مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4.
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبانی بندش وحی کا واقعہ سنا، آپ نے بیان فرمایا: ’’ایک بار میں (کہیں) جا رہا تھا کہ مجھے اچانک آسمان سے ایک آواز سنائی دی، میں نے نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اسے دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہو گیا۔ گھر لوٹ کر میں نے اہل خانہ سے کہ: مجھے چادر اوڑھاؤ، مجھے چادر اوڑھاؤ۔ (انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔) اس وقت اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی: ’’اے لحاف میں لپٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو، اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اور اپنے کپڑے پاک رکھو، اور گندگی سے دور رہو۔‘‘ پھر نزول وحی میں تیزی آ گئی اور لگاتار نازل ہونے لگی۔‘‘ اس حدیث کو (لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ) عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح (عبداللہ بن صالح) نے بھی روایت کیا ہے۔ اور ابن شہاب زہری سے (عقیل کے علاوہ) ہلال بن رداد نے بھی بیان کیا ہے، نیز یونس اور معمر نے (گزشتہ حدیث میں مذکور فُؤَادُهُ کے بجائے) بَوَادِرُهُ کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
تشریح:
1۔ یہ روایت پہلی روایت کا تتمہ ہے جسے ایک دوسری سند سے بیان کیاگیا ہے۔ پہلی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک حضرت عروہ کے واسطے سے پہنچتی ہے جبکہ اس روایت کی سند حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتی ہے۔ پہلی روایت میں ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ عروہ عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بندش وحی تک کا واقعہ بیان کیا تھا اور اس روایت میں بواسطہ ابوسلمہ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا نتیجہ ذکر کیا ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جہاں تفرد وخفا کی وجہ سے حدیث میں شک وشبہ یا تردد کا اندیشہ ہو وہاں الفاظ حدیث کی تائید میں مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں متابعت کہا جاتاہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ایک متابعت تامہ اوردوسری متابعت ناقصہ یا قاصرہ۔ جب راوی کسی دوسرے کی موافقت کرتے وقت اسی استاد سے بیان کرے جس سے پہلا راوی بیان کررہا ہے تو یہ متابعت تامہ ہوگی۔ اور اگر دوران سند میں دادا استاد یا اس سے اوپر موافقت ہوتو وہ متابعت قاصرہ ہوگی۔ یہاں بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح عبداللہ بن صالح کا اس روایت کو بیان کرنا متابعت تامہ ہے اور ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے عقیل کے علاوہ ہلال بن رداد کا اس روایت کی تخریج کرنا متابعت ناقصہ ہے۔ پھر آپ نے یونس اور معمر کے حوالے سے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے کہ ان دونوں نے ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے فُؤَادُهُ کے بجائے بَوَادِرُهُ بيان كيا ہے۔ بوادر، بادرہ کی جمع ہے۔ اس سے مراد گردن اور کندھے کا درمیانی حصہ ہے جو شدت خوف کے وقت اسی طرح پھڑکنے لگتا ہے جیسے دل کانپتا ہے۔ گویا دونوں روایتیں اصل معنی کے اعتبار سے برابر ہیں۔ کیونکہ دونوں ہی گھبراہٹ پر دلالت کرتی ہیں۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وحی ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔﴾ ہے جبکہ حدیث سابق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی وحی ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ۔۔۔۔۔﴾ ہے۔ دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔﴾ اس اعتبار سے پہلی وحی ہے کہ بندش وحی کے بعد دوبارہ وحی کے نزول کا آغاز سورہ مدثر سے ہوا، یعنی پہلی وحی ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کے بعد وحی کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہوگیاتھا۔ 4۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمبل اوڑھانے کا مطالبہ کیا۔ اس کی وجہ شاید آپ کی گھبراہٹ تھی جس کی وجہ سے آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور آپ نے اہل خانہ سے کپڑا اوڑھادینے کی فرمائش کی کیونکہ بسا اوقات گھبراہٹ سے بھی کپڑا اوڑھا جاتا ہے۔ اور ایسا صرف پہلی بار ہوا۔ بعد ازاں جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو بوجھ پڑنے سے آپ کو سخت پسینہ آجاتا لیکن گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ آپ کپڑا اوڑھانے ہی کا مطالبہ کرتے تھے۔ 5۔ (حَمِيَّ الوَحيُ) کے لغوی معنی ہیں: ’’وحی گرم ہوگئی۔‘‘ جب کوئی چیز گرم ہوجائے تو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔تو (تَوَاتَرَا) کے لفظ سے یہ اشتباہ ختم ہوگیا، یعنی وحی کامعاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ تسلسل کے ساتھ اس کا آغاز ہوگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4
