Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4003.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ بدر کی غنیمت سے میرے حصے میں ایک اونٹنی آئی اور نبی ﷺ نے دوسری اونٹنی مجھے مالِ فے کے خمس سے عنایت فرمائی تھی۔ میں نے ارادہ کیا کہ سیدہ فاطمہ بنت نبی ﷺ کی رخصتی عمل میں لاؤں۔ میں نے بنو قینقاع کے ایک زرگر سے معاہدہ کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے تاکہ ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا خیال تھا کہ اس گھاس کو سناروں کے پاس فروخت کر کے اس سے اپنی شادی کا ولیمہ کروں گا، چنانچہ میں نے دونوں اونٹنیوں کے لیے پالان، بوریاں اور رسیاں جمع کرنا شروع کر دیں جبکہ میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری شخص کے گھر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں نے تمام سامان جمع کر لیا تو میں اپنی اونٹنیوں کے پاس آ کر کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے کوہان کاٹ دیے گئے ہیں اور ان کی کوکھیں چیز کر ان کی کلیجیاں نکال لی گئی ہیں۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہا۔ میں نے پوچھا: یہ کس نے کیاہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے اور وہ اس گھر میں انصار کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف ہیں۔ ایک گلوکارہ اور اس کے سازندے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اس لونڈی نے اپنے گانے میں کہا: اے حمزہ! ان موٹی اونٹنیوں کا قصد کرو۔ اچانک حمزہ اٹھے، تلوار ہاتھ میں لی اور ان کے کوہان کاٹ دیے اور ان کی کوکھیں چیز کر ان سے کلیجیاں نکال لیں۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ میں (فورا) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کے پاس حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی موجود تھے۔ نبی ﷺ نے میری تکلیف کو بھانپ لیا۔ آپ نے پوچھا: ’’اے علی! تجھے کیا ہواہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ نے میری اونٹنیوں پر دست درازی کی ہے۔ انہوں نے ان کے کوہان کاٹ دیے ہیں اور ان کی کوکھیں چیر دی ہیں۔ وہ اس گھر میں موجود ہیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف ہیں۔ نبی ﷺ نے اپنی چادر منگوائی، اسے زیب تن کیا اور چل پڑے۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے ساتھ ہو لیے حتی کہ آپ ﷺ اس مکان میں آئے جہاں حمزہ موجود تھے۔ آپ نے داخل ہونے کی اجازت مانگی جو اسی وقت دے دی گئی نبی ﷺ (اندر تشریف لے گئے اور) حضرت حمزہ ؓ کو ان کی کارگزاری پر ملامت کرنے لگے۔ آپ کیا دیکھتے ہیں کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں اور ان کی دونوں آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نبی ﷺ کو دیکھا پھر نظر اونچی کی اور آپ کے گھٹنے دیکھے، پھر نظر اوپر اٹھائی اور آپ کا چہرہ دیکھا، پھر کہا: تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ نبی ﷺ جان گئے کہ ابھی وہ نشے کی حالت میں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ پھر آپ وہاں سے تشریف لے آئے اور ہم بھی آپ کے ہمراہ واپس آ گئے۔
تشریح:
1۔ اس روایت میں غزوہ بدر کا تذکرہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غنیمت بدر سے حضرت علی ؓ کو ایک جوان اونٹنی دی تھی۔
2۔حضرت حمزہ ؓ نے جو کچھ کیا اور کہا وہ نشے کی حالت میں کیا اور کہا۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ یہ حرمت شراب سے پہلے کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، المساقاة، حدیث:2375) رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کا نشہ اترنے کے بعد ان اونٹنیوں کی قیمت ان سے حضرت علی ؓ کو دلوادی تھی۔
3۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غزوہ بدر کے بعد سیدہ فاطمہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3855
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4003
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4003
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4003
