’اے عائشه ؓ !یہ حضرت جبریل ؑ ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا: ان پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکات نازل ہوں۔ یقیناً آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو مراد لے رہی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت جبریل ؑ نے اپنی طرف سے انھیں سلام کہا جب کہ حضرت خدیجہ ؓ کے متعلق ہے کہ حضرت جبریل ؑ نے اپنے رب کی طرف سے سلام پہنچایا اور اپنی طرف سے بھی سلام کہا۔(صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3820) اس سے بعض حضرات نے حضرت عائشہ ؓ پرحضرت خدیجہ ؓ کی فضیلت کو ثابت کیاہے۔اس کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔بہرحال اس حدیث سے سیدہ عائشہ ؓ کی فضیلت اور منقبت کا پتہ چلتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا : اے عائشہ یہ جبریل ؑ تشریف رکھتے ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں ، میں نے اس پر جواب دیا: و عليه السلامورحمة اللہ وبرکاته، آپ وہ چیز ملاحظہ فرماتے ہیں جو مجھ کو نظر نہیں آتی ۔ آپ کی مراد نبی کریم ﷺ سے تھی ۔
حدیث حاشیہ:
آپ کی مراد نبی کریم ﷺ سےتھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama (RA): 'Aisha (RA) said, "Once Allah's Apostle (ﷺ) said (to me), 'O Aish ( 'Aisha (RA))! This is Gabriel (ؑ) greeting you.' I said, 'Peace and Allah's Mercy and Blessings be on him, you see what I don't see' " She was addressing Allah 's Apostle.