Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The story of Bani An-Nadir)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول اللہ ﷺ کا دو مسلمانوں کی دیت کے سلسلے میں ان کے پاس جانا اور آنحضرت ﷺکے ساتھ ان کا دغابازی کرنا ۔ زہری نے عروہ سے بیان کیا کہ غزوہ بنو نضیر ، غزوہ بدر کے چھ مہینے بعد اور غزوہ احد سے پہلے ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اللہ ہی وہ ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جو کافر ہوئے اہل کتاب سے ان کے گھروں سے اور یہ ( جزیرہ عرب سے ) انکی پہلی جلا وطنی ہے “ ابن اسحاق کی تحقیق میں یہ غزوہ غزوہ بئر معونہ اور غزوہ احد کے بعد ہوا تھا ۔تشریح:قبیلہ بنو نضیر ان کافروں میں سے تھے جن کا آنحضرتﷺ سے عہد وپیمان تھا کہ نہ خود آپ سے لڑیں گے نہ آپ کے دشمنوں کو مدد دیں گے ایسا ہوا کہ عامر بن طفیل نے جب قاریوں کو بیئر معونہ کے قریب فریب و دغا سے مار ڈالا تھا تو عمرو بن امیہ ضمیری کو جو مسلمان تھے اپنی ماں کی منت میں آزاد کردیا۔راستے میں ان کو بنو عامر کے دو شخص ملے انہوں نے سوتے میں ان کو مار ڈالا اور سمجھے میں نے بنو عامر سے جن میں کا ایک عامر بن طفیل تھا بدلہ لیا تھا۔آنحضرتﷺ کو مدینہ میں آکر خبر کی ان کو یہ خبر نہ تھی کہ آنحضرتﷺ اور ان کے مردوں سے عہدوپیمان ہے۔آپ نے عمرو سے فرمایا میں ان دو شخصوں کی دیت دوں گا بنو نضیر بھی بنوعامرکے ساتھ عبد رکھتے تھے آپ بنی نضیر کے پاس اس دیت میں مدد لینے کو تشریف لےگئے۔ان بدمعاشوں نے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو بٹھایا اور ظاہر میں امداد کا وعدہ کیا لیکن درپردہ یہ صلاح کی کہ آپ دیوار کے تلے بیٹھے تھے دیوار سے ایک پتھر آپ پر پھینک کر آپ کو شہید کر دیں۔اللہ نے جبرئیل کے ذریعے سے آپ کو آگاہ کر دیا آپ وہاں سے ایک دم اٹھ کر مدینہ روانہ ہوگئے اور دیگر صحابی بھی۔موقع آنے پر آپ نے ان بدمعاشوں پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی واقعہ کی کچھ تفصیلات یہاں مذکور ہیں یہود کا پہلا اخرج عرب سے شام کے ملک میں ہوا‘پھر عہد فاروقی میں دوسرا اخرج خیبر سے شام کے ملک کو ہوا۔بعضوں نے کہا دوسرے اخراج سے قیامت کا حشرہ مراد ہے یہ آیت بنی نضیر کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
4033.
حضرت مالک بن اوس بن حدثان نصری سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ نے انہیں بلایا تو اچانک آپ کے چوکیدار یرفاء آئے اور کہا کہ حضرت عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اندر آنا چاہتے ہیں، کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور کہا کہ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ بھی اجازت چاہتے ہیں، آیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ جب یہ دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے اور سلام کہا تو حضرت عباس ؓ نے کہا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجیے اور وہ دونوں بزرگ اس جائیداد کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو بنو نضیر کے مال سے بطور فے عطا فرمایا تھا۔ اس موقع پر حضرت علی اور حضرت عباس ؓ نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا: (جب انہوں نے ایک دوسرے پر تنقید کی) تو حاضرین بولے: امیر المومنین! آپ ان دونوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ ان دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ذرا صبر کرو! میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ہم انبیاء کی جائیداد تقسیم نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ اور اس سے رسول اللہ ﷺ کی مراد خود اپنی ذات کریمہ تھی؟ حاضرین نے کہا: یقینا آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا: میں آپ دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس معاملے کے متعلق گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اس مالِ فے میں سے خاص طور پر عطا فر دیا تھا، جو آپ کے سوا اور کسی کو نہیں دیا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’اللہ تعالٰی نے بنو نضیر کے اموال میں سے جو کچھ اپنے رسول کو دیا ہے تم نے اس کے لیے کوئی گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے۔۔‘‘ (یعنی تم نے کوئی جنگ وغیرہ نہیں کی) تو یہ مال خاص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تمہیں نظر انداز کر کے اسے اپنے لیے مخصوص نہیں فرمایا اور نہ تم پر اپنی ذات ہی کو ترجیح دی تھی۔ آپ نے وہ مال تمہیں دیا اور تم پر تقسیم کر دیا حتی کہ اس میں سے صرف یہ مال باقی رہا ہے جو رسول اللہ ﷺ اپنے اہل و عیال پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو مال باقی بچتا تھا، اسے آپ اللہ تعالٰی کے مصارف میں خرچ کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا زندگی بھر یہی معمول رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشیں ہوں اور اس مال کو انہوں نے اپنے قبضے میں کر لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جن میں رسول اللہ ﷺ خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے وہی طریقہ اختیار کیا جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے۔ اللہ کی قسم! وہ اپنے طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر ؓ کو بھی اٹھا لیا تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا جانشیں ہوں اور اپنی امارت کے دو سال تک اس پر قابض رہا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتا رہا جن میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کیا تھا۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستہ پر گامزن اور حق کی پیروی کرنے والا تھا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے۔ آپ دونوں ایک ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ اے عباس! تم میرے پاس آئے تو میں نے تم دونوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ پھر میں نے سوچا کہ وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے تمہیں کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ جائیداد اس شرط پر تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالٰی کے سامنے کیے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو پور کرو گے اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کرو گے جو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کیا تھا اور جیسا آغاز خلافت سے میرا ہے۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو مجھ سے اس کے متعلق گفتگو نہ کرو۔ اس وقت تم نے کہا: اس شرط پر جائیداد ہمارے حوالے کر دو تو میں نے اسے تمہارے سپرد کر دیا۔ کیا اب تم مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ طلب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، قیام تک میں اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر تم ان شرائط کو پورا کرنے سے عاجز ہو تو جائیداد مجھے واپس کر دو۔ میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3883
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4033
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4033
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4033
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
اور رسول اللہ ﷺ کا دو مسلمانوں کی دیت کے سلسلے میں ان کے پاس جانا اور آنحضرت ﷺکے ساتھ ان کا دغابازی کرنا ۔ زہری نے عروہ سے بیان کیا کہ غزوہ بنو نضیر ، غزوہ بدر کے چھ مہینے بعد اور غزوہ احد سے پہلے ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اللہ ہی وہ ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جو کافر ہوئے اہل کتاب سے ان کے گھروں سے اور یہ ( جزیرہ عرب سے ) انکی پہلی جلا وطنی ہے “ ابن اسحاق کی تحقیق میں یہ غزوہ غزوہ بئر معونہ اور غزوہ احد کے بعد ہوا تھا ۔تشریح:قبیلہ بنو نضیر ان کافروں میں سے تھے جن کا آنحضرتﷺ سے عہد وپیمان تھا کہ نہ خود آپ سے لڑیں گے نہ آپ کے دشمنوں کو مدد دیں گے ایسا ہوا کہ عامر بن طفیل نے جب قاریوں کو بیئر معونہ کے قریب فریب و دغا سے مار ڈالا تھا تو عمرو بن امیہ ضمیری کو جو مسلمان تھے اپنی ماں کی منت میں آزاد کردیا۔راستے میں ان کو بنو عامر کے دو شخص ملے انہوں نے سوتے میں ان کو مار ڈالا اور سمجھے میں نے بنو عامر سے جن میں کا ایک عامر بن طفیل تھا بدلہ لیا تھا۔آنحضرتﷺ کو مدینہ میں آکر خبر کی ان کو یہ خبر نہ تھی کہ آنحضرتﷺ اور ان کے مردوں سے عہدوپیمان ہے۔آپ نے عمرو سے فرمایا میں ان دو شخصوں کی دیت دوں گا بنو نضیر بھی بنوعامرکے ساتھ عبد رکھتے تھے آپ بنی نضیر کے پاس اس دیت میں مدد لینے کو تشریف لےگئے۔ان بدمعاشوں نے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو بٹھایا اور ظاہر میں امداد کا وعدہ کیا لیکن درپردہ یہ صلاح کی کہ آپ دیوار کے تلے بیٹھے تھے دیوار سے ایک پتھر آپ پر پھینک کر آپ کو شہید کر دیں۔اللہ نے جبرئیل کے ذریعے سے آپ کو آگاہ کر دیا آپ وہاں سے ایک دم اٹھ کر مدینہ روانہ ہوگئے اور دیگر صحابی بھی۔موقع آنے پر آپ نے ان بدمعاشوں پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی واقعہ کی کچھ تفصیلات یہاں مذکور ہیں یہود کا پہلا اخرج عرب سے شام کے ملک میں ہوا‘پھر عہد فاروقی میں دوسرا اخرج خیبر سے شام کے ملک کو ہوا۔بعضوں نے کہا دوسرے اخراج سے قیامت کا حشرہ مراد ہے یہ آیت بنی نضیر کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مالک بن اوس بن حدثان نصری سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ نے انہیں بلایا تو اچانک آپ کے چوکیدار یرفاء آئے اور کہا کہ حضرت عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اندر آنا چاہتے ہیں، کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور کہا کہ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ بھی اجازت چاہتے ہیں، آیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ جب یہ دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے اور سلام کہا تو حضرت عباس ؓ نے کہا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجیے اور وہ دونوں بزرگ اس جائیداد کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو بنو نضیر کے مال سے بطور فے عطا فرمایا تھا۔ اس موقع پر حضرت علی اور حضرت عباس ؓ نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا: (جب انہوں نے ایک دوسرے پر تنقید کی) تو حاضرین بولے: امیر المومنین! آپ ان دونوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ ان دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ذرا صبر کرو! میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ہم انبیاء کی جائیداد تقسیم نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ اور اس سے رسول اللہ ﷺ کی مراد خود اپنی ذات کریمہ تھی؟ حاضرین نے کہا: یقینا آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا: میں آپ دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اب میں آپ لوگوں سے اس معاملے کے متعلق گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اس مالِ فے میں سے خاص طور پر عطا فر دیا تھا، جو آپ کے سوا اور کسی کو نہیں دیا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’اللہ تعالٰی نے بنو نضیر کے اموال میں سے جو کچھ اپنے رسول کو دیا ہے تم نے اس کے لیے کوئی گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے۔۔