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ بدر کی غنیمت سے میرے حصے میں ایک اونٹنی آئی اور نبی ﷺ نے دوسری اونٹنی مجھے مالِ فے کے خمس سے عنایت فرمائی تھی۔ میں نے ارادہ کیا کہ سیدہ فاطمہ بنت نبی ﷺ کی رخصتی عمل میں لاؤں۔ میں نے بنو قینقاع کے ایک زرگر سے معاہدہ کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے تاکہ ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا خیال تھا کہ اس گھاس کو سناروں کے پاس فروخت کر کے اس سے اپنی شادی کا ولیمہ کروں گا، چنانچہ میں نے دونوں اونٹنیوں کے لیے پالان، بوریاں اور رسیاں جمع کرنا شروع کر دیں جبکہ میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری شخص کے گھر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں نے تمام سامان جمع کر لیا تو میں اپنی اونٹنیوں کے پاس آ کر کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے کوہان کاٹ دیے گئے ہیں اور ان کی کوکھیں چیز کر ان کی کلیجیاں نکال لی گئی ہیں۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہا۔ میں نے پوچھا: یہ کس نے کیاہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے اور وہ اس گھر میں انصار کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف ہیں۔ ایک گلوکارہ اور اس کے سازندے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اس لونڈی نے اپنے گانے میں کہا: اے حمزہ! ان موٹی اونٹنیوں کا قصد کرو۔ اچانک حمزہ اٹھے، تلوار ہاتھ میں لی اور ان کے کوہان کاٹ دیے اور ان کی کوکھیں چیز کر ان سے کلیجیاں نکال لیں۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ میں (فورا) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کے پاس حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی موجود تھے۔ نبی ﷺ نے میری تکلیف کو بھانپ لیا۔ آپ نے پوچھا: ’’اے علی! تجھے کیا ہواہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ نے میری اونٹنیوں پر دست درازی کی ہے۔ انہوں نے ان کے کوہان کاٹ دیے ہیں اور ان کی کوکھیں چیر دی ہیں۔ وہ اس گھر میں موجود ہیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف ہیں۔ نبی ﷺ نے اپنی چادر منگوائی، اسے زیب تن کیا اور چل پڑے۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے ساتھ ہو لیے حتی کہ آپ ﷺ اس مکان میں آئے جہاں حمزہ موجود تھے۔ آپ نے داخل ہونے کی اجازت مانگی جو اسی وقت دے دی گئی نبی ﷺ (اندر تشریف لے گئے اور) حضرت حمزہ ؓ کو ان کی کارگزاری پر ملامت کرنے لگے۔ آپ کیا دیکھتے ہیں کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں اور ان کی دونوں آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نبی ﷺ کو دیکھا پھر نظر اونچی کی اور آپ کے گھٹنے دیکھے، پھر نظر اوپر اٹھائی اور آپ کا چہرہ دیکھا، پھر کہا: تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ نبی ﷺ جان گئے کہ ابھی وہ نشے کی حالت میں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ پھر آپ وہاں سے تشریف لے آئے اور ہم بھی آپ کے ہمراہ واپس آ گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت میں غزوہ بدر کا تذکرہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غنیمت بدر سے حضرت علی ؓ کو ایک جوان اونٹنی دی تھی۔
2۔حضرت حمزہ ؓ نے جو کچھ کیا اور کہا وہ نشے کی حالت میں کیا اور کہا۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ یہ حرمت شراب سے پہلے کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، المساقاة، حدیث:2375) رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کا نشہ اترنے کے بعد ان اونٹنیوں کی قیمت ان سے حضرت علی ؓ کو دلوادی تھی۔
3۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غزوہ بدر کے بعد سیدہ فاطمہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا ہم کو احمد بن صالح نے خبردی، ان سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، انہیں علی بن حسین (امام زین العابدین) نے خبردی، انہیں حضرت حسین بن علی ؓ نے خبردی اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کی غنیمت میں سے مجھے ایک اور اونٹنی ملی تھی اور اسی جنگ کی غنیمت میں سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا جو خمس کے طور پر حصہ مقرر کیا تھا، اس میں سے بھی حضورﷺ نے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی پھر میرا ارادہ ہوا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کی رخصتی کرالاؤں۔ اس لیے بنی قینقاع کے ایک سنار سے بات چیت کی کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس کو سناروں کے ہاتھ بیچ دوں گا اور اس کی قیمت ولیمہ کی دعوت میں لگاؤںگا۔ میں ابھی اپنی اونٹنی کے لیے پالان، ٹوکرے اور رسیاں جمع کررہا تھا۔ اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے حجرہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں جن انتظامات میں تھا جب وہ پورے ہوگئے تو (اونٹنیوں کو لینے آیا) وہاں دیکھا کہ ان کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں اور کوکھ چیر کر اندرسے کلیجی نکال لی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ میں نے پوچھا، یہ کس نے کیاہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب ؓ نے اور وہ ابھی اسی حجرہ میں انصار کے ساتھ شراب نوشی کی ایک مجلس میں موجود ہیں۔ ان کے پاس ایک گانے والی ہے اور ان کے دوست احباب ہیں۔ گانے والی نے گاتے ہوئے جب یہ مصرع پڑھا ہاں ’’اے حمزہ! یہ عمدہ اور فربہ اونٹنیاں ہیں، تو حمزہ ؓ نے کود کر اپنی تلوار تھامی اور ان دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی۔ حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ زید بن حارثہ ؓ بھی حضور ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ حضور ﷺ نے میرے غم کو پہلے ہی جان لیا اور فرمایا کہ کیا بات پیش آئی؟ میں بولا ، یا رسول اللہ: آج جیسی تکلیف کی بات کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ حمزہ ؓ نے میری دونوں اونٹنیوں کو پکڑ کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر ڈالی ہے۔ وہ یہیں ایک گھر میں شراب کی مجلس جمائے بیٹھے ہیں۔ حضور ﷺ نے اپنی چادر مبارک منگوائی اور اسے اوڑھ کر آپ تشریف لے چلے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی ساتھ ساتھ ہولئے۔ جب اس گھر کے قریب آپ تشریف لے گئے اور حضرت حمزہ ؓ نے جو کچھ کیا تھااس پرانہیں تنبیہ فرمائی۔ حضرت حمزہ ؓ شراب کے نشے میں مست تھے اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے حضورﷺ کی طرف نظر اٹھائی، پھر ذرااور اوپر اٹھائی اور آپ کے گھٹنوں پر دیکھنے لگے، پھر اور نظر اٹھائی اور آپ کے چہرہ پر دیکھنے لگے۔ پھر کہنے لگے، تم سب میرے باپ کے غلام ہو۔ حضورﷺ سمجھ گئے کہ وہ اس وقت بے ہوش ہیں۔ اس لیے آپ فوراً الٹے پاؤں اس گھر سے باہر نکل آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس وقت تک شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ حضرت امیر حمزہ ؓ نے حالت مدہوشی میں یہ کام کردیا اور جو کچھ کہا نشے کی حالت میں کہا۔ دوسری روایت میں ہے کہ حمزہ ؓ کا نشہ اترنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے اونٹنیوں کی قیمت حضرت علی ؓ کو دلوا دی تھی۔ روایت میں حضرت علی ؓ کو بدر کا حصہ ملنے کا ذکر ہے۔ باب اور حدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): I had a she-camel which I got in my share from the booty of the battle of Badr, and the Prophet (ﷺ) had given me another she camel from the Khumus which Allah had bestowed on him that day. And when I intended to celebrate my marriage to Fatima, the daughter of the Prophet, I made an arrangement with a goldsmith from Bani Qainuqa 'that he should go with me to bring Idhkhir (i.e. a kind of grass used by gold-smiths) which I intended to sell to gold-smiths in order to spend its price on the marriage banquet. While I was collecting ropes and sacks of pack saddles for my two she-camels which were kneeling down beside an Ansari's dwelling and after collecting what I needed, I suddenly found that the humps of the two she-camels had been cut off and their flanks had been cut open and portions of their livers had been taken out. On seeing that, I could not help weeping. I asked, "Who has done that?" They (i.e. the people) said, "Hamza bin 'Abdul Muttalib has done it. He is present in this house with some Ansari drinkers, a girl singer, and his friends. The singer said in her song, "O Hamza, get at the fat she-camels!" On hearing this, Hamza rushed to his sword and cut of the camels' humps and cut their flanks open and took out portions from their livers." Then I came to the Prophet, with whom Zaid bin Haritha was present. The Prophet (ﷺ) noticed my state and asked, "What is the matter?" I said, "O Allah's Apostle, I have never experienced such a day as today! Hamza attacked my two she-camels, cut off their humps and cut their flanks open, and he is still present in a house along some drinkers." The Prophet (ﷺ) asked for his cloak, put it on, and proceeded, followed by Zaid bin Haritha and myself, till he reached the house where Hamza was. He asked the permission to enter, and he was permitted. The Prophet (ﷺ) started blaming Hamza for what he had done. Hamza was drunk and his eyes were red. He looked at the Prophet (ﷺ) then raised his eyes to look at his knees and raised his eves more to look at his face and then said, "You are not but my father's slaves." When the Prophet (ﷺ) understood that Hamza was drunk, he retreated, walking backwards went out and we left with him.