جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس یہودیوں کے آنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The coming of the Jews to the Prophet (saws) on his arrival at Al-Madina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
3945.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کتاب ہی تو ہیں جنہوں نے آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ وہ اس کے کچھ حصے پر ایمان لائے جبکہ کچھ حصے کا انکار کر دیا۔
تشریح:
قرآن کریم میں ہے: ’’جیسا کہ ہم نے عذاب تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا۔جنھوں نے(اپنے) قرآن (تورات) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔‘‘ (الحجر:90۔91) اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں جنھوں نے اپنے قرآن، یعنی تورات وانجیل کے حصے بخرے کردیے، کچھ کو مانا اور کچھ کاانکار کردیا۔ اس حدیث میں اہل کتاب کے گندے کردار سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا ہے، اس لیے یہ لوگ قابل اعتبار نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب ہے کہ الفاظ حدیث کی مناسبت سے قرآنی الفاظ کی لغوی معنی تشریح کرتے ہیں،چونکہ حدیث میں قوم یہود کا ذکر آیا ہے،اس لیے قرآن میں آنے والے دوالفاظ کی تشریح کردی۔پہلا لفظ(هَادُوا) ہے جو سورہ مائدہ:(41) میں ہے اس کے معنی ہیں: وہ لوگ جو یہودی ہوئے اوردوسرا لفظ(هُدْنَا)ہے جو سورہ اعراف:(156) میں ہے۔اس کے معنی"ہم نے توبہ کی" ہیں۔ابوعبیدہ نے بھی اسی طرح ان الفاظ کی تشریح کی ہے۔( عمدۃ القاری 660/11۔)
سورۃ البقرہ میں لفظ «هادوا» کے معنی ہیں کہ یہودی ہوئے اور سورۃ الاعراف میں «هدنا» «تبنا» کے معنی میں ہے (ہم نے توبہ کی) اسی سے «هائد» کے معنی «تائب» یعنی توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کتاب ہی تو ہیں جنہوں نے آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ وہ اس کے کچھ حصے پر ایمان لائے جبکہ کچھ حصے کا انکار کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
قرآن کریم میں ہے: ’’جیسا کہ ہم نے عذاب تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا۔جنھوں نے(اپنے) قرآن (تورات) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔‘‘ (الحجر:90۔91) اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں جنھوں نے اپنے قرآن، یعنی تورات وانجیل کے حصے بخرے کردیے، کچھ کو مانا اور کچھ کاانکار کردیا۔ اس حدیث میں اہل کتاب کے گندے کردار سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا ہے، اس لیے یہ لوگ قابل اعتبار نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
قرآن میں (هَادُوا) کے معنی ہیں: "انہوں نے یہودیت کو اختیار کیا۔" اور (هُدْنَا) کے معنی ہیں: "ہم نے توبہ کی۔" اسی سے هائد بنا ہے جس کے معنی ہیں توبہ کرنے والا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر (جابر بن ابی وحشیہ) نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہا کہ وہ اہل کتاب ہی تو ہیں جنہوں نے آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، بعض باتوں پر ایمان لائے اور بعض باتوں کا انکار کیا۔
حدیث حاشیہ:
جیسے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کیا۔ اس حدیث کی مناسبت باب سے مشکل ہے۔ عینی نے کہا اگلی حدیث میں اہل کتاب کا ذکر ہے، اسی مناسبت سے حضرت ابن عباس ؓ کا اثر بیان کردیا۔ یہودیوں کی جس بری خصلت کا یہاں ذکر ہوا یہی سب عام مسلمانوں میں بھی پیدا ہو چکی ہے کہ بعض آیتوں پر عمل کرتے ہیں اور عملاً بعض کو جھٹلا تے ہیں بعض سنتوں پر عمل کرتے ہیں بعض کی مخالفت کرتے ہیں۔ عام طور پر مسلمانوں کا یہی حال ہے آنحضرت ﷺ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میری امت بھی یہودیوں کے قدم بہ قدم چلے گی وہی حالت آج ہورہی ہے۔ رحم اللہ علینا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): They, the people of the Scriptures, divided this Scripture into parts, believing in some portions of it and disbelieving the others. (See 15:91)