باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The emigration of the Prophet (saws) to Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
3923.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ہجرت کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھ پر افسوس! ہجرت تو بہت مشکل کام ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: ہاں (زکاۃ ادا کرتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو ان میں کوئی اونٹنی دوسروں کو دیتا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں (ایسا کرتا ہوں) آپ نے فرمایا: ’’کیا تم، انہیں پانی پلانے کے روز، دودھ خیرات کرتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر تم تمام بستیوں (اور شہروں) سے پرے رہ کر عمل کرتے رہو۔ اللہ تعالٰی تمہارے کسی عمل کا ثواب ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
تشریح:
دیہاتی لوگ چونکہ ہجرت پر صبر نہیں کر سکتے تھے اور ان میں مدینے کی سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہ تھی اس لیے آپ نے اسے ہجرت سے روکا جیسا کہ ایک دیہاتی کو مدینہ طیبہ میں بخار ہو گیا تھا تو وہ بیعت توڑ کر چلا گیا اس لیے آپ نے فرمایا: ’’تم ہجرت نہ کرو، بلکہ جب تم حقوق پورے ادا کرتے ہو تو تم پر اپنے وطن میں اقامت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث میں ہجرت کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے دو ماہ تیرہ دن بعد یکم ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا اور بارہ ربیع الاول کو مدینہ طیبہ پہنچے جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔اس سے پہلے اہل مدینہ کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ پہنچ چکے تھے۔ ان کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔( فتح الباری 283/7۔)
حضرات عبد اللہ بن زید اور ابو ہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں انصار کا ایک آدمی بن کر رہنا پسند کرتا اور حضرت ابو موسیٰؓ نے نبی کریم ﷺسے روایت کی کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کرکے جا رہا ہوں کہ جہاں کھجور کے باغات بکثرت ہیں ءمیرا ذہن اس سے یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن یہ سر زمین شہر ” یثربُ “ کی تھی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ہجرت کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھ پر افسوس! ہجرت تو بہت مشکل کام ہے۔ کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: ہاں (زکاۃ ادا کرتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو ان میں کوئی اونٹنی دوسروں کو دیتا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں (ایسا کرتا ہوں) آپ نے فرمایا: ’’کیا تم، انہیں پانی پلانے کے روز، دودھ خیرات کرتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر تم تمام بستیوں (اور شہروں) سے پرے رہ کر عمل کرتے رہو۔ اللہ تعالٰی تمہارے کسی عمل کا ثواب ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
دیہاتی لوگ چونکہ ہجرت پر صبر نہیں کر سکتے تھے اور ان میں مدینے کی سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہ تھی اس لیے آپ نے اسے ہجرت سے روکا جیسا کہ ایک دیہاتی کو مدینہ طیبہ میں بخار ہو گیا تھا تو وہ بیعت توڑ کر چلا گیا اس لیے آپ نے فرمایا: ’’تم ہجرت نہ کرو، بلکہ جب تم حقوق پورے ادا کرتے ہو تو تم پر اپنے وطن میں اقامت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث میں ہجرت کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت ابوہریرہ ؓ دونوں نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اگر ہجرت کا ثواب پیش نظر نہ ہوتا تو میں انصار کا ایک آدمی ہوتا۔"
حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (آپ نے فرمایا: ) "میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں جہاں بکثرت کھجوروں کے باغات ہیں۔ میرا ذہن یمامہ یا ہجر کی طرف گیا لیکن وہ تو مدینہ یثرب نکلا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم دمشقی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، (دوسری سند) اور محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا مجھ سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عطاء بن یزید لیثی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہا کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ہجرت کا حال پوچھنے لگا آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس! ہجرت تو بہت مشکل ہے۔ تمہارے پاس کچھ اونٹ بھی ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ہیں۔ فرمایا کہ تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو۔ اس نے عرض کیا جی ہاں ادا کر تا ہوں۔ آپ نے فرمایا اونٹنیوں کا دودھ دوسرے (محتاجوں) کو بھی دوہنے کے لئے دے دیا کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ ایسا بھی کرتا ہوں آپ نے فرمایا، انہیں گھاٹ پر لے جاکر (محتاجوں کے لئے) دوہتے ہو؟ اس نے عرض کیا ایسا بھی کرتا ہوں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم سات سمندر پار عمل کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے کسی عمل کا بھی ثواب کم نہیں کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے اس میں ہجرت کا ذکر ہے یہی حدیث اور باب میں مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said (RA): Once a bedouin came to the Prophet (ﷺ) and asked him about the migration. The Prophet (ﷺ) said, "Mercy of Allah be on you! The migration is a quite difficult matter. Have you got some camels?" He replied in the affirmative. Then the Prophet (ﷺ) said, "Do you give their Zakat?" He replied in the affirmative. The Prophet (ﷺ) said, "Do you let others benefit by their milk gratis?" He replied in the affirmative. Then the Prophet (ﷺ) asked, "Do you milk them on their watering days and give their milk to the poor and needy?" He replied in the affirmative. The Prophet, said, "Go on doing like this from beyond the seas, and there is no doubt that Allah will not overlook any of your good deeds."