Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The killing of Abu Jahl)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3980.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ بدر کے غیر آباد کنویں پر کھڑے ہوئے اور (اس میں پڑے ہوئے کافروں سے) فرمایا: ’’کیا تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچا پا لیا ہے؟‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اب یہ اسے سن رہے ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ سے یہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صرف یہ فرمایا تھا: ’’وہ اب جانتے ہیں کہ میں انہیں جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔ پھر انہوں نے یہ پوری آیت پڑھی: ’’بےشک آپ ان مردوں کو سنا نہیں سکتے۔‘‘
تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ ان میں کفار قریش کا ذکر ہے جو میدان بدر میں جہنم واصل ہوئے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے ایک غیرآباد کنویں پر کھڑے ہو کرانھیں جہنم میں جانے کی خبر دی لیکن شارحین نے اس مقام پر مسئلہ سماع موتی کی تفصیل بیان کی ہےحالانکہ اس مقام پر قطعاً اس کی ضرورت نہیں۔ ہم کتاب الجنائز میں اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کر چکے ہیں۔ 2۔ بعض اہل علم نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے (يَسْمَعُونَ) کے بجائے (يَعْلَمُونَ) بیان کیا ہے ان کے بقول جب مردوں کے لیے علم ثابت ہے تو سماع کیسے محال ہو گا؟ ممکن ہے دونوں ہوں اگر علم (ان کا جاننا) خرق عادت کے طور پر ہے تو سماع سننا بھی ایسے ہو گا یا جیسے علم زندہ کیا گیا ایسے سماع کے لیے بھی زندہ کیا گیا ہوگا۔ہمارے رجحان کے مطابق اس نکتہ آفرینی کا یہ جواب ہے کہ علم (جاننے) کا تعلق تو روح سے ہے جو موجود ہے اور اسے فنا نہیں ہے اورسماع (سننے) کا تعلق آلہ روح کے زندہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ یہ بات ہی زیر بحث ہے کیونکہ روح کا علم یعنی جاننا یقینی اور باقی ہے۔ بحث اس سماع سے متعلق ہے جس کا تعلق آلہ روح یعنی کانوں سے ہے آیا مرنے کے بعد سماع آلہ روح (کانوں) سے حاصل ہوتا ہے یا نہیں جبکہ مرنے کے بعد جملہ حواس ختم ہو چکے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کردہ آیت میں اسماع (سنانے ) کی نفی ہے سماع (سننے)کی نہیں حالانکہ اسماع اصل ہے اور سماع اس کی فرع ہے جب اصل نہیں تو فرع کیسے ہو گی۔3۔بہر حال قرآنی آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ مقتولین بدر کو وقتی طور پر سنانا خصوصیات رسالت میں سے تھا۔ اس پر کسی دوسرے کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ جب چاہے جسے چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتاہے۔اہل بدعت کا یہ عقیدہ کہ مدفون بزرگ ان کی فریاد سنتے ہیں اور حاجات پوری کرتے ہیں سراسر باطل ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3834
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3980
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3980
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3980
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بعض نسخوں میں یہ عنوان ان الفاظ میں ہے:(باب قتل أبي جهل وغيره)"ابوجہل وغیرہ کے قتل وغیرہ کا بیان"اور یہ مناسب معلوم ہوتاہے کیونکہ اس عنوان کے تحت ابوجہل کے علاوہ دوسرے مقتولوں کا بھی ذکر ہے۔( عمدۃ القاری 18/12۔)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ بدر کے غیر آباد کنویں پر کھڑے ہوئے اور (اس میں پڑے ہوئے کافروں سے) فرمایا: ’’کیا تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچا پا لیا ہے؟‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اب یہ اسے سن رہے ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ سے یہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صرف یہ فرمایا تھا: ’’وہ اب جانتے ہیں کہ میں انہیں جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔ پھر انہوں نے یہ پوری آیت پڑھی: ’’بےشک آپ ان مردوں کو سنا نہیں سکتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ ان میں کفار قریش کا ذکر ہے جو میدان بدر میں جہنم واصل ہوئے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے ایک غیرآباد کنویں پر کھڑے ہو کرانھیں جہنم میں جانے کی خبر دی لیکن شارحین نے اس مقام پر مسئلہ سماع موتی کی تفصیل بیان کی ہےحالانکہ اس مقام پر قطعاً اس کی ضرورت نہیں۔ ہم کتاب الجنائز میں اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کر چکے ہیں۔ 2۔ بعض اہل علم نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے (يَسْمَعُونَ) کے بجائے (يَعْلَمُونَ) بیان کیا ہے ان کے بقول جب مردوں کے لیے علم ثابت ہے تو سماع کیسے محال ہو گا؟ ممکن ہے دونوں ہوں اگر علم (ان کا جاننا) خرق عادت کے طور پر ہے تو سماع سننا بھی ایسے ہو گا یا جیسے علم زندہ کیا گیا ایسے سماع کے لیے بھی زندہ کیا گیا ہوگا۔ہمارے رجحان کے مطابق اس نکتہ آفرینی کا یہ جواب ہے کہ علم (جاننے) کا تعلق تو روح سے ہے جو موجود ہے اور اسے فنا نہیں ہے اورسماع (سننے) کا تعلق آلہ روح کے زندہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ یہ بات ہی زیر بحث ہے کیونکہ روح کا علم یعنی جاننا یقینی اور باقی ہے۔ بحث اس سماع سے متعلق ہے جس کا تعلق آلہ روح یعنی کانوں سے ہے آیا مرنے کے بعد سماع آلہ روح (کانوں) سے حاصل ہوتا ہے یا نہیں جبکہ مرنے کے بعد جملہ حواس ختم ہو چکے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کردہ آیت میں اسماع (سنانے ) کی نفی ہے سماع (سننے)کی نہیں حالانکہ اسماع اصل ہے اور سماع اس کی فرع ہے جب اصل نہیں تو فرع کیسے ہو گی۔3۔بہر حال قرآنی آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ مقتولین بدر کو وقتی طور پر سنانا خصوصیات رسالت میں سے تھا۔ اس پر کسی دوسرے کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ جب چاہے جسے چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتاہے۔اہل بدعت کا یہ عقیدہ کہ مدفون بزرگ ان کی فریاد سنتے ہیں اور حاجات پوری کرتے ہیں سراسر باطل ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عثمان نے بیان کیا‘ ہم سے عبدہ نے بیان کیا‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے والد نے اوران سے حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہوکر فرمایا‘ کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پالیا؟ پھرآپ نے فر مایا‘ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔ اس حدیث کا ذکر جب حضرت عائشہ ؓ سے کیا گیا توانہوں نے کہا کہ حضور ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت ”بے شک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ پوری پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
قرآنی آیت صریح دلیل ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ یہی حق ہے۔ مقتولین بدر کو سنانا وقتی طور پر خصوصیات رسالت میں سے تھا۔ اس پر دوسرے مردوں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں‘ اللہ تعالی جب چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتا ہے۔ جیسا کہ قبرستان میں السلامُ علیکم أهلَ الدیار حدیث کی مسنون دعاء سے ظاہر ہے۔ باقی اہل بدعت کا یہ خیال کہ وہ جب بھی مدفون باباؤں کی قبریں پوجنے جائیں وہ بابا ان کی فریاد سنتے اور حا جات پوری کرتے ہیں‘ سراسر باطل اور کافرانہ ومشرکانہ خیال ہے جس کی شرعاً کو ئی اصل نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ؓ ہر دو کے خیالات پر مزید تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) stood at the well of Badr (which contained the corpses of the pagans) and said, "Have you found true what your lord promised you?" Then he further said, "They now hear what I say." This was mentioned before 'Aisha (RA) and she said, "But the Prophet (ﷺ) said, 'Now they know very well that what I used to tell them was the truth.' Then she recited (the Holy Verse):-- "You cannot make the dead hear... ...till the end of Verse)." (30.52)