‘‘ (یعنی تم نے کوئی جنگ وغیرہ نہیں کی) تو یہ مال خاص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے تمہیں نظر انداز کر کے اسے اپنے لیے مخصوص نہیں فرمایا اور نہ تم پر اپنی ذات ہی کو ترجیح دی تھی۔ آپ نے وہ مال تمہیں دیا اور تم پر تقسیم کر دیا حتی کہ اس میں سے صرف یہ مال باقی رہا ہے جو رسول اللہ ﷺ اپنے اہل و عیال پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو مال باقی بچتا تھا، اسے آپ اللہ تعالٰی کے مصارف میں خرچ کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا زندگی بھر یہی معمول رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشیں ہوں اور اس مال کو انہوں نے اپنے قبضے میں کر لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جن میں رسول اللہ ﷺ خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے وہی طریقہ اختیار کیا جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے۔ اللہ کی قسم! وہ اپنے طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر ؓ کو بھی اٹھا لیا تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا جانشیں ہوں اور اپنی امارت کے دو سال تک اس پر قابض رہا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتا رہا جن میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کیا تھا۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستہ پر گامزن اور حق کی پیروی کرنے والا تھا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے۔ آپ دونوں ایک ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ اے عباس! تم میرے پاس آئے تو میں نے تم دونوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ پھر میں نے سوچا کہ وہ جائیداد تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے تمہیں کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ جائیداد اس شرط پر تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالٰی کے سامنے کیے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو پور کرو گے اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کرو گے جو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کیا تھا اور جیسا آغاز خلافت سے میرا ہے۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو مجھ سے اس کے متعلق گفتگو نہ کرو۔ اس وقت تم نے کہا: اس شرط پر جائیداد ہمارے حوالے کر دو تو میں نے اسے تمہارے سپرد کر دیا۔ کیا اب تم مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ طلب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، قیام تک میں اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر تم ان شرائط کو پورا کرنے سے عاجز ہو تو جائیداد مجھے واپس کر دو۔ میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
کے متعلق ان کے پاس جانا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کی دغا بازی کا بیانامام زہری نے بیان کیا کہ یہ سانحہ، غزوہ بدر کے چھ ماہ بعد اور غزوہ اُحد سے پہلے ہوا تھا۔ارشاد باری تعالٰی ہے: "وہ اللہ ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا، یہ ان کی پہلی جلا وطنی ہے ۔۔"ابن اسحاق کی تحقیق کے مطابق یہ سانحہ، بئر معونہ اور غزوہ اُحد کے بعد ہوا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب ؓ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمومنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیر المومنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص ؓ اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمومنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلال ۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا حضرت عباس اور علی ؓ بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس ؓ نے کہا، امیر المومنین! میرااور ان (علی ؓ ) کا فیصلہ کردیجئے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑرہے تھے جواللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مال بنو نضیر سے فے کے طور پردی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس ؓ نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمومنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کردیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑانہ رہے۔ عمرؓ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کرپوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے حضورﷺ کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، حضور ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر ؓ عباس اور علی ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمرؓ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس مال فئے میں سے (جوبنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طورپر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر۔“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا لیکن خداکی قسم کہ حضور ﷺ نے تمہیں نظر انداز کرکے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو ابو بکر ؓ نے کہا کہ مجھے آنحضرت ﷺ کا خلیفہ بنادیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں آنحضرت ﷺ خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر ؓ علی اور عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر ؓ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرزعمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کر نے و الے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓ کو بھی اٹھالیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں آنحضرت ﷺ اور ابو بکر ؓ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا ، مخلص ، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس ؓ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول کریم ﷺ فر گئے تھے کہ ’’ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑجائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ اور ابو بکر ؓ نے اور خود میں نے جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کردیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کردیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں، قیا مت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کردیں۔ میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Malik bin Aus Al-Hadathan An-Nasri: That once 'Umar bin Al-Khattab (RA) called him and while he was sitting with him, his gatekeeper, Yarfa came and said, "Will you admit 'Uthman, 'Abdur-Rahman bin Auf, AzZubair and Sad (bin Abi Waqqas) who are waiting for your permission?" 'Umar said, "Yes, let them come in." After a while, Yarfa- came again and said, "Will you admit 'Ali and 'Abbas who are asking your permission?" 'Umar said, "Yes." So, when the two entered, 'Abbas said, "O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. 'Ali). "Both of them had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle (ﷺ) as Fai (i.e. booty gained without fighting), 'Ali and 'Abbas started reproaching each other. The (present) people (i.e. 'Uthman and his companions) said, "O chief of the believers! Give your verdict in their case and relieve each from) the other." 'Umar said, "Wait I beseech you, by Allah, by Whose Permission both the heaven and the earth stand fast! Do you know that Allah's Apostle (ﷺ) said, 'We (Prophets) our properties are not to be inherited, and whatever we leave, is to be spent in charity,' and he said it about himself?" They (i.e. 'Uthman and his company) said, "He did say it. "'Umar then turned towards 'Ali and 'Abbas and said, "I beseech you both, by Allah! Do you know that Allah's Apostle (ﷺ) said this?" They replied in the affirmative. He said, "Now I am talking to you about this matter. Allah the Glorified favored His Apostle (ﷺ) with something of this Fai (i.e. booty won without fighting) which He did not give to anybody else. Allah said:-- "And what Allah gave to His Apostle (ﷺ) ("Fai"" Booty) from them--For which you made no expedition With either Calvary or camelry. But Allah gives power to His Apostles Over whomsoever He will And Allah is able to do all things." (59.6) So this property was especially granted to Allah's Apostle (ﷺ) . But by Allah, the Prophet (ﷺ) neither took it all for himself only, nor deprived you of it, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till only this remained out of it. And from this Allah's Apostle (ﷺ) used to spend the yearly maintenance for his family, and whatever used to remain, he used to spend it where Allah's Property is spent (i.e. in charity), Allah's Apostle (ﷺ) kept on acting like that during all his life, Then he died, and Abu Bakr (RA) said, 'I am the successor of Allah's Apostle.' So he (i.e. Abu Bakr) took charge of this property and disposed of it in the same manner as Allah's Apostle (ﷺ) used to do, and all of you (at that time) knew all about it." Then 'Umar turned towards 'Ali and 'Abbas and said, "You both remember that Abu Bakr (RA) disposed of it in the way you have described and Allah knows that, in that matter, he was sincere, pious, rightly guided and the follower of the right. Then Allah caused Abu Bakr (RA) to die and I said, 'I am the successor of Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr.' So I kept this property in my possession for the first two years of my rule (i.e. Caliphate and I used to dispose of it in the same wa as Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) used to do; and Allah knows that I have been sincere, pious, rightly guided an the follower of the right (in this matte Later on both of you (i.e. 'Ali and Abbas) came to me, and the claim of you both was one and the same, O 'Abbas! You also came to me. So I told you both that Allah's Apostle (ﷺ) said, "Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity.' Then when I thought that I should better hand over this property to you both or the condition that you will promise and pledge before Allah that you will dispose it off in the same way as Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) did and as I have done since the beginning of my caliphate or else you should not speak to me (about it).' So, both of you said to me, 'Hand it over to us on this condition.' And on this condition I handed it over to you. Do you want me now to give a decision other than that (decision)? By Allah, with Whose Permission both the sky and the earth stand fast, I will never give any decision other than that (decision) till the Last Hour is established. But if you are unable to manage it (i.e. that property), then return it to me, and I will manage on your behalf."