باب: ابو رافع ۔ یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The killing of Ab Rafi’ ‘Abdullah bin Abi Al-Huqaiq)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا ۔ یہ خیبر میں رہتا تھا ۔ بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں حجاز کے ملک میں واقع تھا ۔ زہری نے کہا ابو رافع کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا ۔ ( رمضان 6ھ میں )
4039.
حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر آواز دی: اے اللہ کے بندے! میں دروازہ بند کر رہا ہوں اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر (قلعے کے) اندر داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آ چکے تو دربان نے دروازہ بند کر کے چابیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ ادھر ابو رافع کے پاس رات کے وقت قصہ گوئی ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے بالاخانہ میں رہتا تھا۔ جب داستان گو اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کی طرف چلنے لگا۔ جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی طرف سے اسے بند کر لیتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو مجھ تک ابو رافع کو قتل کرنے سے پہلے نہ آ سکیں۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک تاریک مکان میں اپنے بچوں کو درمیان سو رہا ہے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے اس لیے میں نے ابو رافع کہہ کر آواز دی۔ اس نے جواب دیا: تو کون ہے؟ میں آواز کی طرف جھکا اور اس پر تلوار سے زور دار وار کیا جبکہ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس ضرب سے کچھ کام نہ بنا۔ وہ چلانے لگا تو میں مکان سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر میں پھر اندر آیا اور میں نے کہا: اے ابو رافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا: تیری ماں پر مصیبت پڑے، ابھی ابھی کسی نے اس مکان میں مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان کہ میں نے پھر ایک اور بھرپور وار کیا مگر وہ بھی خالی گیا اگرچہ اس کو زخم لگ چکا تھا لیکن وہ اس سے مرا نہیں تھا، اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی، خوب زور دیا تو وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے مار ڈالا ہے تو میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا۔ چاندنی رات تھی، یہ خیال کر کے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آ گرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی پگڑی سے اسے باندھا اور باہر نکل کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں کہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، لہذا جب صبح کے وقت مرغ نے اذان دی تو موت کی خبر دینے والا دیوار پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: لوگو! میں تمہیں حجاز کے سوداگر ابو رافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی میں اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اور ان سے کہا: یہاں سے جلدی بھاگو۔ اللہ تعالٰی نے ابو رافع کو ہمارے ہاتھوں قتل کر دیا ہے۔ پھر وہاں سے نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو تمام قصہ سنایا۔ آپ نے مجھے فرمایا: ’’اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پھیلاؤ‘‘ چنانچہ میں نے اپنی پنڈلی پھیلائی تو آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیر دیا جس سے وہ ایسے ہو گئی گویا مجھے اس کی کبھی شکایت ہی نہ تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3887
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4039
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4039
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4039
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا ۔اسلام اور مسلمانوں کا سخت ترین دشمن،ہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بُرائی اور مذمت کیا کرتاتھا۔چونکہ دشمن دین کعب بن اشرف کو قبیلہ اوس کے انصار نے قتل کیا تھا۔اس لیے ابورافع یہودی کو قتل کرنے کے لیے قبیلہ خزرج کے انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔آپ نے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں حضرت مسعود بن سنان ،عبداللہ بن انیس،ابوقتادہ ،خزاعی بن اسود اور عبداللہ بن عتبہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو روانا فرمایا،چنانچہ قبیلہ خزرج کے جوانوں نے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔( فتح الباری 428/7۔)
کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا ۔ یہ خیبر میں رہتا تھا ۔ بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں حجاز کے ملک میں واقع تھا ۔ زہری نے کہا ابو رافع کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا ۔ ( رمضان 6ھ میں )
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر آواز دی: اے اللہ کے بندے! میں دروازہ بند کر رہا ہوں اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر (قلعے کے) اندر داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آ چکے تو دربان نے دروازہ بند کر کے چابیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ ادھر ابو رافع کے پاس رات کے وقت قصہ گوئی ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے بالاخانہ میں رہتا تھا۔ جب داستان گو اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کی طرف چلنے لگا۔ جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی طرف سے اسے بند کر لیتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو مجھ تک ابو رافع کو قتل کرنے سے پہلے نہ آ سکیں۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک تاریک مکان میں اپنے بچوں کو درمیان سو رہا ہے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے اس لیے میں نے ابو رافع کہہ کر آواز دی۔ اس نے جواب دیا: تو کون ہے؟ میں آواز کی طرف جھکا اور اس پر تلوار سے زور دار وار کیا جبکہ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس ضرب سے کچھ کام نہ بنا۔ وہ چلانے لگا تو میں مکان سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر میں پھر اندر آیا اور میں نے کہا: اے ابو رافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا: تیری ماں پر مصیبت پڑے، ابھی ابھی کسی نے اس مکان میں مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان کہ میں نے پھر ایک اور بھرپور وار کیا مگر وہ بھی خالی گیا اگرچہ اس کو زخم لگ چکا تھا لیکن وہ اس سے مرا نہیں تھا، اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی، خوب زور دیا تو وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے مار ڈالا ہے تو میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا۔ چاندنی رات تھی، یہ خیال کر کے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آ گرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی پگڑی سے اسے باندھا اور باہر نکل کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں کہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، لہذا جب صبح کے وقت مرغ نے اذان دی تو موت کی خبر دینے والا دیوار پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: لوگو! میں تمہیں حجاز کے سوداگر ابو رافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی میں اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اور ان سے کہا: یہاں سے جلدی بھاگو۔ اللہ تعالٰی نے ابو رافع کو ہمارے ہاتھوں قتل کر دیا ہے۔ پھر وہاں سے نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو تمام قصہ سنایا۔ آپ نے مجھے فرمایا: ’’اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پھیلاؤ‘‘ چنانچہ میں نے اپنی پنڈلی پھیلائی تو آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیر دیا جس سے وہ ایسے ہو گئی گویا مجھے اس کی کبھی شکایت ہی نہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
وہ خیبر میں رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حجاز مقدس میں اس کا قلعہ تھا وہ اس میں رہتا تھا۔ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: اسے کعب بن اشرف کے بعد قتل کیا گیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابو اسحاق نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو رافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک ؓ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابو رافع حضور ﷺ کرم ﷺ کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو) واپس ہوچکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں (اس قلعہ پر) جارہا ہوں اور دربان پرکوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چنانچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہوچکے تھے۔ دربان نے آواز دی، اے اللہ کے بندے اگر اندر آنا ہے تو جلد آجا، میں اب دروازہ بند کردوں گا۔ (عبداللہ بن عتیک ؓ نے کہا) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابو رافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جارہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالا خانے میں تھا۔ جب داستان گواس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ اس عرصہ میں، میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ (سورہا) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آوازدی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر (آوازکی طرف بڑھ کر) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگر چہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے دروازہ ایک ایک کرکے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں (لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گرپڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اُسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آکر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤںگا جب تک یہ نہ معلوم کرلوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آوازدی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہوکر پکارا کہ اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابو رافع کو قتل کرادیا۔ چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی نہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle (ﷺ) sent some men from the Ansar to ((kill) Abu Rafi, the Jew, and appointed 'Abdullah bin Atik as their leader. Abu Rafi used to hurt Allah's Apostle (ﷺ) and help his enemies against him. He lived in his castle in the land of Hijaz. When those men approached (the castle) after the sun had set and the people had brought back their livestock to their homes. Abdullah (bin Atik) said to his companions, "Sit down at your places. I am going, and I will try to play a trick on the gate-keeper so that I may enter (the castle)." So 'Abdullah proceeded towards the castle, and when he approached the gate, he covered himself with his clothes, pretending to answer the call of nature. The people had gone in, and the gate-keeper (considered 'Abdullah as one of the castle's servants) addressing him saying, "O Allah's Servant! Enter if you wish, for I want to close the gate." 'Abdullah added in his story, "So I went in (the castle) and hid myself. When the people got inside, the gate-keeper closed the gate and hung the keys on a fixed wooden peg. I got up and took the keys and opened the gate. Some people were staying late at night with Abu Rafi for a pleasant night chat in a room of his. When his companions of nightly entertainment went away, I ascended to him, and whenever I opened a door, I closed it from inside. I said to myself, 'Should these people discover my presence, they will not be able to catch me till I have killed him.' So I reached him and found him sleeping in a dark house amidst his family, I could not recognize his location in the house. So I shouted, 'O Abu Rafi!' Abu Rafi said, 'Who is it?' I proceeded towards the source of the voice and hit him with the sword, and because of my perplexity, I could not kill him. He cried loudly, and I came out of the house and waited for a while, and then went to him again and said, 'What is this voice, O Abu Rafi?' He said, 'Woe to your mother! A man in my house has hit me with a sword! I again hit him severely but I did not kill him. Then I drove the point of the sword into his belly (and pressed it through) till it touched his back, and I realized that I have killed him. I then opened the doors one by one till I reached the staircase, and thinking that I had reached the ground, I stepped out and fell down and got my leg broken in a moonlit night. I tied my leg with a turban and proceeded on till I sat at the gate, and said, 'I will not go out tonight till I know that I have killed him.' So, when (early in the morning) the cock crowed, the announcer of the casualty stood on the wall saying, 'I announce the death of Abu Rafi, the merchant of Hijaz. Thereupon I went to my companions and said, 'Let us save ourselves, for Allah has killed Abu Rafi,' So I (along with my companions proceeded and) went to the Prophet (ﷺ) and described the whole story to him. "He said, 'Stretch out your (broken) leg. I stretched it out and he rubbed it and it became All right as if I had never had any ailment whatsoever."