Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: Al-Qasama in the Pre-Islamic Period of Ignorance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3848.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جو میں تمہیں کہتا ہوں وہ مجھ سے سنو اور جو تم کہتے ہو وہ مجھے سناؤ اور بھٹکے نہ پھرو، پھر تم کہو گے: ابن عباس نے یہ کہا تھا، ابن عباس نے وہ کہا تھا۔ جو شخص بیت اللہ کا طواف کرے وہ حطیم کے پیچھے (باہر) سے کرے۔ اور اسے حطیم نہ کہو کیونکہ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص قسم اٹھانے کے لیے آتا تو وہ اپنا کوڑا، جوتا یا کمان وہاں پھینک دیتا تھا۔
تشریح:
1۔ ابن عباس ؓ کا مطلب ہے کہ لفظ حطیم دور جاہلیت کی یادگار ہے اہل جاہلیت جو کچھ کرتے تھے یہ حطیم اس پر دلالت کرتا ہے وہ اپنا کوڑا، جوتا اور کمان وغیرہ اس میں پھینک کر قسم اٹھاتے تھے اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتے تو دنیا میں چکنا چور ہو جاتے، اس وجہ سے لوگ اسے حطیم کہتے ہیں 2۔غالباً حضرت ابن عباس ؓ نے اس لیے یہ نام استعمال کرنے سے کراہت محسوس کی ان کی کراہت کی بنیاد اہل جاہلیت کو کردار اور عقیدہ تھا جو اب متروک ہو چکا ہے۔ ویسے حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے قریش نے کم مائیگی کی وجہ سے اس پر چھت نہیں ڈالی تھی، اس لیے طواف اس کے پیچھے سے ہی کرنا چاہیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کردہ مذکورہ عنوان بنیادی نہیں بلکہ اضافہ ہے کیونکہ بنیادی طور پر پیش کردہ حدیث زمانہ جاہلیت کے حالات سے متعلق ہے۔چونکہ اس میں ایک اہم اور اضافی فائدہ تھا جسے ایک الگ عنوان سے نمایاں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مذکورہ پیش کردہ حدیث کے بعد تمام احادیث قسامت کے عنوان سے متعلق نہیں بلکہ بنیادی عنوان "زمانہ جاہلیت کے حالات وواقعات"سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس وضاحت کے بعد قسامت یہ ہے کہ کسی محلے یا بستی میں کوئی مقتول ہے مکر کسی ذریعے سے بھی قاتل کا پتہ نہ چل سکے تو محلے کے پچاس آدمیوں کا انتخاب کر کے ان سے قسم لی جائے۔ کہ ان کے محلے والوں کا اس مقتول سے کوئی تعلق نہیں اسے قسامت کہتے ہیں دور جاہلیت کے اس قانون کواسلام نے برقراررکھا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جو میں تمہیں کہتا ہوں وہ مجھ سے سنو اور جو تم کہتے ہو وہ مجھے سناؤ اور بھٹکے نہ پھرو، پھر تم کہو گے: ابن عباس نے یہ کہا تھا، ابن عباس نے وہ کہا تھا۔ جو شخص بیت اللہ کا طواف کرے وہ حطیم کے پیچھے (باہر) سے کرے۔ اور اسے حطیم نہ کہو کیونکہ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص قسم اٹھانے کے لیے آتا تو وہ اپنا کوڑا، جوتا یا کمان وہاں پھینک دیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن عباس ؓ کا مطلب ہے کہ لفظ حطیم دور جاہلیت کی یادگار ہے اہل جاہلیت جو کچھ کرتے تھے یہ حطیم اس پر دلالت کرتا ہے وہ اپنا کوڑا، جوتا اور کمان وغیرہ اس میں پھینک کر قسم اٹھاتے تھے اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتے تو دنیا میں چکنا چور ہو جاتے، اس وجہ سے لوگ اسے حطیم کہتے ہیں 2۔غالباً حضرت ابن عباس ؓ نے اس لیے یہ نام استعمال کرنے سے کراہت محسوس کی ان کی کراہت کی بنیاد اہل جاہلیت کو کردار اور عقیدہ تھا جو اب متروک ہو چکا ہے۔ ویسے حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے قریش نے کم مائیگی کی وجہ سے اس پر چھت نہیں ڈالی تھی، اس لیے طواف اس کے پیچھے سے ہی کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مطرف نے خبر دی، کہا میں نے ابو السفرسے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے سنا انہوں نے کہا اے لوگو! میری باتیں سنوکہ میں تم سے بیان کرتا ہوں اور (جو کچھ تم نے سمجھاہے) وہ مجھے سناؤ۔ ایسا نہ ہوکہ تم لوگ یہا ں سے اٹھ کر (بغیر سمجھے) چلے جاؤ اور پھر کہنے لگو کہ ابن عباس ؓ نے یوں کہا اور ابن عباس ؓ نے یوں کہا۔ جو شخص بھی بیت اللہ کا طواف کرے تو وہ حطیم کے پیچھے سے طواف کرے اور حجر کو حطیم نہ کہا کرو یہ جاہلیت کا نام ہے اس وقت لوگوں میں جب کوئی کسی بات کی قسم کھا تا تو اپنا کوڑا، جو تا یا کمان وہاں پھینک دیتا۔
حدیث حاشیہ:
اس لیے اس کو حطیم کہتے یعنی کھا جانے والا کیونکہ وہ ان کی اشیاء کو ہضم کرجاتا، وہاں پڑے پڑے وہ چیزیں گل سڑجاتیں یا کوئی ان کو اٹھا لے جاتا۔ حضرت ابن عباسؓ نے حطیم کی اسی مناسبت کے پیش نظر اسے حطیم کہنے سے منع کیا تھا، لیکن عام اہل اسلام بغیر کسی نکیر کے اسے اب بھی حطیم ہی کہتے چلے آرہے ہیں اور یہ کعبہ ہی کی زمین ہے جسے قریش نے سرمایہ کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu As-Safar (RA): I heard Ibn 'Abbas (RA) saying, "O people! Listen to what I say to you, and let me hear whatever you say, and don't go (without understanding), and start saying, 'Ibn 'Abbas (RA) said so-and-so, Ibn 'Abbas (RA) said so-and-so, Ibn 'Abbas (RA) said so-and-so.' He who wants to perform the Tawaf around the Ka’bah should go behind Al-Hijr (i.e. a portion of the Ka’bah left out unroofed) and do not call it Al-Hatim, for in the pre-Islamic period of ignorance if any man took an oath, he used to throw his whip, shoes or bow in it.