Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4019.
حضرت مقداد بن عمرو کندی ؓ سے روایت ہے۔۔ وہ بنو زہرہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ لڑائی میں میرا ایک ہاتھ اڑا دے، پھر وہ مجھ سے خوفزدہ ہو کر کسی درخت کی پناہ لے اور مجھے کہے کہ میں تو اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا اللہ کے رسول! میں اسے قتل کروں جبکہ وہ ایسا کہتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے قتل نہ کرو۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (پہلے) وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے اور میرا کاٹنے کے بعد اس نے یہ اقرار کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے ہرگز قتل نہ کرو ورنہ اس کو وہ درجہ حاصل ہو گا جو تجھے اس کے قتل سے پہلے تھا اور تیرا حال وہ ہو جائے گا جو کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے اس کا تھا۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان کلمہ شہادت ادا کرکے مسلمان ہو جاتا ہے، اس کا خون اور مال محفوظ ہو جاتا ہے، پھر اس کے باطن احوال کرید کرنے کے ہم مکلف نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات میں فرمایا:’’کیا تونے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ اس میں کفر چھپا ہوا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:277۔(96)) کلمہ توحید کا اقرار کرنے سے پہلے وہ معصوم الدم نہیں تھا یعنی اسے قتل کرنا درست تھا ۔ کلمہ پڑھنے کے بعد وہ معصوم الدم ہو گیا۔ یعنی اسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔اگر تم نے اسے قتل کردیا تو تم محفوظ الدم نہیں رہو گے بلکہ تمھیں اس کے قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ 2۔اس حدیث میں حضرت مقداد ؓ کے غزوہ بدر میں شریک ہونے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3869
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4019
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4019
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4019
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس باب کا کوئی عنوان نہیں۔اس طرح کے ابواب سابقہ عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہوتے ہیں، چنانچہ اس باب میں غزوہ بدر کے متعلقات اور اس میں شرکت کرنے والوں کا ذکر ہو گا۔
حضرت مقداد بن عمرو کندی ؓ سے روایت ہے۔۔ وہ بنو زہرہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ لڑائی میں میرا ایک ہاتھ اڑا دے، پھر وہ مجھ سے خوفزدہ ہو کر کسی درخت کی پناہ لے اور مجھے کہے کہ میں تو اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا ہوں تو کیا اللہ کے رسول! میں اسے قتل کروں جبکہ وہ ایسا کہتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے قتل نہ کرو۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (پہلے) وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے اور میرا کاٹنے کے بعد اس نے یہ اقرار کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے ہرگز قتل نہ کرو ورنہ اس کو وہ درجہ حاصل ہو گا جو تجھے اس کے قتل سے پہلے تھا اور تیرا حال وہ ہو جائے گا جو کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے اس کا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان کلمہ شہادت ادا کرکے مسلمان ہو جاتا ہے، اس کا خون اور مال محفوظ ہو جاتا ہے، پھر اس کے باطن احوال کرید کرنے کے ہم مکلف نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات میں فرمایا:’’کیا تونے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ اس میں کفر چھپا ہوا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:277۔(96)) کلمہ توحید کا اقرار کرنے سے پہلے وہ معصوم الدم نہیں تھا یعنی اسے قتل کرنا درست تھا ۔ کلمہ پڑھنے کے بعد وہ معصوم الدم ہو گیا۔ یعنی اسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔اگر تم نے اسے قتل کردیا تو تم محفوظ الدم نہیں رہو گے بلکہ تمھیں اس کے قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ 2۔اس حدیث میں حضرت مقداد ؓ کے غزوہ بدر میں شریک ہونے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، کہاہم سے ابن جریج نے، ان سے زہری نے، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے، ان سے عبید اللہ بن عدی نے اور ان سے حضرت مقداد بن اسود ؓ نے۔ (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے، ان سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبد اللہ) نے، اپنے چچا (محمد بن مسلم بن شہاب) سے بیان کیا، انہیں عطاء بن یزید لیثی ثم الجندعی نے خبردی، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبردی اور انہیں مقداد بن عمرو کندی ؓ نے، وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہوجائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے ’’میں اللہ پر ایمان لے آیا۔‘‘ تو کیا یا رسول اللہ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کردوں؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ پہلے میرا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکا ہے؟ اور یہ اقرار میرے ہاتھ کاٹنے کے بعد کیا ہے؟ آپ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا، کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر ڈالا تو اسے قتل کر نے سے پہلے جو تمہارا مقام تھا اب اس کا وہ مقام ہوگا اور تمہارا مقام وہ ہوگا جو اس کا مقام اس وقت تھا جب اس نے اس کلمہ کا اقرار نہیں کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
تو اس کے قتل کرنے سے پہلے تو جیسے مسلمان معصوم مرحوم تھا ایسے ہی اسلام کا کلمہ پڑھنے سے وہ مسلمان معصوم مرحوم ہو گیا۔ پہلے اس کا مار ڈالنا درست تھا ایسے ہی اب اس کے قصاص میں تیرا مار ڈالنا درست ہوجائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaidullah bin 'Adi bin Al-Khiyar: That Al-Miqdad bin 'Amr Al-Kindi, who was an ally of Bani Zuhra and one of those who fought the battle of Badr together with Allah's Apostle (ﷺ) told him that he said to Allah's Apostle, "Suppose I met one of the infidels and we fought, and he struck one of my hands with his sword and cut it off and then took refuge in a tree and said, "I surrender to Allah (i.e. I have become a Muslim),' could I kill him, O Allah's Apostle, after he had said this?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "You should not kill him." Al-Miqdad said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! But he had cut off one of my two hands, and then he had uttered those words?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "You should not kill him, for if you kill him, he would be in your position where you had been before killing him, and you would be in his position where he had been before uttering those words."