Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The conversion ‘Umar رضي الله عنه to Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3864.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک وقت حضرت عمر ؓ اپنے گھر خوفزدہ تھے۔ اچانک ان کے پاس ابو عمرو عاص بن وائل سہمی آیا جو ایک دھاری دار خوبصورت چادر اور ریشمی کرتا پہنا ہوئے تھا۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ اس نے کہا: تمہارا کیا حال ہے؟ حضرت عمر ؓ نے کہا: تمہاری قوم کہتی ہے کہ اگر میں نے اسلام قبول کر لیا تو وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ عاص نے کہا: تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عاص کی اس بات کے بعد حضرت عمر ؓ نے کہا کہ اب میں امان میں آ گیا ہوں۔ عاص باہر نکلا اور لوگوں سے ملا جبکہ مکہ کا میدان لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ عاص نے ان سے کہا: تم کہاں جا رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ہم ابن خطاب کی خبر لینے جا رہے ہیں جو بے دین ہو چکا ہے۔ عاص نے کہا: اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ سن کر لوگ واپس چلے گئے۔
تشریح:
1۔ جو شخص اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا عرب اسے صابی کہتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے جب اسلام قبول کیا توقبیلہ بنو سہم نے انھیں بے دین کہا اور ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ 2۔عاص اپنی قوم کا سردار تھا اور اس کی بات مانی جاتی اور پیروی کی جاتی تھی جب اس نے کہا کہ عمر ؓ پر تمہارا کوئی بس نہیں چلے گاتو اس حوصلہ افزائی سے حضرت عمر ؓ کا خوف جاتا رہا۔ 3۔حضرت عمر ؓ نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ ان کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کا خوف وہراس جاتارہا اور لوگوں میں اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ ان کے دورخلافت میں اسلام نے خوب ترقی کی اور بہت فتوحات ہوئیں۔ 4۔واضح رہے کہ عاص بن وائل حضرت عمرو بن عاص سہمی کے والد ہیں۔ اس نے زمانہ اسلام تو پایا لیکن مسلمان نہ ہوا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک وقت حضرت عمر ؓ اپنے گھر خوفزدہ تھے۔ اچانک ان کے پاس ابو عمرو عاص بن وائل سہمی آیا جو ایک دھاری دار خوبصورت چادر اور ریشمی کرتا پہنا ہوئے تھا۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ اس نے کہا: تمہارا کیا حال ہے؟ حضرت عمر ؓ نے کہا: تمہاری قوم کہتی ہے کہ اگر میں نے اسلام قبول کر لیا تو وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ عاص نے کہا: تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ عاص کی اس بات کے بعد حضرت عمر ؓ نے کہا کہ اب میں امان میں آ گیا ہوں۔ عاص باہر نکلا اور لوگوں سے ملا جبکہ مکہ کا میدان لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ عاص نے ان سے کہا: تم کہاں جا رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ہم ابن خطاب کی خبر لینے جا رہے ہیں جو بے دین ہو چکا ہے۔ عاص نے کہا: اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ سن کر لوگ واپس چلے گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جو شخص اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا عرب اسے صابی کہتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے جب اسلام قبول کیا توقبیلہ بنو سہم نے انھیں بے دین کہا اور ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ 2۔عاص اپنی قوم کا سردار تھا اور اس کی بات مانی جاتی اور پیروی کی جاتی تھی جب اس نے کہا کہ عمر ؓ پر تمہارا کوئی بس نہیں چلے گاتو اس حوصلہ افزائی سے حضرت عمر ؓ کا خوف جاتا رہا۔ 3۔حضرت عمر ؓ نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ ان کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کا خوف وہراس جاتارہا اور لوگوں میں اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ ان کے دورخلافت میں اسلام نے خوب ترقی کی اور بہت فتوحات ہوئیں۔ 4۔واضح رہے کہ عاص بن وائل حضرت عمرو بن عاص سہمی کے والد ہیں۔ اس نے زمانہ اسلام تو پایا لیکن مسلمان نہ ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمربن محمد نے بیان کیا، کہامجھ کو میرے دادا زید بن عبد اللہ بن عمرو نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ (اسلام لانے کے بعد قریش سے) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو عمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا وہ قبیلہ بنوسہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے، عاص نے حضرت عمر ؓ سے کہا کیا بات ہے؟ عمر ؓ نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مارڈالیں گے۔ عاص نے کہا ”تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا“ جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر ؓ نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوںسے بھر گیا ہے۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بے دین ہوگیا ہے۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر بن خطاب ؓ کی کنیت ابو حفصہ ہے عدوی اور قریشی ہیں۔ نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال اسلام لائے اور ان کے اسلام قبول کرنے کے دن سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوگیا، آپ گورے رنگ کے تھے سرخی غالب تھی، قد کے لمبے تھے۔ تمام غزوات نبوی میں شریک ہوئے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ کے بعد دس سال چھ ماہ خلیفہ رہے۔ مغیر ہ بن شعبہ ؓ کے غلام ابو لولو نے مدینہ میں بدھ کے دن نماز فجر میں36ذی الحجہ24ھ کو خنجر سے آپ ؓ پر حملہ کیا ۔ آپ یکم محرم الحرام 25ھ کو چار دن بیمار رہ کر واصل بحق ہوئے۔ 63سال کی عمر پائی۔ نماز جنازہ حضرت صہیب رومی نے پڑھائی اور حجرئہ نبوی میں جگہ ملى۔ عمر وبن عاص بن وائل سہمی قریشی ہیں۔ بقول بعض 8ھ میں حضرت خالد بن ولید ؓ اور عثمان بن طلحہ ؓ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ ان کو آنحضرت ﷺ نے عمان کا حاکم بنا دیا تھا۔ وفات نبوی تک یہ عمان کے حاکم رہے۔ حضرت عمر ؓ کی خلافت میں ان ہی کے ہاتھ پر مصر فتح ہوا۔ مصر ہی میں43ھ میں بعمر نوے سال وفات پائی۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA): While 'Umar was at home in a state of fear, there came Al-'As bin Wail As-Sahmi Abu 'Amr, wearing an embroidered cloak and a shirt having silk hems. He was from the tribe of Bani Sahm who were our allies during the pre-Islamic period of ignorance. Al-'As said to 'Umar "What is wrong with you?" He said, "Your people claim that they would kill me if I become a Muslim." Al-'As said, "Nobody will harm you after I have given protection to you." So Al-'As went out and met the people streaming in the whole valley. He said, "Where are you going?" They said, "We want Ibn Al-Khattab who has embraced Islam." Al-'As said, "There is no way for anybody to touch him." So the people retreated.