باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The emigration of the Prophet (saws) to Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
3900.
حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر لیثی کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے ان سے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب ہجرت نہیں رہی، کیونکہ ایک وقت تھا جب مومن اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتے تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ وہ دین کے بارے میں فتنے میں پڑ جائیں گے۔ اب تو اللہ تعالٰی نے اسلام کو غالب کر دیا ہے۔ آج اہل ایمان جہاں چاہیں اپنے رب کی عبادت کر سکتے ہیں، البتہ جہاد اور اس کی نیت کا ثواب باقی ہے۔
تشریح:
فتح مکہ کے بعدمدینے کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اب ہجرت کی مشروعیت ختم ہوچکی ہے کیونکہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے بشرط یہ کہ دین میں خلل کا اندیشہ ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کے فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ نہ ہوسکے ایسے ملک سے ہجرت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں۔ اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں اپنا دین ظاہر کرسکتاہے اوربلاروک ٹوک اللہ کی عبادت کرسکتا ہے تو اس کا حکم دارالسلام جیسا ہوگا بلکہ وہاں ٹھہرنا ہجرت سے افضل ہے کیونکہ وہاں قیام رکھنے سے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کے نتیجے میں اسلام میں داخل ہوں گے، اس لیے اس قسم کی احادیث کو مقامی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے دو ماہ تیرہ دن بعد یکم ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا اور بارہ ربیع الاول کو مدینہ طیبہ پہنچے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔اس سے پہلے اہل مدینہ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے۔ ان کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔( فتح الباری 283/7۔)
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر لیثی کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے ان سے ہجرت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب ہجرت نہیں رہی، کیونکہ ایک وقت تھا جب مومن اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتے تھے۔ انہیں یہ خوف تھا کہ وہ دین کے بارے میں فتنے میں پڑ جائیں گے۔ اب تو اللہ تعالٰی نے اسلام کو غالب کر دیا ہے۔ آج اہل ایمان جہاں چاہیں اپنے رب کی عبادت کر سکتے ہیں، البتہ جہاد اور اس کی نیت کا ثواب باقی ہے۔
حدیث حاشیہ:
فتح مکہ کے بعدمدینے کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اب ہجرت کی مشروعیت ختم ہوچکی ہے کیونکہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے بشرط یہ کہ دین میں خلل کا اندیشہ ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کے فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ نہ ہوسکے ایسے ملک سے ہجرت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں۔ اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں اپنا دین ظاہر کرسکتاہے اوربلاروک ٹوک اللہ کی عبادت کرسکتا ہے تو اس کا حکم دارالسلام جیسا ہوگا بلکہ وہاں ٹھہرنا ہجرت سے افضل ہے کیونکہ وہاں قیام رکھنے سے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کے نتیجے میں اسلام میں داخل ہوں گے، اس لیے اس قسم کی احادیث کو مقامی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت ابوہریرہ ؓ دونوں نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر ہجرت کا ثواب پیش نظر نہ ہوتا تو میں انصار کا ایک آدمی ہوتا۔"
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (آپ نے فرمایا: ) "میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں جہاں بکثرت کھجوروں کے باغات ہیں۔ میرا ذہن یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن وہ تو مدینہ یثرب نکلا۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا کہ عبید بن عمیر لیثی کے ساتھ میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے ان سے فتح مکہ کے بعد ہجرت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب مسلمان اپنے دین کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف عہد کر کے آتا تھا، اس خطرہ کی وجہ سے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کردیا ہے اور آ ج (سر زمین عرب میں) انسان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے، البتہ جہاد اور جہاد کی نیت کا ثواب باقی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ata bin Abi Rabah: 'Ubaid bin 'Umar Al-Laithi and I visited Aisha (RA) and asked her about the Hijra (i.e. migration), and she said, "Today there is no (Hijrah) emigration. A believer used to run away with his religion to Allah and His Apostle (ﷺ) lest he should be put to trial because of his religion. Today Allah has made Islam triumphant, and today a believer can worship his Lord wherever he likes. But the deeds that are still rewardable (in place of emigration) are Jihad and good intentions." (See Hadith No. 42 Vol. 4).