باب: جب سجدے میں آدمی کا کپڑا اس کی عورت سے لگ جائے تو کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If the clothes of a prayer person in prostration touched his wife [would that make his Salat (prayer) invalid]?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
379.
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ادا فرماتے تھے اور میں بحالت حیض آپ کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔ اور بسا اوقات آپ کا کپڑا سجدے کی حالت میں میرے بدن پر پڑ جاتا تھا۔ حضرت میمونہ ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ کھجور کے چھوٹے مصلے پر نماز پڑھتے تھے۔
تشریح:
1۔ صحت نماز کے لیے نمازی کے سجدے اور قیام کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر نماز کی جگہ پاک ہو تو قریب میں عورت کے لیٹے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو تا۔ اگر نمازی کا کپڑا بھی عورت کے بدن سے لگتا رہے تو بھی کوئی اندیشہ نہیں، کیونکہ نجاست حکمی ہے حسی نہیں۔ حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت میمونہ ؓ بحالت حیض آپ کے قریب لیٹی رہتیں اور آپ نماز پڑھتے رہتے۔ اس سے امام بخاری ؒ کامدعا ثابت ہو گیا۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حائضہ عورت کی نجاست حکمی ہے ذاتی نہیں، کیونکہ حیض آنے سے اس کی ذات ناپاک نہیں ہوجاتی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران نماز میں اگر نمازی کا کپڑا یا اس کے بدن کا کوئی حصہ حائضہ سے چھو جائے تو اس سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔ ہاں اگر حقیقی نجاست نمازی کے بدن یا کُرتے کو لگ جائےتو صحت نماز کے لیے اس کا ازلہ ضروری ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران نماز میں عورت کے سامنے ہونے سے نماز خراب نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:633/1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ نمازی کے کپڑے کا کچھ حصہ اگر بیوی کے بدن سے لگ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ اسے لمس نساء ہی خیال کیا جائے کہ اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہو۔ اس طرح نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
377
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
379
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
379
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
379
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نمازی کے قریب اس کی بیوی لیٹی ہوئی ہو اور سجدے میں جاتے وقت کپڑے کا کوئی حصہ بیوی کے بدن کو چھوجائے تو اس سے نمازمیں کوئی خلل نہیں آتا کیونکہ صحت صلاۃ کی شرط تو صرف مقام صلاۃ کی طہارت ہے اگر عورت حائضہ بھی ہے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت تو یہ ہے کہ عنوان میں اس قسم کا انداز اس وقت اختیار کرتے ہیں جب مسئلے میں کوئی اختلافی صورت موجودہو لیکن اس مقام پر خلاف عادت یہ اسلوب اختیار فرمایا ہے کیونکہ اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ واضح رہے کہ نماز کے لیے وہی نجاست باعث فساد ہے جسے نمازی خود اٹھائے جبکہ مذکورہ صورت میں ایسا نہیں ہے۔
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ادا فرماتے تھے اور میں بحالت حیض آپ کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔ اور بسا اوقات آپ کا کپڑا سجدے کی حالت میں میرے بدن پر پڑ جاتا تھا۔ حضرت میمونہ ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ کھجور کے چھوٹے مصلے پر نماز پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ صحت نماز کے لیے نمازی کے سجدے اور قیام کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر نماز کی جگہ پاک ہو تو قریب میں عورت کے لیٹے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو تا۔ اگر نمازی کا کپڑا بھی عورت کے بدن سے لگتا رہے تو بھی کوئی اندیشہ نہیں، کیونکہ نجاست حکمی ہے حسی نہیں۔ حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت میمونہ ؓ بحالت حیض آپ کے قریب لیٹی رہتیں اور آپ نماز پڑھتے رہتے۔ اس سے امام بخاری ؒ کامدعا ثابت ہو گیا۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حائضہ عورت کی نجاست حکمی ہے ذاتی نہیں، کیونکہ حیض آنے سے اس کی ذات ناپاک نہیں ہوجاتی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران نماز میں اگر نمازی کا کپڑا یا اس کے بدن کا کوئی حصہ حائضہ سے چھو جائے تو اس سے نماز میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔ ہاں اگر حقیقی نجاست نمازی کے بدن یا کُرتے کو لگ جائےتو صحت نماز کے لیے اس کا ازلہ ضروری ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران نماز میں عورت کے سامنے ہونے سے نماز خراب نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:633/1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ نمازی کے کپڑے کا کچھ حصہ اگر بیوی کے بدن سے لگ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ اسے لمس نساء ہی خیال کیا جائے کہ اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہو۔ اس طرح نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا خالد سے، کہا کہ ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا عبداللہ بن شداد سے، انھوں نے حضرت میمونہ ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نماز پڑھتے اور حائضہ ہونے کے باوجود میں ان کے سامنے ہوتی، اکثر جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ( کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ) مصلے پر نماز پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrates 'Abdullah bin Shaddad (RA): Maimuna said, "Allah's Apostle (ﷺ) was praying while I was in my menses, sitting beside him and sometimes his clothes would touch me during his prostration." Maimuna added, "He prayed on a Khumra (a small mat sufficient just for the face and the hands while prostrating during prayers).