نبی کریم ﷺنے اپنے صحابہ کے درمیان کس طرح بھائی چارہ قائم کرایا تھا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: How the Prophet (saws) established the bond of brotherhood between his)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کا بیان اور عبد الرحمن بن عوف ؓنے فرمایا کہ جب ہم مدینہ ہجرت کرکے آئے تو آنحضرت ﷺنے میرے اور سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا ۔ حضرت ابو جحیفہ ؓ ( وہب بن عبد اللہ ) نے کہا آنحضرت ﷺنے حضرت سلمان فارسی اور ابو الدرداءکے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا ۔تشریح:کہتے ہیں بھائی بھائی بنانا دربار ہوا تھا ایک بار مکہ میں مہاجرین میں اس دفعہ ابوبکر‘عمرکواور حمزہ‘زید بن حارثہ کو اور عثمان‘عبدالرحمن بن عوف کو اور زبیر ابن مسعود کو اور عبیدہ ‘بلال کو اور مصعب بن عمیر‘سعد بن ابی وقاص اور ابوعبیدہ‘سالم مولیٰ ابی حذیفہ کو اور سعید بن زید‘طلحہؓ کو آپ نے بھائی بھائی بنا دیا تھا۔حضرت علیؓ شکایت کرنے آئے تو آپ نے ان کو اپنا بھائی بنایا دوسری بار مدینہ میں ہوا مہاجرین اور انصارمیں (وحیدی)ابتدا میں مؤاخات ترکہ میں میراث تک پہنچ گئی تھی یعنی ایسے منہ بولے بھائیوں کو مرنے والے بھائی کے ترکہ میں حصہ صرف حقیقی وارثوں کے لئے مخصوص ہوگیا۔مدینہ میں مؤاخات ہجرت کے پانچ ماہ بعد کرائی گئی تھی۔
3937.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت سعد ؓ نے ان (حضرت عبدالرحمٰن ؓ) کو پیش کش کی کہ وہ اپنی بیویاں اور اپنا مال انہیں آدھا آدھا تقسیم کر دیتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال اور مال و اسباب میں برکت فرمائے! مجھے بازار کا راستہ بتائیں، چنانچہ انہیں (بازار جانے سے) کچھ پنیر اور گھی کا نفع ہوا۔ نبی ﷺ نے کچھ دنوں بعد حضرت عبدالرحمٰن پر زردی (خوشبو) کے اثرات دیکھے تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کتنا مہر دیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ولیمہ ضرور کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘
تشریح:
1۔اس حدیث سے انصار کا ایثار اور مہاجرین کی خودداری روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓنے کہا: میری دوبیویاں ہیں۔ آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزارنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار نے بہت بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور بے انتہا ایثار وقربانی سے کام لیا تھا لیکن مہاجرین نے ان کی نوازشات سے کوئی غلط فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا حاصل کیا جس سے وہ اپنی کمزور معیشت کی کمر سیدھی کرسکتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کےباغات تقسیم کردیں۔ آپ نےفرمایا: ’’نہیں۔انصار نے اپنے بھائیوں سے کہا:آپ باغات میں محنت کیا کریں،ہم پیداوار میں آپ کو شریک رکھیں گے۔انھوں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ہم اس پیش کش کوقبول کرتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3782۔)2۔ بہرحال ر سول اللہ ﷺ نے اس مؤاخات کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قراردیا جوخون اورمال سے مربوط تھا۔ اس بھائی چارے میں ایثار وہمدردی کے ملے جلے جذبات تھے، اس لیے سلسلہ مؤاخات نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔
مہاجرین جب اپنا گھر بار ،کاروبار اور عزیز واقارب چھوڑ کر مدینہ طیبہ آئے تو غم خواری اور آباد کاری کا مسئلہ سب سے بڑا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیمانہ سیاست اور ایک نادر حکمت عملی کے تحت مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تاکہ مہاجرین کی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمرسیدھی کرنے کے ساتھ جاہلیت کی عصبیتیں بھی ختم ہوجائیں۔محبت وغیرت جو کچھ ہو وہ اسلام کے لیے ہو۔رنگ ونسل اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں اور بلندی وپستی کامیعار صرف تقویٰ اور انسانیت ہو۔اس بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے غم خوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبی قرابت داروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔وراثت کا یہ حکم غزوہ بدر تک قائم رہا،پھر ایک دوسرے کے وارث بننے کا حکم تو منسوخ کردیاگیا،البتہ بھائی چارے کا عہد باقی رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں مہاجرین کے درمیان بھی مؤاخات کا سلسلہ قائم کیا تھا جس کی تفصیل کتب حدیث میں ملتی ہے اور دوسری بار مدینہ طیبہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ اس عنوان میں یہ دوسرا بھائی چارہ مقصود ہے۔