تمہید کتاب
وحی کے لغوی معنی پوشیدہ طور پر کسی کو بات بتانا ہیں اور اصطلاح شرع میں اس کلام وپیغام کو وحی کہاجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے حضرات انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کا آغاز وحی کے بیان سے فرمایا کیونکہ انسانی رشدوہدایت کے لیے جو ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اس کاتمام ترانحصار وحی پر ہے،نیز اس نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان کی صداقت بھی وحی پر موقوف ہے۔لہذا جب تک وحی کی عظمت سامنے نہ آئے اس وقت تک اسلام کی حقانیت اور حضرات انبیاء علیہ السلام کی صداقت مشکوک رہے گی۔مزیدبرآں یہ بتانا مقصود ہے کہ دین حنیف لوگوں کے جذبات وقیاسات کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کی مرضیات پر مبنی شرعی احکام کا نام ہے اور اس عالم رنگ وبو میں منشائے الٰہی معلوم کرنے کے لیے انسانوں کو جس قطعی اور یقینی چیز کی ضرورت ہے وہ وحی الٰہی ہے جو سب سے زیادہ قابل اعتبار اور لائق ووثوق ہے جس کے اندر نہ توتغیر کا امکان ہے اور نہ سہو ونسیان ہی کاشائبہ ہے۔اس وحی کی عظمت وشوکت کا کیاحال ہوگا جس کا بھیجنے والامالک ارض وسما لانے والے قدسی صفات کے حامل حضرت جبرئیل علیہ السلام اور وصول کرنے والے جامع الکمالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ایسی عظیم الشان اور جلیل القدر وحی کہاں سے،کس طرح،کس کے پاس،کون لایا؟کن حالات میں،کس مقام پر اس کا آغاز ہوا؟اس کتاب (بدء الوحي) میں انھی سوالات کا جواب دیاگیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص تالیفی اسلوب کے اعتبار سے اس مضمون کو دیگر مضامین میں سے پہلے بیان کرکے غالباً اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میری اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوگا وہ عقائد ہوں یا عبادات ،معاملات ہوں یا اخلاقیات ،اصول ہوں یا فروع،ان سب کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبانی بندش وحی کا واقعہ سنا، آپ نے بیان فرمایا: ’’ایک بار میں (کہیں) جا رہا تھا کہ مجھے اچانک آسمان سے ایک آواز سنائی دی، میں نے نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اسے دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہو گیا۔ گھر لوٹ کر میں نے اہل خانہ سے کہ: مجھے چادر اوڑھاؤ، مجھے چادر اوڑھاؤ۔ (انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔) اس وقت اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی: ’’اے لحاف میں لپٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو، اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اور اپنے کپڑے پاک رکھو، اور گندگی سے دور رہو۔‘‘ پھر نزول وحی میں تیزی آ گئی اور لگاتار نازل ہونے لگی۔‘‘ اس حدیث کو (لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ) عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح (عبداللہ بن صالح) نے بھی روایت کیا ہے۔ اور ابن شہاب زہری سے (عقیل کے علاوہ) ہلال بن رداد نے بھی بیان کیا ہے، نیز یونس اور معمر نے (گزشتہ حدیث میں مذکور فُؤَادُهُ کے بجائے) بَوَادِرُهُ کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ روایت پہلی روایت کا تتمہ ہے جسے ایک دوسری سند سے بیان کیاگیا ہے۔ پہلی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک حضرت عروہ کے واسطے سے پہنچتی ہے جبکہ اس روایت کی سند حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتی ہے۔ پہلی روایت میں ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ عروہ عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بندش وحی تک کا واقعہ بیان کیا تھا اور اس روایت میں بواسطہ ابوسلمہ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا نتیجہ ذکر کیا ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جہاں تفرد وخفا کی وجہ سے حدیث میں شک وشبہ یا تردد کا اندیشہ ہو وہاں الفاظ حدیث کی تائید میں مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں متابعت کہا جاتاہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ایک متابعت تامہ اوردوسری متابعت ناقصہ یا قاصرہ۔ جب راوی کسی دوسرے کی موافقت کرتے وقت اسی استاد سے بیان کرے جس سے پہلا راوی بیان کررہا ہے تو یہ متابعت تامہ ہوگی۔ اور اگر دوران سند میں دادا استاد یا اس سے اوپر موافقت ہوتو وہ متابعت قاصرہ ہوگی۔ یہاں بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح عبداللہ بن صالح کا اس روایت کو بیان کرنا متابعت تامہ ہے اور ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے عقیل کے علاوہ ہلال بن رداد کا اس روایت کی تخریج کرنا متابعت ناقصہ ہے۔ پھر آپ نے یونس اور معمر کے حوالے سے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے کہ ان دونوں نے ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے فُؤَادُهُ کے بجائے بَوَادِرُهُ بيان كيا ہے۔ بوادر، بادرہ کی جمع ہے۔ اس سے مراد گردن اور کندھے کا درمیانی حصہ ہے جو شدت خوف کے وقت اسی طرح پھڑکنے لگتا ہے جیسے دل کانپتا ہے۔ گویا دونوں روایتیں اصل معنی کے اعتبار سے برابر ہیں۔ کیونکہ دونوں ہی گھبراہٹ پر دلالت کرتی ہیں۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وحی ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔﴾ ہے جبکہ حدیث سابق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی وحی ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ۔۔۔۔۔﴾ ہے۔ دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔۔۔۔۔﴾ اس اعتبار سے پہلی وحی ہے کہ بندش وحی کے بعد دوبارہ وحی کے نزول کا آغاز سورہ مدثر سے ہوا، یعنی پہلی وحی ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کے بعد وحی کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہوگیاتھا۔ 4۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمبل اوڑھانے کا مطالبہ کیا۔ اس کی وجہ شاید آپ کی گھبراہٹ تھی جس کی وجہ سے آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور آپ نے اہل خانہ سے کپڑا اوڑھادینے کی فرمائش کی کیونکہ بسا اوقات گھبراہٹ سے بھی کپڑا اوڑھا جاتا ہے۔ اور ایسا صرف پہلی بار ہوا۔ بعد ازاں جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو بوجھ پڑنے سے آپ کو سخت پسینہ آجاتا لیکن گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ آپ کپڑا اوڑھانے ہی کا مطالبہ کرتے تھے۔ 5۔ (حَمِيَّ الوَحيُ) کے لغوی معنی ہیں: ’’وحی گرم ہوگئی۔‘‘ جب کوئی چیز گرم ہوجائے تو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔تو (تَوَاتَرَا) کے لفظ سے یہ اشتباہ ختم ہوگیا، یعنی وحی کامعاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ تسلسل کے ساتھ اس کا آغاز ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے یہ روایت نقل کی کہ آپ ﷺ نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے بلال بن رواد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ "فُؤَادُهُ" کی جگہ "بَوَادِرُهُ" نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
بوادر،بادرۃ کی جمع ہے۔ جوگردن اور مونڈھے کے درمیانی حصہ جسم پر بولا جاتا ہے۔ کسی دہشت انگیز منظر کو دیکھ کر بسااوقات یہ حصہ بھی پھڑکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس حیرت انگیز واقعہ سے آپ کے کاندھے کا گوشت تیزی سے پھڑکنے لگا۔
ابتدائے وحی کے متعلق اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل منامات صادقہ ( سچے خوابوں ) کے ذریعہ آپ کا رابطہ عالم مثال سے قائم کرایا گیا، ساتھ ہی آپ نے غارحرا میں خلوت اختیارکی۔ یہ غار مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپ نے وہاں ’’ تحنث ‘‘ اختیار فرمایا۔ لفظ تحنث زمانہ جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اس زمانہ میں عبادت کا اہم طریقہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کسی گوشے میں دنیاومافیہا سے الگ ہوکر کچھ راتیں یادِ خدا میں بسرکرے۔ چونکہ آپ کے پاس اس وقت تک وحی الٰہی نہیں آئی تھی، اس لیے آپ نے یہ عمل اختیار فرمایا اور یادِالٰہی، ذکروفکر ومراقبہ نفس میں بالقائے ربانی وہاں وقت گذارا۔ حضرت جبرئیلؑ نے آپ کو تین مرتبہ اپنے سینے سے آپ کا سینہ ملاکر زور سے اس لیے بھینچا کہ بحکم خدا آپ کا سینہ کھل جائے اور ایک خاکی ومادی مخلوق کو نورانی مخلوق سے فوری رابطہ حاصل ہوجائے۔ یہی ہوا کہ آپ بعد میں وحی الٰہی إقرأ باسم ربك کو فرفر ادا کرنے لگے۔ پہلی وحی میں یہ سلسلہ علوم معرفت حق وخلقت انسانی واہمیت قلم وآداب تعلیم اور علم وجہل کے فرق پر جوجولطیف اشارات کئے گئے ہیں، ان کی تفصیل کایہ موقع نہیں، نہ یہاں گنجائش ہے۔ ورقہ بن نوفل عہدجاہلیت میں بت پر ستی سے متنفر ہوکر نصرانی ہوگئے تھے اور ان کو سریانی وعبرانی علوم حاصل تھے، آنحضرتﷺ نے ان کی وفات پر ان کو جنتی لباس میں دیکھا اس لیے کہ یہ شروع ہی میں آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے آپ کی ہمت افزائی کے لیے جو کچھ فرمایاوہ آپ کے اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین تصویر ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے عرف عام کے پیش نظر فرمایا کہ آپ جیسے ہمدرد انسانیت بااخلاق ہرگز ذلیل وخوار نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ آپ کا مستقبل تو بے حد شاندارہے۔ ورقہ نے حالات سن کر حضرت جبرئیل ؑکو لفظ ’’ ناموس اکبر ‘‘ سے یادفرمایا۔ علامہ قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں: "هو صاحب سر الوحي والمراد به جبرئیل علیه الصلوة والسلام وأهل الکتاب یسمونه الناموس الأکبر." یعنی یہ وحی کے رازداں حضرت جبرئیل ؑ ہیں جن کو اہل کتاب ’’ ناموس اکبر ‘‘ کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ حضرت ورقہ نے باوجودیکہ وہ عیسائی تھے مگریہاں حضرت موسیٰ ؑ کا نام لیا، اس لیے کہ حضرت موسیٰ ؑہی صاحب شریعت ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ شریعت موسوی ہی کے مبلغ تھے۔ اس کے بعد تین یااڑھائی سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا کہ اچانک سورۂ مدثر کا نزول ہوا۔ پھر برابر پے درپے وحی آنے لگی۔
حضرت جبرئیل ؑ نے آپ کو دبایا۔ اس کے متعلق علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ "وهذا الغط لیفرغه من النظر إلی أمور الدنیا ویقبل بکلیة إلی مایلقي إلیه وکرره للمبالغة واستدل به علي أن المودب لایضرب صبیا أکثر من ثلاث ضربات وقیل الغطة الأولیٰ لیتخلیٰ عن الدنیا والثانیة لیتفرغ لما یوحي إلیه والثالثة للموانسة." ( ارشاد الساری:1؍ 63) یعنی یہ دبانا اس لیے تھا کہ آپ کو دنیاوی امور کی طرف نظر ڈالنے سے فارغ کرکے جووحی وبار رسالت آپ پر ڈالا جارہا ہے، اس کے کلی طور پر قبول کرنے کے لیے آپ کو تیار کردیاجائے۔ اس واقعہ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ معلّم کے لیے مناسب ہے کہ بوقت ضرورت اگرمتعلّم کو مارنا ہی ہو توتین دفعہ سے زیادہ نہ مارے۔ بعض لوگوں نے اس واقعہ ’’ غطہ‘‘ کوآنحضرت کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ دیگر انبیاءکی ابتداء وحی کے وقت ایسا واقعہ کہیں منقول نہیں ہوا۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ کے حالات سن کر جو کچھ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی مزید تفصیل علامہ قسطلانی یوں نقل فرماتے ہیں: "فقال له ورقة ابشرثم ابشر فإنا أشهد إنك الذی بشر به ابن مریم وإنك علی مثل ناموس موسى وأنك نبي مرسل." یعنی ورقہ نے کہا کہ خوش ہوجائیے، خوش ہوجائیے، میں یقیناً گواہی دیتاہوں کہ آپ وہی نبی ورسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ نے دی تھی اور آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو موسیٰ ؑ پر نازل ہوا کرتا تھا اور آپ بے شک اللہ کے فرستادہ سچے رسول ہیں۔ حضور ﷺ نے ورقہ بن نوفل کو مرنے کے بعدجنتی لباس میں دیکھا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی، اس لیے جنتی ہوا۔ ورقہ بن نوفل کے اس واقعہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آئے اور اس کو دوسرے اسلامی فرائض ادا کرنے کا موقع نہ ملے، اس سے پہلے ہی وہ انتقال کرجائے، اللہ پاک ایمانی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔
حضرت مولاناثناءاللہ امرتسری : بذیل تفسیر سورۃ مدثر ﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴾ فرماتے ہیں کہ عرب کے شعراءثیاب سے مراد دل لیا کرتے ہیں۔ امرالقیس کہتا ہے: "وإن کنت قد ساتك مني خلیقة فسلی ثیابي من ثیابك تنسلی." اس شعر میں ثیاب سے مراد دل ہے۔یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے مگردل کا پاک صاف رکھنا ہرحال میں لازمی ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے: «إِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ» یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو توسارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے توسارا جسم بگڑ جاتا ہے، سووہ دل ہے۔ (اللهم أصلح قلبي وقلب کل ناظر ) ( تفسیر ثنائی )
