Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: Narration about Zaid bin ‘Amr bin Nufail)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3828.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ مکرمہ سے اپنی پشت لگائے کھڑے دیکھا، وہ کہتے تھے: اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم! میرے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیم پر نہیں ہے۔ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ جب کوئی شخص اپنی لڑکی کو قتل کرنا چاہتا تو اسے کہتے: اسے قتل نہ کر میں اس کا کفیل ہوں اور اس کا تمام خرچہ برداشت کرتا ہوں اور اسے لے لیتے۔ پھر جب وہ جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تو چاہتا ہے تو میں اسے تیرے حوالے کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہتا ہے تو میں (اس کے نکاح پر اٹھنے والا) خرچہ برداشت کرتا ہوں۔
تشریح:
1۔ وہ قریش کوڈانٹتے تھے کہ ملت ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ شرک میں مبتلا ہو۔ 2۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ انھیں دین ابراہیم کہاں سے ملا۔ بہرحال وہ بت پرستی سے بیزار تھے اوردین ابراہیم کی حقانیت کا اعتقاد رکھتے تھے اس لیے دین ابراہیم کی طرف خود کو منسوب کیا۔ 3۔ عرب میں مصنوعی غیرت اور بھوک کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔ قرآن کریم نے اس رسم بد کا بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ حضرت زسید بن عمرو بن نفیل نے اس رسم کے خلاف تحریک چلائی کہ تم لوگ مفلسی کے موہوم اندیشے سے لڑکیوں کو قتل کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کورازق نہیں مانتے ہو۔ وہ ایسی لڑکیوں کی خود کفالت کرتے۔ جب وہ جوان ہوجاتیں تو ان کے والدین کے حوالے کردیتے یا ان کی اجازت سے ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے۔ 4۔ بہرحال زید بن عمرو ب نفیل دین ابراہیم کے علمبردار تھے۔ انھیں بتوں سے سخت نفرت تھی۔ عربوں کی رسومات بد کا سختی سے انکار کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔
زید بن عمرو بن نفیل،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچازاد اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ ہیں۔حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشرہ مبشرہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہیں۔زید ،توحید کے طالب تھے۔بتوں کی پوجا سے اظہار بے زاری کرتے اور شرک سے بھی الگ تھلک رہتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔یہ اس وقت فوت ہوئے جب قریش بیت اللہ کی تعمیر نوکررہے تھے۔بعض مؤلفین نے انھیں صحابہ میں شمار کیا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ ان پر صحابی کی تعریف صادق نہیں آتی۔واللہ اعلم۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ مکرمہ سے اپنی پشت لگائے کھڑے دیکھا، وہ کہتے تھے: اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم! میرے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیم پر نہیں ہے۔ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ جب کوئی شخص اپنی لڑکی کو قتل کرنا چاہتا تو اسے کہتے: اسے قتل نہ کر میں اس کا کفیل ہوں اور اس کا تمام خرچہ برداشت کرتا ہوں اور اسے لے لیتے۔ پھر جب وہ جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تو چاہتا ہے تو میں اسے تیرے حوالے کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہتا ہے تو میں (اس کے نکاح پر اٹھنے والا) خرچہ برداشت کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ وہ قریش کوڈانٹتے تھے کہ ملت ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ شرک میں مبتلا ہو۔ 2۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ انھیں دین ابراہیم کہاں سے ملا۔ بہرحال وہ بت پرستی سے بیزار تھے اوردین ابراہیم کی حقانیت کا اعتقاد رکھتے تھے اس لیے دین ابراہیم کی طرف خود کو منسوب کیا۔ 3۔ عرب میں مصنوعی غیرت اور بھوک کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔ قرآن کریم نے اس رسم بد کا بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ حضرت زسید بن عمرو بن نفیل نے اس رسم کے خلاف تحریک چلائی کہ تم لوگ مفلسی کے موہوم اندیشے سے لڑکیوں کو قتل کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کورازق نہیں مانتے ہو۔ وہ ایسی لڑکیوں کی خود کفالت کرتے۔ جب وہ جوان ہوجاتیں تو ان کے والدین کے حوالے کردیتے یا ان کی اجازت سے ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے۔ 4۔ بہرحال زید بن عمرو ب نفیل دین ابراہیم کے علمبردار تھے۔ انھیں بتوں سے سخت نفرت تھی۔ عربوں کی رسومات بد کا سختی سے انکار کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اورلیث بن سعدنے کہا کہ مجھے ہشام نے لکھا، اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے اور انہوں نے کہا کہ ہم سے حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے زیدبن عمروبن نفیل کوکعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا، اے قریش کے لوگو! خدا کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کوزندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جواپنی بیٹی کو مارڈالنا چاہتا کہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتاہوں، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کرسکتا ہوں اوراگرتمہاری مرضی ہو تومیں اس کے سب کام پورے کردوں گا۔
حدیث حاشیہ:
بزار اور طبرانی نے یوں روایت کیا ہے کہ زید اور ورقہ دونوں دین حق کی تلاش میں شام کے ملک گئے، ورقہ تو وہاں جا کرعیسائی ہو گیا اور زید کو یہ دین پسند نہیں آیا، پھرموصل میں آئے وہاں ایک پادری سے ملے جس نے دین نصرانی ان پر پیش کیا لیکن زید نے نہ مانا، اسی روایت میں یہ ہے کہ سعید بن زید ؓ اور حضرت عمرؓ نے آنحضرت ﷺ سے زید کا حال پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے اس کو بخش دیا اور اس پر رحم کیا اور وہ دین ابراہیم ؑ پر فوت ہوا، زید کا نسب نامہ یہ ہے زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن باح بن عبداللہ الخ یہ بزرگ بعثت نبوی سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، ان کے صاحبزادے سعید نامی نے اسلام قبول کیا جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، روایت میں مشرکین مکہ کا انصاب پر ذبیحہ کا ذکر آیا ہے اس سے وہ پتھرمراد ہیں جو کعبہ کے گرد لگے ہوئے تھے اور ان پر مشرکین اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے، آنحضرت ﷺ کے دسترخوان پر حاضری دینے سے زید نے اس لیے انکارکیا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو بھی قریش کا ایک فرد سمجھ کر گمان کرلیا کہ شاید دسترخوان پر تھانوں کا ذبیحہ پکایا گیا ہو اور وہ غیراللہ کے مذبوحہ جانور کاگوشت نہیں کھایا کرتے تھے، جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے، رسول کریم ﷺ پیدائش کے دن ہی سے معصوم تھے اور یہ ناممکن تھا کہ آپ ﷺ نبوت سے پہلے قریش کے افعال شرکیہ میں شریک ہوتے ہوں، لہذا زید کا گمان آنحضرت ﷺ کے بارے میں صحیح نہ تھا، فاکہی نے عامربن ربیعہ سے نکالا، مجھ سے زید نے یہ کہا کہ میں نے اپنی قوم کے برخلاف اسماعیل اور ابراہیم ؑ کے دین کی پیروی کی ہے اور میں اس پیغمبرکا منتظرہوں جو آل اسماعیل میں پیدا ہو گا لیکن امید نہیں کہ میں اس کا زمانہ پاؤں مگرمیں اس پر ایمان لایا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اس کے برحق پیغمبرہونے کی گواہی دیتا ہوں اگرتو زندہ رہے اور اس رسول کو پائے تو میرا سلام پہنچا دیجیؤ، عامرؓ کہتے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے ان کا سلام آنحضرت ﷺ کو پہنچایا آپ ﷺ نے جواب میں وعلیه السلام فرمایا اور فرمایا میں نے اس کو بہشت میں کپڑا گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے زید مرحوم نے عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی رسم کی بھی مخالفت کی جیسا کہ روایت کے آخرمیں درج ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
I saw Zaid bin Amr bin Nufail standing with his back against the Ka'ba and saying, "O people of Quraish! By Allah, none amongst you is on the religion of Abraham except me." He used to preserve the lives of little girls: If somebody wanted to kill his daughter he would say to him, "Do not kill her for I will feed her on your behalf." So he would take her, and when she grew up nicely, he would say to her father, "Now if you want her, I will give her to you, and if you wish, I will feed her on your behalf."