باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے، پھر اس نے تمہاری فریاد سن لی، اور فرمایا کہ تمہیں لگاتار ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا اور اللہ نے یہ بس اس لیے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اس سے اطمینان حاصل ہو جائے، ورنہ فتح تو بس اللہ ہی کے پاس سے ہے، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: “(Remember) when you sought help of your Lord and He answered you… verily, Allah is Severe in punishment.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3952.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود ؓ میں ایک ایسی بات دیکھی، اگر وہ بات مجھے حاصل ہوتی تو کسی نیکی کو اس کے برابر خیال نہ کرتا۔ ہوا یوں کہ حضرت مقداد بن اسود ؓ نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ مشرکین پر بددعا کر رہے تھے۔ حضرت مقداد ؓ نے کہا: ہم ایسا نہیں کہیں گے جیسا حضرت موسٰی ؑ کی قوم نے ان سے کہا تھا: ’’تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور وہاں دونوں لڑائی کرو۔‘‘ بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے لڑیں گے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا تھا اور آپ ان پاکیزہ جذبات سے مسرور ہوئے۔
تشریح:
ہوا یوں کے رسول اللہ ﷺ بدر کے دن ابوسفیان کا قافلہ لوٹنے کے لیے لوگوں کو ہمراہ لے کر مدینہ طیبہ سے نکلے تھے۔ وادی صفراء میں جا کر پتہ چلا کہ ابوسفیان اپنے قافلے کے ہمراہ محفوظ طریقے سے نکل چکا ہے اور قریش نے مقام بدر کا ارادہ کیا ہے اور وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ ایسے حالات میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کیا۔حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے یکے بعد دیگرے آپ کو یقین دلایا، چونکہ یہ پہلی لڑائی تھی اورانصار سے معاہدہ نصرت وتحفظ کاتھا، وہ بھی مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ مدینے سے باہردشمنوں سے جنگ لڑیں گے، اس لیے آپ انصار کی طرف سے اظہار جذبات کے منتظر تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو!مجھے مشورہ دو، اس سے مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر حضت سعد بن معاذ ؓ نے بھانپ لی، چنانچہ انھوں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا جو بھی ارادہ ہو آپ اس کے مطابق پیش قدمی کریں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگرآپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی اس سے پیچھے نہیں رہے گا۔ حضرت سعد ؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور آپ پر نشاط طاری ہوئی۔ (فتح الباري:359/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3806
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3952
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3952
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3952
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
یہ آیات سورہ انفال کی ہیں، قبل ازیں سورہ آل عمران کی آیات کا حوالہ تھا،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں قسم کی آیات کو جمع کرنا چاہتے ہیں کہ ان آیات میں غزوہ بدر کا ذکر کیا گیا ہے۔پہلے ایک ہزارفرشتے بھیجنے کا وعدہ تھا،پھر تین ہزار کاوعدہ ہوا،جب گھبراہٹ لاحق ہوئی تو یہ تعداد بڑھا کر مشروط طور پر پانچ ہزار کردی،نیز ان آیات میں دیگر انعامات کا بھی ذکر ہے۔جب مسلمان مقام بدر پر دیر سے پہنچے تو کفار میٹھے چشموں پر قبضہ کرچکے تھے،نشیبی زمین بھی ان کے قبضے میں آچکی تھی،ایسے حالات میں مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جنبی ہوگئے تو انھوں نے بحالت جنابت ہی نمازیں پڑھیں،پھر اللہ تعالیٰ نے تیز بارش نازل فرمائی جس سے جسمانی اور روحانی طہارت کا بندوبست ہوا۔اس بارش سے ریتلی زمین بھی جم گئی۔جب کہ کفار پھسلن کی وجہ سے پریشان ہوئے۔اس قسم کے دیگرانعامات کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے۔تفصیلات معلوم کرنے کے لیے کسی بھی مستند تفسیر کا مطالعہ کریں۔واللہ اعلم۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود ؓ میں ایک ایسی بات دیکھی، اگر وہ بات مجھے حاصل ہوتی تو کسی نیکی کو اس کے برابر خیال نہ کرتا۔ ہوا یوں کہ حضرت مقداد بن اسود ؓ نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ مشرکین پر بددعا کر رہے تھے۔ حضرت مقداد ؓ نے کہا: ہم ایسا نہیں کہیں گے جیسا حضرت موسٰی ؑ کی قوم نے ان سے کہا تھا: ’’تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور وہاں دونوں لڑائی کرو۔‘‘ بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے لڑیں گے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا تھا اور آپ ان پاکیزہ جذبات سے مسرور ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یوں کے رسول اللہ ﷺ بدر کے دن ابوسفیان کا قافلہ لوٹنے کے لیے لوگوں کو ہمراہ لے کر مدینہ طیبہ سے نکلے تھے۔ وادی صفراء میں جا کر پتہ چلا کہ ابوسفیان اپنے قافلے کے ہمراہ محفوظ طریقے سے نکل چکا ہے اور قریش نے مقام بدر کا ارادہ کیا ہے اور وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ ایسے حالات میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کیا۔حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے یکے بعد دیگرے آپ کو یقین دلایا، چونکہ یہ پہلی لڑائی تھی اورانصار سے معاہدہ نصرت وتحفظ کاتھا، وہ بھی مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ مدینے سے باہردشمنوں سے جنگ لڑیں گے، اس لیے آپ انصار کی طرف سے اظہار جذبات کے منتظر تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو!مجھے مشورہ دو، اس سے مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر حضت سعد بن معاذ ؓ نے بھانپ لی، چنانچہ انھوں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا جو بھی ارادہ ہو آپ اس کے مطابق پیش قدمی کریں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگرآپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی اس سے پیچھے نہیں رہے گا۔ حضرت سعد ؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور آپ پر نشاط طاری ہوئی۔ (فتح الباري:359/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، ان سے مخارق بن عبداللہ بجلی نے، ان سے طارق بن شہاب نے، انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے مقداد بن اسود ؓ سے ایک ایسی بات سنی کہ اگر وہ بات میری زبان سے ادا ہوجاتی تو میرے لیے کسی بھی چیز کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہوتی، وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور اس وقت مشرکین پر بددعا کررہے تھے، انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو حضرت موسی کی قوم نے کہا تھا کہ جاو، تم اور تمہارا رب ان سے جنگ کرو، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے جمع ہوکر لڑیں گے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ خوش ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
ہوایہ تھا کے بدر کے دن آنحضرت ﷺ قریش کے ایک قافلہ کی خبرسن کر مدینہ سے نکلے تھے۔ وہاں قافلہ تونکل گیا فوج سے لڑائی ٹھن گئی، جس میں خود کفار مکہ جارح کی حیثیت سے تیار ہوکر آئے تھے۔ اس نازک مرحلہ پر رسول کریم ﷺ نے جملہ صحابہ سے جنگ کے متعلق نظریہ معلوم فرمایا۔ اس وقت جملہ مہاجرین وانصار نے آپ کو تسلی دی اوراپنی آمادگی کا اظہار کیا۔ انصارنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ اگر برک الغماد نامی دور دراز جگہ تک ہم کو جنگ کے لیے لے جائیں گے تو بھی ہم آپ کے ساتھ چلنے اور جان ودل سے لڑنے کو حاضر ہیں۔ اس پر آپ بے حد مسرور ہوئے۔ ﷺ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Masud (RA): I witnessed Al-Miqdad bin Al-Aswad in a scene which would have been dearer to me than anything had I been the hero of that scene. He (i.e. Al-Miqdad) came to the Prophet (ﷺ) while the Prophet (ﷺ) was urging the Muslims to fight with the pagans. Al-Miqdad said, "We will not say as the People of Moses (ؑ) said: Go you and your Lord and fight you two. (5.27). But we shall fight on your right and on your left and in front of you and behind you." I saw the face of the Prophet (ﷺ) getting bright with happiness, for that saying delighted him.