عجیب لطیفہ:
قرآن کی کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی، اس بارے میں قدرے اختلاف ہے مگر سورۃ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي﴾ پر تقریباً اکثرکا اتفاق ہے، اس کے بعد فترۃ وحی کا زمانہ اڑھائی تین سال رہا اور پہلی سورۃ ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ نازل ہوئی۔ مسلکی تعصب کا حال ملاحظہ ہوکہ اس مقام پر ایک صاحب نے جو بخاری شریف کا ترجمہ با شرح شائع فرما رہے ہیں۔ اس سے سورۃ فاتحہ کی نماز میں عدم رکنیت پر دلیل پکڑی ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’سب سے پہلے سورۃ إقرأ نازل ہوئی اور سورۃ فاتحہ کا نزول بعد کو ہوا ہے تو جب تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا، اس زمانے کی نمازیں کس طرح درست ہوئیں؟ جب کہ فاتحہ رکن نماز ہے کہ بغیر اس کے نماز درست نہیں ہوسکتی قائلین رکنیت فاتحہ جواب دیں۔‘‘ ( انوارالباری: جلد اول ، ص40 )
نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا صحت نماز کے لیے ضروری ہے، اس پر یہاں تفصیل سے لکھنے کا موقع نہیں نہ اس بحث کا یہ محل ہے ہاں حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی کے لفظوں میں اتنا عرض کردینا ضروری ہے کہ "فإن قراءتها فریضة و هي رکن تبطل الصلوة بترکها." ( غنیة الطالبین: ص 53 ) یعنی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا بطور رکن نماز فرض ہے جس کے ترک کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے، موصوف کے جواب میں ہم سردست اتنا عرض کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ جب کہ ابھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہی نہیں ہوا تھا جیسا کہ موصوف نے بھی لکھا ہے تواس موقع پر اس کی رکنیت یافرضیت کا سوال ہی کیا ہے؟ ابتدائے رسالت میں بہت سے اسلامی احکام وجود میں نہیں آئے تھے جو بعد میں بتلائے گئے۔ پھر اگر کوئی کہنے لگے کہ یہ احکام شروع زمانہ رسالت میں نہ تھے تو ان کا ماننا ضروری کیوں؟ غالباً کوئی ذی عقل انسان اس بات کو صحیح نہیں سمجھے گا۔ پہلے صرف دو نمازیں تھیں بعد میں نماز پنج وقتہ کا طریقہ جاری ہوا، پہلے اذان بھی نہ تھی بعدمیں اذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ مکی زندگی میں رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، مدنی زندگی میں یہ فرض عائد کیاگیا۔ پھر کیا موصوف کی اس نازک دلیل کی بنا پر ان جملہ امور کا انکار کیاجا سکتا ہے؟ ایک ادنیٰ تامل سے یہ حقیقت واضح ہوسکتی تھی، مگرجہاں قدم قدم پر مسلکی وفقہی جمود کام کررہا ہو وہاں وسعت نظری کی تلاش عبث ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب بھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہوا اور نماز فرض باجماعت کا طریقہ اسلام میں رائج ہوا، اس سورۃ شریفہ کو رکن نماز قرار دیاگیا۔ نزول سورہ وفرض نمازجماعت سے قبل ان چیزوں کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ باقی مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
حدیث قدسی میں سورۃ فاتحہ کو ’’نماز‘‘ کہا گیا ہے۔ شاید معترض صاحب اس پر بھی یوں کہنے لگیں کہ جب سورۃ فاتحہ ہی اصل نماز ہے تو اس کے نزول سے قبل والی نمازوں کو نمازکہنا کیوں کر صحیح ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ نماز کا ایک ضروری رکن ہے اور معترض کا قول صحیح نہیں۔ یہ جواب اس بنا پر ہے کہ سورہ فاتحہ کا نزول مکہ میں نہ ماناجائے لیکن اگر مان لیا جائے جیسا کہ کتب تفاسیر سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی تومکہ شریف ہی میں اس کی رکنیت نماز کے لیے ثابت ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin 'Abdullah Al-Ansari (RA) while talking about the period of pause in revelation reporting the speech of the Prophet (ﷺ) "While I was walking, all of a sudden I heard a voice from the sky. I looked up and saw the same angel who had visited me at the cave of Hira' sitting on a chair between the sky and the earth. I got afraid of him and came back home and said, 'Wrap me (in blankets).' And then Allah revealed the following Holy Verses (of Qur'an): 'O you (i.e. Muhammad)! Wrapped up in garments!' Arise and warn (the people against Allah's Punishment)… up to 'and desert the idols.' (74:1-5) after this the revelation started coming strongly, frequently and regularly."