باب: ابو رافع ۔ یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصہ
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The killing of Ab Rafi’ ‘Abdullah bin Abi Al-Huqaiq)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا ۔ یہ خیبر میں رہتا تھا ۔ بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں حجاز کے ملک میں واقع تھا ۔ زہری نے کہا ابو رافع کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا ۔ ( رمضان 6ھ میں )
4040.
حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر آواز دی: اے اللہ کے بندے! میں دروازہ بند کر رہا ہوں اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر (قلعے کے) اندر داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آ چکے تو دربان نے دروازہ بند کر کے چابیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ ادھر ابو رافع کے پاس رات کے وقت قصہ گوئی ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے بالاخانہ میں رہتا تھا۔ جب داستان گو اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کی طرف چلنے لگا۔ جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی طرف سے اسے بند کر لیتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو مجھ تک ابو رافع کو قتل کرنے سے پہلے نہ آ سکیں۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک تاریک مکان میں اپنے بچوں کو درمیان سو رہا ہے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے اس لیے میں نے ابو رافع کہہ کر آواز دی۔ اس نے جواب دیا: تو کون ہے؟ میں آواز کی طرف جھکا اور اس پر تلوار سے زور دار وار کیا جبکہ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس ضرب سے کچھ کام نہ بنا۔ وہ چلانے لگا تو میں مکان سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر میں پھر اندر آیا اور میں نے کہا: اے ابو رافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا: تیری ماں پر مصیبت پڑے، ابھی ابھی کسی نے اس مکان میں مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان کہ میں نے پھر ایک اور بھرپور وار کیا مگر وہ بھی خالی گیا اگرچہ اس کو زخم لگ چکا تھا لیکن وہ اس سے مرا نہیں تھا، اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی، خوب زور دیا تو وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے مار ڈالا ہے تو میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا۔ چاندنی رات تھی، یہ خیال کر کے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آ گرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی پگڑی سے اسے باندھا اور باہر نکل کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں کہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، لہذا جب صبح کے وقت مرغ نے اذان دی تو موت کی خبر دینے والا دیوار پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: لوگو! میں تمہیں حجاز کے سوداگر ابو رافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی میں اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اور ان سے کہا: یہاں سے جلدی بھاگو۔ اللہ تعالٰی نے ابو رافع کو ہمارے ہاتھوں قتل کر دیا ہے۔ پھر وہاں سے نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو تمام قصہ سنایا۔ آپ نے مجھے فرمایا: ’’اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پھیلاؤ‘‘ چنانچہ میں نے اپنی پنڈلی پھیلائی تو آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیر دیا جس سے وہ ایسے ہو گئی گویا مجھے اس کی کبھی شکایت ہی نہ تھی۔
تشریح:
1۔ ابورافع یہودی کی اہل اسلام کے خلاف خباثتیں انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔ وہ ہروقت رسول اللہ ﷺکی ہجو کرتا تھا۔ ایسے حالات میں اسے قتل کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ آخر کار رسول اللہ ﷺنے چند خزرجی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی خواہش پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی قیادت میں پانچ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس کے قتل پر مامور کیا۔ انھوں نے اس بدطینت کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کیا۔ پہلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکرتھا جبکہ دوسری حدیث میں پاؤں کا جوڑ کھل جانے کا بیان ہے؟ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پنڈلی بھی ٹوٹی تھی اور پاؤں کا جوڑ بھی کھلا تھا۔ ان دونوں احادیث میں مختلف طرق سے ابورافع یہودی کے قتل کا بیان ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ ابورافع خیبر کے جس قلعے میں رہتا تھا وہ سرزمین حجاز کے قریب تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کر تکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قلعے میں تھا۔ یہ ممکن ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کرتکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قعلے میں تھا۔ یہ ممکن ہے کہ اس کا ایک مکان خیبر میں ہو اوردوسراحجاز میں۔ بہرحال قتل کے وقت وہ خیبر کے قلعے میں تھا۔ 3۔ ابورافع کے دو بھائی بھی تھے: ایک تو کنانہ جو حضرت صفیہ ؓ کا خاوند تھا اور دوسرا ربیع بن ابی الحقیق۔ ان دونوں کو فتح خیبر کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ (فتح الباري:427/7) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان دونوں سرداروں کے قتل سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین کے حالات کا تجسس کرناجائز ہے۔ اور جب ان کی ایذارسانی حد سے بڑھ جائے توان کی بے عزتی کرنا اور انھیں اچانک قتل کرناجائز ہے نیز کسی کافر کو اپنے کفر پراصرار ہوتو ایسے لوگوں کو قبل از قتل دعوت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ (فتح الباري:431/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3888
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4040
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4040
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4040
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا ۔اسلام اور مسلمانوں کا سخت ترین دشمن،ہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بُرائی اور مذمت کیا کرتاتھا۔چونکہ دشمن دین کعب بن اشرف کو قبیلہ اوس کے انصار نے قتل کیا تھا۔اس لیے ابورافع یہودی کو قتل کرنے کے لیے قبیلہ خزرج کے انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔آپ نے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں حضرت مسعود بن سنان ،عبداللہ بن انیس،ابوقتادہ ،خزاعی بن اسود اور عبداللہ بن عتبہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو روانا فرمایا،چنانچہ قبیلہ خزرج کے جوانوں نے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔( فتح الباری 428/7۔)
کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا ۔ یہ خیبر میں رہتا تھا ۔ بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں حجاز کے ملک میں واقع تھا ۔ زہری نے کہا ابو رافع کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا ۔ ( رمضان 6ھ میں )
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر آواز دی: اے اللہ کے بندے! میں دروازہ بند کر رہا ہوں اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر (قلعے کے) اندر داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آ چکے تو دربان نے دروازہ بند کر کے چابیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ ادھر ابو رافع کے پاس رات کے وقت قصہ گوئی ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے بالاخانہ میں رہتا تھا۔ جب داستان گو اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کی طرف چلنے لگا۔ جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی طرف سے اسے بند کر لیتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو مجھ تک ابو رافع کو قتل کرنے سے پہلے نہ آ سکیں۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک تاریک مکان میں اپنے بچوں کو درمیان سو رہا ہے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے اس لیے میں نے ابو رافع کہہ کر آواز دی۔ اس نے جواب دیا: تو کون ہے؟ میں آواز کی طرف جھکا اور اس پر تلوار سے زور دار وار کیا جبکہ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس ضرب سے کچھ کام نہ بنا۔ وہ چلانے لگا تو میں مکان سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر میں پھر اندر آیا اور میں نے کہا: اے ابو رافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا: تیری ماں پر مصیبت پڑے، ابھی ابھی کسی نے اس مکان میں مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ کا بیان کہ میں نے پھر ایک اور بھرپور وار کیا مگر وہ بھی خالی گیا اگرچہ اس کو زخم لگ چکا تھا لیکن وہ اس سے مرا نہیں تھا، اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی، خوب زور دیا تو وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے مار ڈالا ہے تو میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا۔ چاندنی رات تھی، یہ خیال کر کے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آ گرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی پگڑی سے اسے باندھا اور باہر نکل کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں کہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، لہذا جب صبح کے وقت مرغ نے اذان دی تو موت کی خبر دینے والا دیوار پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: لوگو! میں تمہیں حجاز کے سوداگر ابو رافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔ یہ سنتے ہی میں اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اور ان سے کہا: یہاں سے جلدی بھاگو۔ اللہ تعالٰی نے ابو رافع کو ہمارے ہاتھوں قتل کر دیا ہے۔ پھر وہاں سے نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو تمام قصہ سنایا۔ آپ نے مجھے فرمایا: ’’اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پھیلاؤ‘‘ چنانچہ میں نے اپنی پنڈلی پھیلائی تو آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیر دیا جس سے وہ ایسے ہو گئی گویا مجھے اس کی کبھی شکایت ہی نہ تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابورافع یہودی کی اہل اسلام کے خلاف خباثتیں انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔ وہ ہروقت رسول اللہ ﷺکی ہجو کرتا تھا۔ ایسے حالات میں اسے قتل کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ آخر کار رسول اللہ ﷺنے چند خزرجی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی خواہش پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی قیادت میں پانچ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس کے قتل پر مامور کیا۔ انھوں نے اس بدطینت کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کیا۔ پہلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکرتھا جبکہ دوسری حدیث میں پاؤں کا جوڑ کھل جانے کا بیان ہے؟ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پنڈلی بھی ٹوٹی تھی اور پاؤں کا جوڑ بھی کھلا تھا۔ ان دونوں احادیث میں مختلف طرق سے ابورافع یہودی کے قتل کا بیان ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ ابورافع خیبر کے جس قلعے میں رہتا تھا وہ سرزمین حجاز کے قریب تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کر تکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قلعے میں تھا۔ یہ ممکن ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کرتکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قعلے میں تھا۔ یہ ممکن ہے کہ اس کا ایک مکان خیبر میں ہو اوردوسراحجاز میں۔ بہرحال قتل کے وقت وہ خیبر کے قلعے میں تھا۔ 3۔ ابورافع کے دو بھائی بھی تھے: ایک تو کنانہ جو حضرت صفیہ ؓ کا خاوند تھا اور دوسرا ربیع بن ابی الحقیق۔ ان دونوں کو فتح خیبر کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ (فتح الباري:427/7) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان دونوں سرداروں کے قتل سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین کے حالات کا تجسس کرناجائز ہے۔ اور جب ان کی ایذارسانی حد سے بڑھ جائے توان کی بے عزتی کرنا اور انھیں اچانک قتل کرناجائز ہے نیز کسی کافر کو اپنے کفر پراصرار ہوتو ایسے لوگوں کو قبل از قتل دعوت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ (فتح الباري:431/7)
ترجمۃ الباب:
وہ خیبر میں رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حجاز مقدس میں اس کا قلعہ تھا وہ اس میں رہتا تھا۔ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: اسے کعب بن اشرف کے بعد قتل کیا گیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا ، ہم سے شریح ابن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے ، ان سے ابو اسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن عتیک اور عبداللہ بن عتبہ ؓ کو چند صحابہ کے ساتھ ابو رافع ( کے قتل ) کے لیے بھیجا ۔ یہ لوگ روانہ ہوئے جب اس کے قلعہ کے نزدیک پہنچے تو عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہر جاؤ پہلے میں جاتا ہوں ، دیکھوں صورت حال کیا ہے ۔ عبداللہ بن عتیک ؓ نے بیان کیا کہ ( قلعہ کے قریب پہنچ کر ) میں اندر جانے کے لیے تدابیر کرنے لگا ۔ اتفاق سے قلعہ کا ایک گدھا گم تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس گدھے کو تلاش کرنے کے لیے قلعہ والے روشنی لے کر باہر نکلے ۔ بیان کیا کہ میں ڈراکہ کہیں مجھے کوئی پہچان نہ لے ۔ اس لیے میں نے اپنا سر ڈھک لیاجیسے کوئی قضائے حاجت کررہا ہے ۔ اس کے بعد دربان نے آواز دی کہ اس سے پہلے کہ میں دروازہ بند کرلوں جسے قلعہ کے اندر داخل ہونا ہے وہ جلدی آجائے ۔ میں نے ( موقع غنیمت سمجھا اور ) اندر داخل ہو گیا اور قلعہ کے دروازے کے پاس ہی جہاں گدھے باندھے جاتے تھے وہیں چھپ گیا ۔ قلعہ والوں نے ابو رافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسے قصے سناتے رہے ۔ آخر کچھ رات گئے وہ سب قلعہ کے اندر ہی اپنے اپنے گھروں میں واپس آگئے ۔ اب سناٹا چھا چکا تھا اور کہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی ۔ اس لیے میں اس طویلہ سے باہر نکلا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ دربان نے کنجی ایک طاق میں رکھی ہے ۔ میں نے پہلے کنجی اپنے قبضہ میں لے لی اور پھر سب سے پہلے قلعہ کا دروازہ کھولا ۔ بیان کیا کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرا علم ہوگیا تو میں بڑی آسانی کے ساتھ بھاگ سکوں گا ۔ اس کے بعد میں نے ان کے کمروں کے دروازے کھولنے شروع کئے اور انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا ۔ اب میں زینوں سے ابو رافع کے بالا خانوں تک پہنچ چکا تھا ۔ اس کے کمرہ میں اندھیرا تھا ۔ اس کا چراغ گل کردیا گیا تھا ۔ میں یہ نہیں اندازہ کرپایا تھا کہ ابو رافع کہاں ہے ۔ اس لیے میں نے آوازدی ، اے ابارافع ! اس پر وہ بولا کہ کون ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آواز کی طرف میں بڑھا اور میں نے تلوار سے اس پر حملہ کیا ۔ وہ چلانے لگا لیکن یہ وار اوچھا پڑاتھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر دوبارہ میں اس کے قریب پہنچا ، گویا میں اس کی مدد کو آیا ہوں ۔ میں نے آواز بدل کر پوچھا ۔ ابو رافع کیا بات پیش آئی ہے ؟ اس نے کہا تیری ماں غارت ہو ، ابھی کوئی شخص میرے کمرے میں آگیا اور اس نے تلوار سے مجھ پر حملہ کیا ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس مرتبہ پھر میں نے اس کی آواز کی طرف بڑھ کر دوبارہ حملہ کیا ۔ اس حملہ میں بھی وہ قتل ، نہ ہوسکا ۔ پھر وہ چلانے لگا اور اس کی بیوی بھی اٹھ گئی ( اور چلانے لگی ) انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بظاہر مدد گار بن کر پہنچا اور میں نے اپنی آواز بدل لی ۔ اس وقت وہ چت لیٹاہوا تھا ۔ میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے اسے دبایا ۔ آخر جب میں نے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سن لی تو میں وہاں سے نکلا ، بہت گھبرایا ہوا ۔ اب زینہ پر آچکا تھا ۔ میں اترنا چاہتا تھا کہ نیچے گر پڑا ۔ جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گیامیں نے اس پر پٹی باندھی اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری سناؤ ۔ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اس کی موت کا اعلان نہ سن لوں ۔ چنانچہ صبح کے وقت موت کا اعلان کرنے والا ( قلعہ کی فصیل پر ) چڑھا اوراس نے اعلان کیا کہ ابورافع کی موت واقع ہو گئی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں چلنے کے لیے اٹھا ، مجھے ( کامیابی کی خوشخبری میں ) کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی ۔ اس سے پہلے کہ میرے ساتھی حضور ﷺ کرم ﷺ کی خد مت میں پہنچیں ، میں نے اپنے ساتھیوں کو پالیا ۔ آنحضرت ﷺ کو خوشخبری سنائی ۔
حدیث حاشیہ:
ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا۔ رئیس التجار اور تاجر الحجاز سے مشہور تھا۔ اسلام کا سخت ترین دشمن ہر وقت رسول کریم ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ غزوئہ خندق کے موقع پر عرب کے مشہور قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ابھارا تھا۔ آخر چند خزرجی صحابیوں کی خواہش پر آنحضرت ﷺ نے عبد اللہ بن عتیک انصاری کی قیادت میں پانچ آدمیوں کو اس کے قتل پر مامور فرمایا تھا۔ ساتھ میں تاکید فرمائی کہ عورتوں اور بچوں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔ چنانچہ وہ ہوا جو حدیث بالا میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ بعض دفعہ قیام امن کے لیے ایسے مفسدوں کا قتل کرنا دنیا کے ہر قانون میں ضروری ہوجاتا ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ مِمَّا صَنَعَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ أَنَّ الْأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ كَانَا يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ لَا تَصْنَعُ الْأَوْسُ شَيْئًا إِلَّا قَالَتِ الْخَزْرَجُ وَاللَّهِ لَا تَذْهَبُونَ بِهَذِهِ فَضْلًا عَلَيْنَا وَكَذَلِكَ الْأَوْسُ فَلَمَّا أَصَابَتِ الْأَوْسُ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ تَذَاكَرَتِ الْخَزْرَجُ مَنْ رَجُلٌ لَهُ مِنَ الْعَدَاوَةِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ لِكَعْبٍ فَذكرُوا بن أَبِي الْحُقَيْقِ وَهُوَ بِخَيْبَرَ (فتح الباري) یعنی اوس اور خزرج کا باہمی حال یہ تھا کہ وہ دونوں قبیلے آپس میں اس طرح رشک کرتے تھے جیسے دو سانڈ آپس میں رشک کرتے ہیں ۔ جب قبیلہ اوس کے ہاتھوں کوئی اہم کام انجام پاتا تو خزرج والے کہتے کہ قسم اللہ کی اس کام کو کرکے تم فضیلت میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم اس سے بھی بڑا کوئی کام انجام دیں گے۔ اوس کا بھی یہی خیال رہتا تھا ۔ جب قبیلہ اوس نے کعب بن اشرف کو ختم کیا تو خزرج نے سوچا کہ ہم کسی اس سے بڑے دشمن کا خاتمہ کریں گے جو رسول کریم ﷺ کی عداوت میں اس سے بڑھ کر ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ابن ابی الحقیق کا انتخاب کیا جو خیبر میں رہتا تھا اور رسول کریم ﷺ کی عداوت میں یہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ اوس کے جوانوں نے اس ظالم کا خاتمہ کیا۔ جس کی تفصیل یہاں مذکور ہے۔ روایت میں ابورافع کی جو رو کے جاگنے کا ذکر آیا ہے۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ وہ جاگ کر چلانے لگی۔ عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر تلوار اٹھائی لیکن فوراً مجھ کو فرمان نبوی یاد آگیا اور میں نے اسے نہیں مارا۔ آگے حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی ہڈی سرک جانے کا ذکر ہے۔ اگلی روایت میں پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکر ہے۔ اور اس میں جوڑ کھل جانے کا دونوں باتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور جوڑ بھی کسی جگہ سے کھل گیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara: Allah's Apostle (ﷺ) sent 'Abdullah bin 'Atik and 'Abdullah bin 'Utba with a group of men to Abu Rafi (to kill him). They proceeded till they approached his castle, whereupon 'Abdullah bin Atik said to them, "Wait (here), and in the meantime I will go and see." 'Abdullah said later on, "I played a trick in order to enter the castle. By chance, they lost a donkey of theirs and came out carrying a flaming light to search for it. I was afraid that they would recognize me, so I covered my head and legs and pretended to answer the call to nature. The gatekeeper called, 'Whoever wants to come in, should come in before I close the gate.' So I went in and hid myself in a stall of a donkey near the gate of the castle. They took their supper with Abu Rafi and had a chat till late at night. Then they went back to their homes. When the voices vanished and I no longer detected any movement, I came out. I had seen where the gate-keeper had kept the key of the castle in a hole in the wall. I took it and unlocked the gate of the castle, saying to myself, 'If these people should notice me, I will run away easily.' Then I locked all the doors of their houses from outside while they were inside, and ascended to Abu Rafi by a staircase. I saw the house in complete darkness with its light off, and I could not know where the man was. So I called, 'O Abu Rafi!' He replied, 'Who is it?' I proceeded towards the voice and hit him. He cried loudly but my blow was futile. Then I came to him, pretending to help him, saying with a different tone of my voice, ' What is wrong with you, O Abu Rafi?' He said, 'Are you not surprised? Woe on your mother! A man has come to me and hit me with a sword!' So again I aimed at him and hit him, but the blow proved futile again, and on that Abu Rafi cried loudly and his wife got up. I came again and changed my voice as if I were a helper, and found Abu Rafi lying straight on his back, so I drove the sword into his belly and bent on it till I heard the sound of a bone break. Then I came out, filled with astonishment and went to the staircase to descend, but I fell down from it and got my leg dislocated. I bandaged it and went to my companions limping. I said (to them), 'Go and tell Allah's Apostle (ﷺ) of this good news, but I will not leave (this place) till I hear the news of his (i.e. Abu Rafi's) death.' When dawn broke, an announcer of death got over the wall and announced, 'I convey to you the news of Abu Rafi's death.' I got up and proceeded without feeling any pain till I caught up with my companions before they reached the Prophet (ﷺ) to whom I conveyed the good news."