باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Superiority of those who fought the battle of Badr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3986.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اُحد کے دن تیراندازوں پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا تو مشرکین نے اس جنگ میں ہمارے ستر ساتھیوں کو شہید کر دیا جبکہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس مشرکین کو نقصان پہنچایا تھا۔ ان میں سے ستر قیدی تھے اور ستر قتل ہوئے تھے۔ ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہوتی ہے۔
تشریح:
غزوہ احد میں پیش آنے والا ایک واقعہ انتہائی اختصار کے ساتھ اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ دراصل فوج کے کمانڈر کا دوران جنگ میں اہل کام اپنی فوج کی ترتیب اور ان کی مورچہ بندی ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ نے جبل اُحد کو اپنی پشت پر رکھا تاکہ یہ طرف محفوظ ہو جائے البتہ اس کا ایک درہ غیر محفوظ تھا وہاں آپ نے حضرت عبد اللہ بن جبیر ؓ کی سر براہی میں پچاس تیرانداز مقرر کیے تاکہ دشمن اس طرف سے مسلمانوں پر حملہ آورنہ ہو، اور انھیں تاکید کردی کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تم نے اس مقام کو نہیں چھوڑنا۔ جب مسلمانوں نے کفار پر حملہ کیا تو وہ اس کی تاب نہ لا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب اس صورت حال کو دیکھا تو کفارکا مال واسباب جمع کرنا شروع کردیا فوج کا جو دستہ پہاڑی پر تعنیات تھا وہ بھی اتر کر اچانک غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگیا۔ خالد بن ولید نے جب دیکھا کہ درہ بالکل خالی ہے تو پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اچانک حملہ دیکھ کر مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تو کچھ مسلمان مدینے کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹ آیا جبکہ تیسرا گروه میدان چھوڑ کر کنارے پر بیٹھ گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے خود رسول اللہ ﷺ کو زخم آئے شہدائے احد کی تعداد ستر ہے۔ اس کا قرینہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہےارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب تم پر مصیبت آئی تو اس سے دو گنا صدمہ تم کفار کو پہلے پہنچاچکے تھے۔‘‘ (آل عمران:165/3)اس آیت میں خطاب اہل اُحد سے ہے کہ تم نے اس نقصان سے پہلے دو گنا نقصان غزوہ بدر میں کفار کو پہنچایا تھا اور اس پر اتفاق ہے کہ غزوہ بدر میں ستر کفار کو قتل کیا اور ستر ہی قیدی بنائے گئے تھے کفار کا یہ نقصان احد کے وقت مسلمانوں کے نقصان سے دوگنا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور جن مؤرخین نے ان کی تعداد ستر سے کم و بیش بتائی ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ (فتح الباري:384/7) واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3839
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3986
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3986
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3986
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اُحد کے دن تیراندازوں پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا تو مشرکین نے اس جنگ میں ہمارے ستر ساتھیوں کو شہید کر دیا جبکہ نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس مشرکین کو نقصان پہنچایا تھا۔ ان میں سے ستر قیدی تھے اور ستر قتل ہوئے تھے۔ ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
غزوہ احد میں پیش آنے والا ایک واقعہ انتہائی اختصار کے ساتھ اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ دراصل فوج کے کمانڈر کا دوران جنگ میں اہل کام اپنی فوج کی ترتیب اور ان کی مورچہ بندی ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ نے جبل اُحد کو اپنی پشت پر رکھا تاکہ یہ طرف محفوظ ہو جائے البتہ اس کا ایک درہ غیر محفوظ تھا وہاں آپ نے حضرت عبد اللہ بن جبیر ؓ کی سر براہی میں پچاس تیرانداز مقرر کیے تاکہ دشمن اس طرف سے مسلمانوں پر حملہ آورنہ ہو، اور انھیں تاکید کردی کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تم نے اس مقام کو نہیں چھوڑنا۔ جب مسلمانوں نے کفار پر حملہ کیا تو وہ اس کی تاب نہ لا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب اس صورت حال کو دیکھا تو کفارکا مال واسباب جمع کرنا شروع کردیا فوج کا جو دستہ پہاڑی پر تعنیات تھا وہ بھی اتر کر اچانک غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگیا۔ خالد بن ولید نے جب دیکھا کہ درہ بالکل خالی ہے تو پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اچانک حملہ دیکھ کر مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تو کچھ مسلمان مدینے کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹ آیا جبکہ تیسرا گروه میدان چھوڑ کر کنارے پر بیٹھ گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے خود رسول اللہ ﷺ کو زخم آئے شہدائے احد کی تعداد ستر ہے۔ اس کا قرینہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہےارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب تم پر مصیبت آئی تو اس سے دو گنا صدمہ تم کفار کو پہلے پہنچاچکے تھے۔‘‘ (آل عمران:165/3)اس آیت میں خطاب اہل اُحد سے ہے کہ تم نے اس نقصان سے پہلے دو گنا نقصان غزوہ بدر میں کفار کو پہنچایا تھا اور اس پر اتفاق ہے کہ غزوہ بدر میں ستر کفار کو قتل کیا اور ستر ہی قیدی بنائے گئے تھے کفار کا یہ نقصان احد کے وقت مسلمانوں کے نقصان سے دوگنا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور جن مؤرخین نے ان کی تعداد ستر سے کم و بیش بتائی ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ (فتح الباري:384/7) واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عمرو بن خالد نے بیا ن کیا‘ ہم سے زہیر نے بیان کیا‘ ہم سے ابو اسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عا زب ؓ سے سنا‘ وہ بیان کررہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے احد کی لڑائی میں تیر اندازوں پر حضرت عبد اللہ بن جبیر ؓ کو سردار مقرر کیا تھا اس لڑائی میں ہمارے ستر آدمی شہید ہوئے تھے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابیوں سے بدر کی لڑائی میں ایک سو چا لیس مشرکین کو نقصان پہنچا تھا ستر ان میں سے قتل کر دئے گئے اور ستر قید ی بنا کر لائے گئے اس پر ابو سفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی سی ہے۔
حدیث حاشیہ:
جنگ احد میں آنحضرت ا نے عبدا للہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ احد پہاڑ کے ایک نا کے پر اس شرط کے ساتھ مقرر فرمایا کہ ہم ہا ریں یا جیتیں ہمارے حکم کے بغیر یہ نا کہ ہر گز نہ چھوڑنا شروع میں جب مسلمانوں کی فتح ہونے لگی تو عبد اللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے وہ ناکہ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ جنگ احد کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib: On the day of Uhud the Prophet (ﷺ) appointed 'Abdullah bin Jubair as chief of the archers, and seventy among us were injured and martyred. On the day (of the battle) of Badr, the Prophet (ﷺ) and his companions had inflicted 14O casualties on the pagans, 7O were taken prisoners, and 7O were killed. Abu Sufyan (RA) said, "This is a day of (revenge) for the day of Badr and the issue of war is undecided ."