اس کا بیان اور عبد الرحمن بن عوف ؓنے فرمایا کہ جب ہم مدینہ ہجرت کرکے آئے تو آنحضرت ﷺنے میرے اور سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا ۔ حضرت ابو جحیفہ ؓ ( وہب بن عبد اللہ ) نے کہا آنحضرت ﷺنے حضرت سلمان فارسی اور ابو الدرداءکے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا ۔تشریح:کہتے ہیں بھائی بھائی بنانا دربار ہوا تھا ایک بار مکہ میں مہاجرین میں اس دفعہ ابوبکر‘عمرکواور حمزہ‘زید بن حارثہ کو اور عثمان‘عبدالرحمن بن عوف کو اور زبیر ابن مسعود کو اور عبیدہ ‘بلال کو اور مصعب بن عمیر‘سعد بن ابی وقاص اور ابوعبیدہ‘سالم مولیٰ ابی حذیفہ کو اور سعید بن زید‘طلحہؓ کو آپ نے بھائی بھائی بنا دیا تھا۔حضرت علیؓ شکایت کرنے آئے تو آپ نے ان کو اپنا بھائی بنایا دوسری بار مدینہ میں ہوا مہاجرین اور انصارمیں (وحیدی)ابتدا میں مؤاخات ترکہ میں میراث تک پہنچ گئی تھی یعنی ایسے منہ بولے بھائیوں کو مرنے والے بھائی کے ترکہ میں حصہ صرف حقیقی وارثوں کے لئے مخصوص ہوگیا۔مدینہ میں مؤاخات ہجرت کے پانچ ماہ بعد کرائی گئی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تشریف لائے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع انصاری ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت سعد ؓ نے ان (حضرت عبدالرحمٰن ؓ) کو پیش کش کی کہ وہ اپنی بیویاں اور اپنا مال انہیں آدھا آدھا تقسیم کر دیتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال اور مال و اسباب میں برکت فرمائے! مجھے بازار کا راستہ بتائیں، چنانچہ انہیں (بازار جانے سے) کچھ پنیر اور گھی کا نفع ہوا۔ نبی ﷺ نے کچھ دنوں بعد حضرت عبدالرحمٰن پر زردی (خوشبو) کے اثرات دیکھے تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کتنا مہر دیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: گھٹلی بھر سونا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ولیمہ ضرور کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے انصار کا ایثار اور مہاجرین کی خودداری روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓنے کہا: میری دوبیویاں ہیں۔ آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزارنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار نے بہت بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور بے انتہا ایثار وقربانی سے کام لیا تھا لیکن مہاجرین نے ان کی نوازشات سے کوئی غلط فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا حاصل کیا جس سے وہ اپنی کمزور معیشت کی کمر سیدھی کرسکتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کےباغات تقسیم کردیں۔ آپ نےفرمایا: ’’نہیں۔انصار نے اپنے بھائیوں سے کہا:آپ باغات میں محنت کیا کریں،ہم پیداوار میں آپ کو شریک رکھیں گے۔انھوں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ہم اس پیش کش کوقبول کرتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3782۔)2۔ بہرحال ر سول اللہ ﷺ نے اس مؤاخات کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قراردیا جوخون اورمال سے مربوط تھا۔ اس بھائی چارے میں ایثار وہمدردی کے ملے جلے جذبات تھے، اس لیے سلسلہ مؤاخات نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور حضرت سعد بن ربیع ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔
حضرت ابوجحیفہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو درداء ؓ کے مابین سلسلہ مؤاخات قائم کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمدبن یوسف بیکندی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ جب عبد الرحمن بن عوف ؓ ہجرت کرکے آئے تو آنحضرت ﷺ ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع انصاری ؓ کے ساتھ کرایا تھا۔ سعد ؓ نے ان سے کہا کہ ان کے اہل ومال میں سے آدھا وہ قبول کر لیں لیکن عبد الرحمن ؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اہل ومال میں برکت دے ۔ آپ تو مجھے بازار کا راستہ بتا دیں۔ چنانچہ انہوں نے تجارت شروع کردی اور پہلے دن انہیں کچھ پنیر اور گھی میں نفع ملا۔ چند دنوں کے بعد انہیں نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ ان کے کپڑوں پر (خوشبو کی) زردی کا نشان ہے تو آپ نے فرمایا عبدالرحمن یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ انہیں مہر میں تم نے کیا دیا؟ انہوں نے بتایا کہ ایک گھٹلی برابر سونا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اب ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے انصار کا ایثار اور مہاجرین کی خود داری روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ وہ کیسے پختہ کار مسلمان تھے۔ اس حدیث سے تجارت کی بھی ترغیب ظاہر ہے۔ اللہ پاک علماء کو خصوصاً توفیق دے کہ وہ اس پر غور کر کے اپنے مستقبل کی فکر کریں۔ اللهم آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When 'Abdur-Rahman bin Auf came to Madinah and the Prophet (ﷺ) established the bond of brotherhood between him and Sad bin Ar-Rabi-al-Ansari, Saud suggested that 'Abdur-Rahman should accept half of his property and family. 'Abdur Rahman said, "May Allah bless you in your family and property; guide me to the market." So 'Abdur-Rahman (while doing business in the market) made some profit of some condensed dry yoghurt and butter. After a few days the Prophet (ﷺ) saw him wearing clothes stained with yellow perfume. The Prophet (ﷺ) asked, "What is this, O 'Abdur-Rahman?" He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have married an Ansar' woman." The Prophet (ﷺ) asked, "What have you given her as Mahr?" He (i.e. 'Abdur-Rahman) said, "A piece of gold, about the weight of a date stone." Then the Prophet (ﷺ) said, Give a banquet, even though of a sheep."