Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) wearing Khuff (leather socks))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
388.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو وضو کرایا تو آپ نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
تشریح:
1۔ شیعہ حضرات کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ موزے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے۔ گرمی اور سردی سے پاؤں کی حفاظت کا یہ دوسرا طریقہ ہے کہ زمین اور پاؤں کے درمیان موزوں کو حائل کردیا جائے ۔ سورہ مائدہ میں آیت وضو کے نزول کے بعد بعض صحابہ کو شبہ ہو گیا تھا کہ شاید اب مسح کی اجازت منسوخ ہو چکی ہےاور پاؤں ہر حالت میں دھونے پڑیں گے۔ جب حضرت جریر ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ مسح کا حکم تو نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں ۔ بعض روایات میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام لائے۔ (فتح الباري:641/1) اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات نے جو آیت مائدہ کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ پاؤں پر ہر حالت میں مسح کرنا چاہیے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اسی طرح خوارج کا تشدد بھی درست نہیں. 2۔ محمد بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جب حضرت جریر ؓ کو موزوں پر مسح کر کے ان میں نماز پڑھتے دیکھا۔ نیز سوال کرنے پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا مشاہدہ بیان کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مشاہدہ نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ انھوں نے فرمایا: میں تو مسلمان ہی نزول سورہ مائدہ کے بعد ہوا ہوں۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 94) اس حدیث پر امام ترمذی ؒ بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: اس حدیث نے خوب وضاحت کردی ہے، کیونکہ جو لوگ موزوں پر مسح کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موزوں پر مسح کی رخصت نزول سورہ مائدہ سے پہلے تھی، لیکن حضرت جریر ؓ کے عمل سے وضاحت ہو گئی کہ سورہ مائدہ میں وضو کے وقت پاؤں دھونے کا جو ذکر ہے، اس سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حکم آخر وقت تک باقی رہا۔
نوٹ: حدیث مغیرہ بن شعبہ ؓ سے متعلقہ دیگر فوائد گزشتہ حدیث :182۔ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
386
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
388
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
388
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
388
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
روافض کے نزدیک وضو کرتے وقت موزوں کے بغیرپاؤں پر مسح کرنا ضروری ہے جب کہ خوارج موزوں پر بھی مسح کی اجازت نہیں دیتے ان کے نزدیک ہر حالت میں پاؤں دھونا ضروری ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس افراط و تفریط سے بالا ہو کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ موزوں کی حالت میں پاؤں پر مسح کیا جا سکتا ہے اور ان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو وضو کرایا تو آپ نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شیعہ حضرات کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ موزے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے۔ گرمی اور سردی سے پاؤں کی حفاظت کا یہ دوسرا طریقہ ہے کہ زمین اور پاؤں کے درمیان موزوں کو حائل کردیا جائے ۔ سورہ مائدہ میں آیت وضو کے نزول کے بعد بعض صحابہ کو شبہ ہو گیا تھا کہ شاید اب مسح کی اجازت منسوخ ہو چکی ہےاور پاؤں ہر حالت میں دھونے پڑیں گے۔ جب حضرت جریر ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ مسح کا حکم تو نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں ۔ بعض روایات میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام لائے۔ (فتح الباري:641/1) اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات نے جو آیت مائدہ کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ پاؤں پر ہر حالت میں مسح کرنا چاہیے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اسی طرح خوارج کا تشدد بھی درست نہیں. 2۔ محمد بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جب حضرت جریر ؓ کو موزوں پر مسح کر کے ان میں نماز پڑھتے دیکھا۔ نیز سوال کرنے پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا مشاہدہ بیان کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مشاہدہ نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ انھوں نے فرمایا: میں تو مسلمان ہی نزول سورہ مائدہ کے بعد ہوا ہوں۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 94) اس حدیث پر امام ترمذی ؒ بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: اس حدیث نے خوب وضاحت کردی ہے، کیونکہ جو لوگ موزوں پر مسح کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موزوں پر مسح کی رخصت نزول سورہ مائدہ سے پہلے تھی، لیکن حضرت جریر ؓ کے عمل سے وضاحت ہو گئی کہ سورہ مائدہ میں وضو کے وقت پاؤں دھونے کا جو ذکر ہے، اس سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حکم آخر وقت تک باقی رہا۔
نوٹ: حدیث مغیرہ بن شعبہ ؓ سے متعلقہ دیگر فوائد گزشتہ حدیث :182۔ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ ؓ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو وضو کرایا۔ آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
خف کی تعریف یہ ہے: ''والخف نعل من ادم یغطي الکعبین''(نیل الأوطار)’’یعنی وہ چمڑے کا ایک ایسا جوتا ہوتا ہے جو ٹخنوں تک سارے پیر کو ڈھانپ لیتا ہے۔‘‘ اس پر مسح کا جائز ہونا جمہور امت کا مسلمہ ہے: ''عن ابن المبارك قال لیس في المسح علی الخفین عن الصحابة اختلاف۔''(نیل الأوطار)’’یعنی صحابہ میں خفین پر مسح کرنے کے جواز میں کسی کا اختلاف منقول نہیں ہوا۔‘‘ نووی شرح مسلم میں ہے کہ مسح علی الخفین کا جواز بے شمار صحابہ سے مروی ہے۔ یہ ضروری شرط ہے کہ پہلی دفعہ جب بھی خف پہنا جائے وضو کرکے پیر دھوکر پہنا جائے، اس صورت میں مسافرکے لیے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اس پر مسح کرلینا جائز ہوگا۔ ترجمہ میں موزوں سے یہی خف مراد ہیں۔ جرابوں پر بھی مسح درست ہے، بشرطیکہ وہ اس قدر موٹی ہوں کہ ان کوحقیقی جراب کہا جاسکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughira bin Shu'ba (RA): I helped the Prophet (ﷺ) in performing ablution and he passed his wet hands over his Khuffs and prayed.