Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The story of Abu Talib)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3884.
حضرت ابن مسیب سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو اس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائے جبکہ اس کے پاس ابوجہل بھی بیٹھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے چچا! ایک بار لا إله إلا الله کہہ دے۔ میں اس وجہ سے اللہ کے پاس تمہارے لیے حجت قائم کر سکوں گا۔‘‘ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے مذہب سے روگردانی کر رہے ہو؟ وہ بار بار اسے یہی کہتے رہے حتی کہ ابوطالب نے آخری بات ان سے یہی کہی کہ وہ عبدالمطلب کی ملت پر ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں آپ کے لیے اللہ سے استغفار ضرور کروں گا جب تک مجھے روکا نہ جائے گا۔‘‘ پھر یہ آیت نازل ہوئی: ’’نبی اور اہل ایمان کے لائق نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں۔‘‘ اور ئی آیت بھی نازل ہوئی: ’’بےشک آپ جسے پسند کریں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔‘‘
تشریح:
ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کا بہت دفاع کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ جب تک ابو طالب زندہ رہا قریش مجھے تکلیف پہنچانے سے خائف تھے۔ جب وہ فوت ہوا تو قریش کو ہمت ہوئی کہ آپ کو اذیت پہنچائیں حتی کہ ایک بےوقوف نے آپ کے سر مبارک پر مٹی ڈال دی تھی۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ کی کوشش اور خواہش کے باوجود ابو طالب نے اسلام قبول نہیں کیا تاہم رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اسے ہلکے عذاب میں رکھا جائے گا۔ (فتح الباري:244/7) روایت میں عبد اللہ بن ابی امیہ کا ذکر ہے وہ مسلمانوں کا سخت مخالف تھا اور رسول اللہ ﷺ سے بغض رکھتا تھا لیکن فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا اور طائف میں اللہ تعالیٰ نے اسے شہادت سے سرفراز فرمایا۔ (عمدة القاري:593/11)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار چچے تھے ابو طالب ، ابو لہب،حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان میں سے ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے کیونکہ آپ کے والد ماجد کے سگے بھائی تھے۔جب تک زندہ رہے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا پورا دفاع کیا اور آپ کی پر زور حمایت کی مگر قومی پاسداری کی وجہ سے اسلام قبول نہ کیا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں چچا نے اسلام کا زمانہ پایا لیکن ان میں سے دو مسلمان ہوئے اور دو نے کفر کی روش اختیار کیے رکھی ۔ جو مسلمان ہوئے ان کے نام مسلمانوں جیسے تھے اور جنھوں نے کفر کو پسند کیا ان کے نام بھی مسلمانوں جیسے نہ تھے چنانچہ ابو طالب کا نام عبد مناف اور ابو لہب کا نام عبدالعزی تھا جبکہ مسلمان ہونے والے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔( فتح الباری:7/246۔)
حضرت ابن مسیب سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو اس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائے جبکہ اس کے پاس ابوجہل بھی بیٹھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے چچا! ایک بار لا إله إلا الله کہہ دے۔ میں اس وجہ سے اللہ کے پاس تمہارے لیے حجت قائم کر سکوں گا۔‘‘ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے مذہب سے روگردانی کر رہے ہو؟ وہ بار بار اسے یہی کہتے رہے حتی کہ ابوطالب نے آخری بات ان سے یہی کہی کہ وہ عبدالمطلب کی ملت پر ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں آپ کے لیے اللہ سے استغفار ضرور کروں گا جب تک مجھے روکا نہ جائے گا۔‘‘ پھر یہ آیت نازل ہوئی: ’’نبی اور اہل ایمان کے لائق نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں۔‘‘ اور ئی آیت بھی نازل ہوئی: ’’بےشک آپ جسے پسند کریں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کا بہت دفاع کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ جب تک ابو طالب زندہ رہا قریش مجھے تکلیف پہنچانے سے خائف تھے۔ جب وہ فوت ہوا تو قریش کو ہمت ہوئی کہ آپ کو اذیت پہنچائیں حتی کہ ایک بےوقوف نے آپ کے سر مبارک پر مٹی ڈال دی تھی۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ کی کوشش اور خواہش کے باوجود ابو طالب نے اسلام قبول نہیں کیا تاہم رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اسے ہلکے عذاب میں رکھا جائے گا۔ (فتح الباري:244/7) روایت میں عبد اللہ بن ابی امیہ کا ذکر ہے وہ مسلمانوں کا سخت مخالف تھا اور رسول اللہ ﷺ سے بغض رکھتا تھا لیکن فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا اور طائف میں اللہ تعالیٰ نے اسے شہادت سے سرفراز فرمایا۔ (عمدة القاري:593/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمودبن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الرزق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی ؓ نے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابو جہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چچا! کلمہ لا إله إلا الله ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لئے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آجائے گی، اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا، اے ابو طالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخر ی کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبد المطلب کے دین پر قائم ہوں۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں ان کے لئے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے گا۔ چنانچہ (سوره براءت میں) یہ آیت نازل ہوئی: ”نبی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے منا سب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے دعاءمغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ دوزخی ہیں۔“ اور سورئہ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی: ”بے شک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Musaiyab (RA): When Abu Talib was in his death bed, the Prophet (ﷺ) went to him while Abu Jahl was sitting beside him. The Prophet (ﷺ) said, "O my uncle! Say: None has the right to be worshipped except Allah, an expression I will defend your case with, before Allah." Abu Jahl and 'Abdullah bin Umaya said, "O Abu Talib! Will you leave the religion of 'Abdul Muttalib?" So they kept on saying this to him so that the last statement he said to them (before he died) was: "I am on the religion of 'Abdul Muttalib." Then the Prophet (ﷺ) said, " I will keep on asking for Allah's Forgiveness for you unless I am forbidden to do so." Then the following Verse was revealed:-- "It is not fitting for the Prophet (ﷺ) and the believers to ask Allah's Forgiveness for the pagans, even if they were their near relatives, after it has become clear to them that they are the dwellers of the (Hell) Fire." (9.113) The other Verse was also revealed:-- "(O Prophet!) Verily, you guide not whom you like, but Allah guides whom He will ......." (28.56)